باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The arrival of the Prophet (saws) at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3929.
حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے، جو انصاری خاتون ہیں اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کی میزبانی کے لیے قرعہ اندزی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ان کے حصے میں آئے۔ وہ ہمارے پاس آ کر بیمار ہو گئے تو میں نے ان کی خوب دیکھ بھال کی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں رہنے دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو، میری تمہارے لیے گواہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے ہاں اکرام سے نوازا ہے۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟‘‘ حضرت ام علاء ؓ نے عرض کیا: واقعی مجھے کوئی علم نہیں ہے لیکن اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ اور کسے نوازے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’واقعی عثمان انتقال کر چکے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں ان کے لیے اچھی امید رکھتا ہوں لیکن حتمی طور پر میں اپنے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا، حالانکہ میں اللہ تعالٰی کا رسول ہوں۔‘‘ حضرت ام علاء ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کسی کا تزکیہ نہیں کروں گی، البتہ مجھے اس واقعے سے کافی رنج ہوا۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ عثمان کا عمل ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اللہ تعالیٰ کا دربار عجیب استغناء کا شاہکار ہے۔ انسان کتنا ہی بلند مرتبہ ہو لیکن اللہ کی بے پروائی اور کبریائی سے بے خوف نہیں ہو سکتا ۔ قرآن کریم میں ہے۔ ’’آپ کہہ دیجیے !میں کوئی نرالا رسول اللہ ﷺ نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔‘‘ (الأحقاف:46۔9) حدیث میں اسی امر کو بیان کیا گیا ہے۔ 3۔اس حدیث کے آخر میں ہے کہ عثمان بن مظعون ؓ کا نیک عمل ایک جاری چشمے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتےہیں اور برے اعمال ایک بد صورت آدمی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ (مسند أحمد:288/4) ہر دو احادیث برحق ہیں اور ان میں نیکو کار اور بدکردار لوگوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ اصل حقیقت تو قیامت کے دن کھل کر سامنے آئے گی۔ اللہ نے اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو بتایا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے۔ اور بس۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا لیکن بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد ماہ محرم ہی میں ہجرت کا عزم کر لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ یا بارہ ربیع الاول بروز سوموار کو مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ سے پہلے مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے اس کی تفصیل ہجرت کے باب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے، جو انصاری خاتون ہیں اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کی میزبانی کے لیے قرعہ اندزی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ان کے حصے میں آئے۔ وہ ہمارے پاس آ کر بیمار ہو گئے تو میں نے ان کی خوب دیکھ بھال کی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں رہنے دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو، میری تمہارے لیے گواہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے ہاں اکرام سے نوازا ہے۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟‘‘ حضرت ام علاء ؓ نے عرض کیا: واقعی مجھے کوئی علم نہیں ہے لیکن اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ اور کسے نوازے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’واقعی عثمان انتقال کر چکے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں ان کے لیے اچھی امید رکھتا ہوں لیکن حتمی طور پر میں اپنے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا، حالانکہ میں اللہ تعالٰی کا رسول ہوں۔‘‘ حضرت ام علاء ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کسی کا تزکیہ نہیں کروں گی، البتہ مجھے اس واقعے سے کافی رنج ہوا۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ عثمان کا عمل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اللہ تعالیٰ کا دربار عجیب استغناء کا شاہکار ہے۔ انسان کتنا ہی بلند مرتبہ ہو لیکن اللہ کی بے پروائی اور کبریائی سے بے خوف نہیں ہو سکتا ۔ قرآن کریم میں ہے۔ ’’آپ کہہ دیجیے !میں کوئی نرالا رسول اللہ ﷺ نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔‘‘ (الأحقاف:46۔9) حدیث میں اسی امر کو بیان کیا گیا ہے۔ 3۔اس حدیث کے آخر میں ہے کہ عثمان بن مظعون ؓ کا نیک عمل ایک جاری چشمے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتےہیں اور برے اعمال ایک بد صورت آدمی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ (مسند أحمد:288/4) ہر دو احادیث برحق ہیں اور ان میں نیکو کار اور بدکردار لوگوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ اصل حقیقت تو قیامت کے دن کھل کر سامنے آئے گی۔ اللہ نے اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو بتایا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے۔ اور بس۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبردی، انہیں خارجہ بن زید بن ثابت نے کہ (ان کی والدہ) ام علاءؓ (ایک انصاری خاتون جنہوں نے نبی کریم سے بیعت کی تھی)، نے انہیں خبر دی کہ جب انصار نے مہاجرین کی میز بانی کے لئے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون ان کے گھرانے کے حصے میں آئے تھے۔ ام علاءؓ نے بیان کیا کہ پھر عثمان ؓ ہمارے یہاں بیمار پڑ گئے۔ میں نے ان کی پوری طرح تیمار داری کی وہ نہ بچ سکے۔ ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں لپیٹ دیا تھا۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ بھی تشریف لائے تو میں نے کہا ابو سائب! (عثمان ؓ کی کنیت) تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں، میری تمہارے متعلق گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے۔ یہ سن کر حضور ا کرم ﷺ نے فرمایا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے تو اس سلسلے میں کچھ خبر نہیں ہے، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یارسول اللہ! لیکن اور کسے نوازے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا اس میں تو واقعی کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایک یقینی امر (موت) ان کی آ چکی ہے، خدا کی قسم کہ میں بھی ان کے کئے اللہ تعالیٰ سے خیر خواہی کی امید رکھتا ہوں لیکن میں حالانکہ اللہ کا رسول ہوں خود اپنے متعلق نہیں جان سکتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ام علا ءؓ نے عرض کیا پھر خدا کی قسم کہ اس کے بعد میں اب کسی کے بارے میں اس کی پاکی نہیں کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل تھا۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ عثمان ؓ کا حال کیا ہونا ہے۔ اس روایت پر تو کوئی اشکال نہیں۔ لیکن محفوظ یہی روایت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا حال کیا ہونا ہے۔ جیسے قرآن شریف میں ہے ﴿ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾(الأحقاف:9) کہتے ہیں یہ آیت اور حدیث اس زمانہ کی ہے جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی ﴿ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾(الفتح:2) اور آپ کو قطعاً یہ نہیں بتلایا گیا تھا کہ آپ سب اگلے پچھلے سے افضل ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ عمدہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بار گاہ عجب مستغنی بارگاہ ہے آدمی کیسے ہی درجہ پر پہنچ جائے مگر اس کے استغنا اور کبریائی سے بے ڈر نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک ایسا شہنشاہ ہے جو چاہے وہ کر ڈالے رتی برابر اسکو کسی کا اندیشہ نہیں۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اپنے مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ ایسا مستغنی اور بے پروا ہے کہ اگر چاہے تو سب پیغمبروں اور نیک بندوں کو دم بھرمیں دوزخی بنا دے اور سارے بد کار اور کفار کو بہشت میں لے جاوے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ ان کا نیک عمل چشمہ کی صورت میں ان کے لئے ظاہر ہوا۔ دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں اور برے عمل بد صورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ہر دو حدیث برحق ہیں اور ان میں نیکوں اور بدوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Um al-'Ala: An Ansari woman who gave the pledge of allegiance to the Prophet (ﷺ) that the Ansar drew lots concerning the dwelling of the Emigrants. 'Uthman bin Maz'un was decided to dwell with them (i.e. Um al-'Ala's family), 'Uthman fell ill and I nursed him till he died, and we covered him with his clothes. Then the Prophet (ﷺ) came to us and I (addressing the dead body) said, "O Abu As-Sa'ib, may Allah's Mercy be on you! I bear witness that Allah has honored you." On that the Prophet (ﷺ) said, "How do you know that Allah has honored him?" I replied, "I do not know. May my father and my mother be sacrificed for you, O Allah's Apostle (ﷺ) ! But who else is worthy of it (if not 'Uthman)?" He said, "As to him, by Allah, death has overtaken him, and I hope the best for him. By Allah, though I am the Apostle of Allah (ﷺ) , yet I do not know what Allah will do to me," By Allah, I will never assert the piety of anyone after him. That made me sad, and when I slept I saw in a dream a flowing stream for 'Uthman bin Maz'un. I went to Allah's Apostle (ﷺ) and told him of it. He remarked, "That symbolizes his (good) deeds."