جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس یہودیوں کے آنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The coming of the Jews to the Prophet (saws) on his arrival at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
3942.
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب ہے کہ الفاظ حدیث کی مناسبت سے قرآنی الفاظ کی لغوی معنی تشریح کرتے ہیں،چونکہ حدیث میں قوم یہود کا ذکر آیا ہے،اس لیے قرآن میں آنے والے دوالفاظ کی تشریح کردی۔پہلا لفظ(هَادُوا) ہے جو سورہ مائدہ:(41) میں ہے اس کے معنی ہیں: وہ لوگ جو یہودی ہوئے اوردوسرا لفظ(هُدْنَا)ہے جو سورہ اعراف:(156) میں ہے۔اس کے معنی"ہم نے توبہ کی" ہیں۔ابوعبیدہ نے بھی اسی طرح ان الفاظ کی تشریح کی ہے۔( عمدۃ القاری 660/11۔)
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ پھر آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
قرآن میں (هَادُوا) کے معنی ہیں: "انہوں نے یہودیت کو اختیار کیا۔" اور (هُدْنَا) کے معنی ہیں: "ہم نے توبہ کی۔" اسی سے هائد بنا ہے جس کے معنی ہیں توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے احمد یا محمد بن عبید اللہ غدانی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا کہ انہیں ابو عمیس نے خبر دی، انہیں قیس بن مسلم نے، انہیں طارق بن شہاب نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن کے روزے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری کا ذکر ہے۔ باب کا مطلب اسی سے نکلا۔ بعد میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھے اسے چاہیے کہ یہودیوں کی مخالفت کے لئے اس میں نویں یا گیارہویں تاریخ کے دن یعنی ایک روزہ اور بھی رکھ لے۔ اب یہ روزہ رکھنا سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): When the Prophet (ﷺ) arrived at Medina, he noticed that some people among the Jews used to respect Ashura' (i.e. 10th of Muharram) and fast on it. The Prophet (ﷺ) then said, "We have more right to observe fast on this day." and ordered that fasting should be observed on it.