باب: بدر کی لڑائی میں فلاں فلاں مارے جائیں گے۔ اس کے متعلق آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Prophet’s (saws) prediction about whom he thought would be killed at Badr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3950.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ ؓ زمانہ جاہلیت میں امیہ بن خلف کے دوست تھے اور امیہ جب مدینہ طیبہ سے گزرتا تو ان کے پاس ٹھہرتا تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن معاذ ؓ مکہ مکرمہ جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے تنہائی کا وقت دیکھو تاکہ میں عمرہ کر لوں، چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت اپنے ساتھ لے کر نکلا تو ان کی ابوجہل سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ سعد بن معاذ ہیں۔ ابوجہل نے کہا: میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم لوگوں نے بے دین حضرات کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور تم اپنے خیال کے مطابق ان کا تعاون بھی کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر اس وقت تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے بآواز بلند ابوجہل سے کہا: خبردار! اللہ کی قسم! اگر تو مجھے اس وقت طواف سے روکے گا تو میں بھی تجھے اس سے سخت کام سے منع کروں گا، یعنی مدینے کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر لوں گا۔ امیہ کہنے لگا: اے سعد! ابوالحکم کے سامنے بلند آواز سے گفتگو نہ کرو۔ یہ اس وادی کا سردار ہے۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: امیہ تم اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں: ’’یقینا وہ تجھے قتل کریں گے۔‘‘ امیہ نے پوچھا: کیا (وہ) مکہ میں (مجھے قتل کر دیں گے)؟ انہوں نے فرمایا: مجھے اس کا علم نہیں۔ یہ سن کر امیہ بہت گھبرایا۔ جب وہ اپنی بیوی کے پاس لوٹا تو اس نے کہا: ام صفوان! تجھے معلوم ہے کہ مجھے سعد نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا: کیا کہا ہے؟ امیہ نے کہا: اس نے بتایا ہے کہ محمد کے کہنے کے مطابق وہ مجھے کسی نہ کسی دن موت کے گھوٹ اتار دیں گے۔ میں نے پوچھا: کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا: مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ امیہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! اب میں مکہ سے باہر کبھی نہیں جاؤں گا، چنانچہ جب غزوہ بدر کا موقع آیا تو ابوجہل نے لوگوں کو لڑائی کی تیاری کے لیے کہا، نیز انہیں ابھارا کہ تم اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے نکلو، لیکن امیہ نے مکے سے باہر نکلنے کو پسند نہ کیا۔ ابوجہل نے اس کے پاس آ کر کہا: ابے ابو صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم لڑائی کے لیے نہیں نکل رہے تو وہ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل مسلسل اصرار کرتا رہا حتی کہ امیہ نے کہا: اگر تو مجھے مجبور کرتا ہے تو اللہ کی قسم! میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدتا ہوں جس کا مکے میں کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ پھر امیہ ملعون نے (اپنی بیوی سے) کہا: اے ام صفوان! میرا جنگی سامان تیار کرو۔ اس نے کہا: اے ابو صفوان! کیا تم اپنے یثربی بھائی (دوست) کی بات بھول گئے ہو؟ امیہ بولا: میں بھولا نہیں ہوں لیکن ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستے میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا یہ اپنا اونٹ قریب ہی باندھ لیتا۔ وہ مسلسل ایسے ہی احتیاط کرتا رہا حتی کہ اللہ تعالٰی نے اسے میدان بدر میں کیفرکردار تک پہنچا دیا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح بنتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کے بارے میں بہت پہلے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسے قتل کردیا جائے گا، لیکن صحیح مسلم کے حوالے سے ہم نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس عنوان کے زیاہ حسب حال ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کی رات نشاندہی فرمائی تھی کہ فلاں کی قتل گاہ، یہ اورفلاں کی یہ ہے۔ واللہ اعلم۔ 2۔ علامہ کرمانی ؒ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی اسے قتل کریں گے۔ اگرچہ اسے مسلمانوں نے اسے قتل کیا تھا لیکن ابوجہل اس کے قتل کا سبب بنا کیونکہ اسی نے امیہ کو مکے سے نکلنے پر مجبور کیا تھا لہذا قتل کی نسبت ابوجہل اوراس کے ساتھیوں کی طرف کرنا صحیح ہے۔ (حاشیة کرماني:188/7) لیکن یہ مؤقف اختیار کرنے سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس موقف کی تردید کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ اس میں اس نے بیوی سے کہا تھا کہ میرے متعلق محمدﷺ نے خبردی ہے کہ وہ میرے قاتل ہیں۔ یہاں ابوجہل کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس بنا پر علامہ کرمانی کو وہم ہوا ہے۔ (فتح الباري:353/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3804
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3950
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3950
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3950
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے کفار کے مقتولین کی نشاندہی فرمائی تھی۔آپ ہاتھ سے اشارہ فرماتے تھے کہ کل یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ آپ نے جو مقام کفار کے متعلق بتائے تھے وہ انھیں جگہوں میں مارے گئے۔( صحیح مسلم الجھاد حدیث:4621(1779))
اس باب میں امام مسلم نے جوروایت کی ہے وہ زیادہ مناسب ہے کہ آنحضرت ﷺنے جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت عمر ؓ کوبتلادیا تھا کہ اس جگہ فلاں کافر مارا جائے گا اور اس جگہ فلاں۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے جو جو مقام ہرہر کافر کے لیے بتلائے تھے وہ کافر ان ہی جگہوں پر مارے گئے۔ یہ آپ کا ایک کھلا ہوا معجزہ تھا اور باب کی حدیث میں جو پیشن گوئی ہے وہ جنگ بدر سے بہت پہلے کی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ ؓ زمانہ جاہلیت میں امیہ بن خلف کے دوست تھے اور امیہ جب مدینہ طیبہ سے گزرتا تو ان کے پاس ٹھہرتا تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن معاذ ؓ مکہ مکرمہ جاتے تو اس کے پاس قیام کرتے۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے تنہائی کا وقت دیکھو تاکہ میں عمرہ کر لوں، چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت اپنے ساتھ لے کر نکلا تو ان کی ابوجہل سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ سعد بن معاذ ہیں۔ ابوجہل نے کہا: میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم لوگوں نے بے دین حضرات کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور تم اپنے خیال کے مطابق ان کا تعاون بھی کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر اس وقت تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے بآواز بلند ابوجہل سے کہا: خبردار! اللہ کی قسم! اگر تو مجھے اس وقت طواف سے روکے گا تو میں بھی تجھے اس سے سخت کام سے منع کروں گا، یعنی مدینے کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر لوں گا۔ امیہ کہنے لگا: اے سعد! ابوالحکم کے سامنے بلند آواز سے گفتگو نہ کرو۔ یہ اس وادی کا سردار ہے۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: امیہ تم اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں: ’’یقینا وہ تجھے قتل کریں گے۔‘‘ امیہ نے پوچھا: کیا (وہ) مکہ میں (مجھے قتل کر دیں گے)؟ انہوں نے فرمایا: مجھے اس کا علم نہیں۔ یہ سن کر امیہ بہت گھبرایا۔ جب وہ اپنی بیوی کے پاس لوٹا تو اس نے کہا: ام صفوان! تجھے معلوم ہے کہ مجھے سعد نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا: کیا کہا ہے؟ امیہ نے کہا: اس نے بتایا ہے کہ محمد کے کہنے کے مطابق وہ مجھے کسی نہ کسی دن موت کے گھوٹ اتار دیں گے۔ میں نے پوچھا: کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا: مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ امیہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! اب میں مکہ سے باہر کبھی نہیں جاؤں گا، چنانچہ جب غزوہ بدر کا موقع آیا تو ابوجہل نے لوگوں کو لڑائی کی تیاری کے لیے کہا، نیز انہیں ابھارا کہ تم اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے نکلو، لیکن امیہ نے مکے سے باہر نکلنے کو پسند نہ کیا۔ ابوجہل نے اس کے پاس آ کر کہا: ابے ابو صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم لڑائی کے لیے نہیں نکل رہے تو وہ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل مسلسل اصرار کرتا رہا حتی کہ امیہ نے کہا: اگر تو مجھے مجبور کرتا ہے تو اللہ کی قسم! میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدتا ہوں جس کا مکے میں کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ پھر امیہ ملعون نے (اپنی بیوی سے) کہا: اے ام صفوان! میرا جنگی سامان تیار کرو۔ اس نے کہا: اے ابو صفوان! کیا تم اپنے یثربی بھائی (دوست) کی بات بھول گئے ہو؟ امیہ بولا: میں بھولا نہیں ہوں لیکن ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستے میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا یہ اپنا اونٹ قریب ہی باندھ لیتا۔ وہ مسلسل ایسے ہی احتیاط کرتا رہا حتی کہ اللہ تعالٰی نے اسے میدان بدر میں کیفرکردار تک پہنچا دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح بنتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیہ کے بارے میں بہت پہلے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسے قتل کردیا جائے گا، لیکن صحیح مسلم کے حوالے سے ہم نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس عنوان کے زیاہ حسب حال ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کی رات نشاندہی فرمائی تھی کہ فلاں کی قتل گاہ، یہ اورفلاں کی یہ ہے۔ واللہ اعلم۔ 2۔ علامہ کرمانی ؒ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی اسے قتل کریں گے۔ اگرچہ اسے مسلمانوں نے اسے قتل کیا تھا لیکن ابوجہل اس کے قتل کا سبب بنا کیونکہ اسی نے امیہ کو مکے سے نکلنے پر مجبور کیا تھا لہذا قتل کی نسبت ابوجہل اوراس کے ساتھیوں کی طرف کرنا صحیح ہے۔ (حاشیة کرماني:188/7) لیکن یہ مؤقف اختیار کرنے سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس موقف کی تردید کے لیے یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ اس میں اس نے بیوی سے کہا تھا کہ میرے متعلق محمدﷺ نے خبردی ہے کہ وہ میرے قاتل ہیں۔ یہاں ابوجہل کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس بنا پر علامہ کرمانی کو وہم ہوا ہے۔ (فتح الباري:353/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابو اسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمروبن میمون نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ حضرت سعد بن معاذ ؓ سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ امیہ بن خلف کے (جاہلیت کے زمانے سے) دوست تھے اور جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے یہاں قیام کرتاتھا۔ اسی طرح حضرت سعد ؓ جب مکہ سے گزر تے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے۔ جب نبی کریم ﷺ مدینہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو ایک مرتبہ حضرت سعد ؓ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاؤ تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں۔ چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا۔ ان سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی۔ اس نے پوچھا، ابو صفوان! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ ؓ ہیں۔ ابوجہل نے کہا، میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کروگے۔ خدا کی قسم! اگر اس وقت تم، ابوصفوان! امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جاسکتے تھے۔ اس پر سعد نے کہا، اس وقت ان کی آواز بلند ہوگئی تھی کہ اللہ کی قسم اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں بھی مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کردوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ امیہ کہنے لگا، سعد! ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو۔ یہ وادی کا سردار ہے۔ سعد ؓ نے کہا، امیہ! اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم کہ میں رسولﷺ سے سن چکا ہوں کہ تو ان کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ امیہ نے پوچھا۔ کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ امیہ یہ سن کربہت گھبرا گیا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! دیکھا نہیں سعد ؓ میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا کہہ رہے ہیں؟ امیہ نے کہاکہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ محمد نے انہیں خبر دی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ مجھے قتل کردیں گے۔ میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ امیہ کہنے لگا خدا کی قسم اب مکہ سے باہر میں کبھی نہیں جاوں گا۔ پھر بد ر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلہ کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسندنہیں کی، لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے ہو تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھا تا رہا۔ آخر مجبور ہوکر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم (اس لڑائی کے لیے) میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو۔ پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! میرا سامان تیار کردے۔ اس نے کہا، ابوصفوان! اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا، میں بھولا نہیں ہوں۔ ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا، یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس ہی) باندھے رکھتا۔ وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرادیا۔
حدیث حاشیہ:
باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امیہ کے مارے جانے سے پہلے ہی اس کے قتل کی خبر دے دی تھی۔ کرمانی نے الفاظ إنھم قاتلوك کی تفسیر یہ کی ہے کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی تجھ کو قتل کرائیں گے۔ امیہ کو اس وجہ سے تعجب ہوا کہ ابوجہل تو میرا دوست ہے وہ مجھ کو کیونکر قتل کرائے گا۔ اس صورت میں قتل کرانے کامطلب یہ ہے کہ وہ تیرے قتل کا سبب بنے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ امیہ بدرکی لڑائی میں جانے پر راضی نہ تھا، لیکن ابوجہل زبردستی اس کو پکڑکر لے گیا۔ امیہ جانتا تھا کہ حضرت محمد ﷺ جو بات کہہ دیں وہ ہوکر رہے گی۔ اگرچہ اس نے واپس بھاگنے کے لیے تیز رفتار اونٹ ہمراہ لیا مگر وہ انٹ کچھ کام نہ آیااور امیہ بھی جنگ بدر میں قتل ہوا۔ خود حضرت بلال ؓ نے اسے قتل کیا جسے کسی زمانہ میں وہ سخت سے سخت تکلیف دیا کرتا تھا۔ حضرت سعد ؓ نے ابوجہل کو اس سے ڈرایا کہ مکہ کے لوگ شام کے لیے براستہ مدینہ جایا کرتے تھے اور ان کی تجارت کا دارومدار شام ہی کی تجارت پر تھا۔ بعض شارحین نے إنھم قاتلوك سے مسلمان مراد لیے ہیں اور کرمانی کے قول کو ان کا وہم قرار دیا ہے۔ (قسطلانی) بہر حال حضرت سعد ؓ نے جو کچھ کہا تھا اللہ نے اسے پورا کیا اور امیہ جنگ بدر میں قتل ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): From Sad bin Mu'adh: Sad bin Mu'adh was an intimate friend of Umaiya bin Khalaf and whenever Umaiya passed through Medina, he used to stay with Sad, and whenever Sad went to Makkah, he used to stay with Umaiya. When Allah's Apostle (ﷺ) arrived at Medina, Sa'd went to perform 'Umra and stayed at Umaiya's home in Makkah. He said to Umaiya, "Tell me of a time when (the Mosque) is empty so that I may be able to perform Tawaf around the Ka’bah." So Umaiya went with him about midday. Abu Jahl met them and said, "O Abu Safwan! Who is this man accompanying you?" He said, "He is Sad." Abu Jahl addressed Sad saying, "I see you wandering about safely in Makkah inspite of the fact that you have given shelter to the people who have changed their religion (i.e. became Muslims) and have claimed that you will help them and support them. By Allah, if you were not in the company of Abu Safwan, you would not be able to go your family safely." Sad, raising his voice, said to him, "By Allah, if you should stop me from doing this (i.e. performing Tawaf) I would certainly prevent you from something which is more valuable for you, that is, your passage through Medina." On this, Umaiya said to him, "O Sad do not raise your voice before Abu-l-Hakam, the chief of the people of the Valley (of Makkah)." Sad said, "O Umaiya, stop that! By Allah, I have heard Allah's Apostle (ﷺ) predicting that the Muslim will kill you." Umaiya asked, "In Makkah?" Sad said, "I do not know." Umaiya was greatly scared by that news. When Umaiya returned to his family, he said to his wife, "O Um Safwan! Don't you know what Sad told me? "She said, "What has he told you?" He replied, "He claims that Muhammad has informed them (i.e. companions that they will kill me. I asked him, 'In Makkah?' He replied, 'I do not know." Then Umaiya added, "By Allah, I will never go out of Makkah." But when the day of (the Ghazwa of) Badr came, Abu Jahl called the people to war, saying, "Go and protect your caravan." But Umaiya disliked to go out (of Makkah). Abu Jahl came to him and said, "O Abu Safwan! If the people see you staying behind though you are the chief of the people of the Valley, then they will remain behind with you." Abu Jahl kept on urging him to go until he (i.e. Umaiya) said, "As you have forced me to change my mind, by Allah, I will buy the best camel in Makkah. Then Umaiya said (to his wife). "O Um Safwan, prepare what I need (for the journey)." She said to him, "O Abu Safwan! Have you forgotten what your Yathribi brother told you?" He said, "No, but I do not want to go with them but for a short distance." So when Umaiya went out, he used to tie his camel wherever he camped. He kept on doing that till Allah caused him to be killed at Badr.