Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The story of the Ghazwa of Badr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ” اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی بدر میں جس وقت کہ تم کمزور تھے ۔ تو تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکرگزار بن جاو ۔ اے بنی ! وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ ایمان والوں سے کہہ رہے تھے ، کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری مدد کے لیے تین ہزار فرشتے اتار دے ، کیوں نہیں ، بشرطیکہ تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور اگر وہ تم پر فوراً آپڑیں تو تمہارا پروردگار تمہاری مدد پانچ ہزار نشان کئے ہوئے فرشتوں سے کرے گا اور یہ تو اللہ نے اس لیے کیا کہ تم خوش ہوجاو اور تمہیں اس سے اطمینا ن حاصل ہوجائے ۔ ورنہ فتح تو بس اللہ غالب اور حکمت والے ہی کی طرف سے ہوئی ہے اور یہ نصرت اس غرض سے تھی تاکہ کافروں کے ایک گروہ کو ہلاک کردے یا انہیں ایسا مغلوب کردے کہ وہ ناکام ہو کر واپس لوٹ جائیں ۔ وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کافر مان ( سورۃ انفال میں ) ” اور وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کررہاتھا ، دوجماعتوں میں سے ایک کے لیے وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی “ آخرتک ۔آیات مذکورہ میں جنگ بدر کی کچھ تفصیلات مذکور ہوئی ہیں اسی لئے حضرت امام نے ان کو یہاں نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سے حقائق ان آیات میں ذکرکئے ہیں جو اہل اسلام کے لئے ہر زمانہ میں مشعل راہ بنتے رہے ہیں۔عنوان میں حضرت امیرمعاویہؓ کا ذکر ہے جنہوں نے اس جنگ میں صحیح یہ ہے کہ عدی بن نو فل بن عبدمناف کو قتل کیا تھا کہتے ہیں کہ جبیر بن مطعم نے جو طعیمہ کا بھتیجا تھا اپنے وحشی کو کہا کہ اگر تو حمزہؓ کو مار ڈالے تو میں تجھ کو آزاد کر دوں گا عنوان میں مذکور ہے کہ حضرت امیرحمزہ کے ہاتھ سے طعیمہ مارا گیا جس کے بدلے کے لئے وحشی کو مقرر کیا گیا یہی وحشی ہے جس نے جنگ احد میں حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کیا۔
3951.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنی جنگیں لڑی ہیں، میں غزوہ تبوک کے علاوہ دیگر تمام جنگوں میں حاضر رہا، البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا، لیکن جو لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ تعالٰی نے عتاب نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قافلہ قریش کو تلاش کرنے کی نیت سے نکلے تھے مگر اللہ تعالٰی نے کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ہی مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان مڈ بھیڑ کرادی۔
تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر آئندہ بیان ہوگا، البتہ اس مقام پر غزوہ بدر کاپس منظر بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنگی تیاری کے ساتھ باہر نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا مقصد صرف ابوسفیان کے قافلے پر گرفت کرنا تھی جو شام کے علاقے سے ہتھیار خرید کر واپس آرہا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ان سے جنگی سامان چھیننے کا پروگرام تشکیل دیا کیونکہ ایسے ہنگامی حالات میں دشمن سے اسلحہ چھین لینا ہی ایک بہترین جنگ چال ہے، بلکہ اس کے برعکس رواداری کرنا سیاسی غلطی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ دوگروہوں تجارتی قافلے یا لشکر میں سے ایک پر آپ کوکامیاب کرےگا، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ابوسفیان کے قافلے پر کامیابی زیادہ محبوب تھی کیونکہ اس سے لڑائی کے بغیر جنگی سامان ہاتھ آنے کی اُمید تھی۔ ابوسفیان نے ساحلی راستہ اختیار کیا اور اپنا قافلہ مسلمانوں سے بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوگیا۔ ادھر ابوجہل اس قافلے کی مدد کے لیے ایک ہزار کی نفری کے ساتھ مکے سے نکل پڑاتھا، چنانچہ مقام بدر میں حق وباطل کے درمیان عظیم معرکہ برپا ہوا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے والوں پر کسی قسم کا اظہارِ ناراضی نہیں فرمایا، لیکن غزوہ تبوک کا معاملہ اسے مختلف تھا۔ اس میں تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے باہرنکلنے کا حکم تھا، اس لیے جو لوگ نہیں گئے ان پرعتاب نازل ہواجن میں حضرت کعب بن مالک ؓ بھی تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3805
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3951
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3951
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3951
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلے پر بدرنامی ایک گاؤں ہے جو بدر بن مخلد کے نام سے آبادتھا یا ایک کنویں کا نام ہے جس کا پانی بہت صاف تھا جس میں چاند نظر آتاتھا۔17رمضان 2ہجری میں وہاں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ بدر ہوئی جس میں کفار قریش کے بڑے بڑے سترسورما مارے گئے اور اتنے ہی قید ہوئے۔اس فیصلہ کن جنگ نے کفر اور اہل کفر کی کمرتوڑ دی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو آیات بیان کی ہیں ان میں جنگ بدر کی کچھ تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تین ہزارفرشتوں سے مدد فرمائی۔اتنی بھاری تعداد سے اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کی مدد کرنا محض ان کا اعزاز واکرام مقصود تھا اور ان کے حوصلے بلند کرنے کے لیے تھا بصورت دیگر ایک ہزار کفار کی ہلاکت کے لیے تو ایک فرشتہ ہی کافی تھا۔عنوان میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی ہے۔انھوں نے غزوہ بدرمیں طیعمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔وحشی بن حرب طیمعہ کے بھائی کا غلام تھا۔اس نے اپنے بھائی کے قتل کے بدلے میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے پر وحشی کوآزادی دینے کا وعدہ کیا تھا۔وحشی غزوہ اُحد میں ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔جب حضرت حمزہ ادھر سے گزرے تو اس نے چھوٹے نیزے سے وار کرکے انھیں شہید کردیا۔اس کی تفصیل ہم غزوہ اُحد کے بیان میں ذکر کریں گے۔یاد رہے کہ ابن خیار راوی کا وہم ہے صحیح ابن نوفل ہے۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ” اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی بدر میں جس وقت کہ تم کمزور تھے ۔ تو تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکرگزار بن جاو ۔ اے بنی ! وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ ایمان والوں سے کہہ رہے تھے ، کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری مدد کے لیے تین ہزار فرشتے اتار دے ، کیوں نہیں ، بشرطیکہ تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور اگر وہ تم پر فوراً آپڑیں تو تمہارا پروردگار تمہاری مدد پانچ ہزار نشان کئے ہوئے فرشتوں سے کرے گا اور یہ تو اللہ نے اس لیے کیا کہ تم خوش ہوجاو اور تمہیں اس سے اطمینا ن حاصل ہوجائے ۔ ورنہ فتح تو بس اللہ غالب اور حکمت والے ہی کی طرف سے ہوئی ہے اور یہ نصرت اس غرض سے تھی تاکہ کافروں کے ایک گروہ کو ہلاک کردے یا انہیں ایسا مغلوب کردے کہ وہ ناکام ہو کر واپس لوٹ جائیں ۔ وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کافر مان ( سورۃ انفال میں ) ” اور وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کررہاتھا ، دوجماعتوں میں سے ایک کے لیے وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی “ آخرتک ۔آیات مذکورہ میں جنگ بدر کی کچھ تفصیلات مذکور ہوئی ہیں اسی لئے حضرت امام نے ان کو یہاں نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سے حقائق ان آیات میں ذکرکئے ہیں جو اہل اسلام کے لئے ہر زمانہ میں مشعل راہ بنتے رہے ہیں۔عنوان میں حضرت امیرمعاویہؓ کا ذکر ہے جنہوں نے اس جنگ میں صحیح یہ ہے کہ عدی بن نو فل بن عبدمناف کو قتل کیا تھا کہتے ہیں کہ جبیر بن مطعم نے جو طعیمہ کا بھتیجا تھا اپنے وحشی کو کہا کہ اگر تو حمزہؓ کو مار ڈالے تو میں تجھ کو آزاد کر دوں گا عنوان میں مذکور ہے کہ حضرت امیرحمزہ کے ہاتھ سے طعیمہ مارا گیا جس کے بدلے کے لئے وحشی کو مقرر کیا گیا یہی وحشی ہے جس نے جنگ احد میں حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنی جنگیں لڑی ہیں، میں غزوہ تبوک کے علاوہ دیگر تمام جنگوں میں حاضر رہا، البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا، لیکن جو لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ تعالٰی نے عتاب نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قافلہ قریش کو تلاش کرنے کی نیت سے نکلے تھے مگر اللہ تعالٰی نے کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ہی مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان مڈ بھیڑ کرادی۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری ؒ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر آئندہ بیان ہوگا، البتہ اس مقام پر غزوہ بدر کاپس منظر بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنگی تیاری کے ساتھ باہر نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا مقصد صرف ابوسفیان کے قافلے پر گرفت کرنا تھی جو شام کے علاقے سے ہتھیار خرید کر واپس آرہا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ان سے جنگی سامان چھیننے کا پروگرام تشکیل دیا کیونکہ ایسے ہنگامی حالات میں دشمن سے اسلحہ چھین لینا ہی ایک بہترین جنگ چال ہے، بلکہ اس کے برعکس رواداری کرنا سیاسی غلطی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ دوگروہوں تجارتی قافلے یا لشکر میں سے ایک پر آپ کوکامیاب کرےگا، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ابوسفیان کے قافلے پر کامیابی زیادہ محبوب تھی کیونکہ اس سے لڑائی کے بغیر جنگی سامان ہاتھ آنے کی اُمید تھی۔ ابوسفیان نے ساحلی راستہ اختیار کیا اور اپنا قافلہ مسلمانوں سے بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوگیا۔ ادھر ابوجہل اس قافلے کی مدد کے لیے ایک ہزار کی نفری کے ساتھ مکے سے نکل پڑاتھا، چنانچہ مقام بدر میں حق وباطل کے درمیان عظیم معرکہ برپا ہوا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے والوں پر کسی قسم کا اظہارِ ناراضی نہیں فرمایا، لیکن غزوہ تبوک کا معاملہ اسے مختلف تھا۔ اس میں تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے باہرنکلنے کا حکم تھا، اس لیے جو لوگ نہیں گئے ان پرعتاب نازل ہواجن میں حضرت کعب بن مالک ؓ بھی تھے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور اللہ تعالٰی نے بدر میں اس وقت تمہاری مدد کی جبکہ تم کمزور تھے، لہذا اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ تم شکرگزار بن جاؤ گے۔ جب آپ اہل ایمان سے کہہ رہے تھے: کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے؟ کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو، اللہ سے ڈرتے رہو اور دشمن تم پر فورا چڑھ آئے تو تمہارا رب خاص نشان زدہ پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ مدد کی خبر اللہ نے تمہیں اس لیے دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا زبردست کمال حکمت والا ہے۔ تاکہ اللہ کافروں کا ایک بازو کاٹ دے یا انہیں ایسا ذلیل کرے کہ وہ ناکام ہو کر پسپا ہو جائیں۔"(فورهم) کے معنی ہیں کفار کا جوش و غضب، یعنی غضبناک ہو کر تم پر حملہ کر دیں۔حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔نیز ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جب اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہارا ہو گا اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ (تجارتی قافلہ) تمہارے ہاتھ لگ جائے۔"(الشوكة) کے معنی نوکدار کانٹے کے ہیں۔
فائدہ: اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا تھا کہ دو گروہوں عیر یا نفیر میں سے ایک پر آپ کو کامیاب کرے گا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ابوسفیان کے قافلے پر کامیابی زیادہ محبوب تھی کیونکہ اس سے لڑائی کے بغیر جنگی سامان ہاتھ آنے کی امید تھی۔ لیکن ابوسفیان نے ساحلی راستہ اختیار کیا اور اپنا قافلہ مسلمانوں سے بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہو گیا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب نے، ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنے غزوے کئے، میں غزوہ تبوک کے سوا سب میں حاضر رہا۔ البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا لیکن جو لوگ اس غزوے میں شریک نہ ہوسکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ قریش کے قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے۔ (لڑنے کی نیت سے نہیں گئے تھے) مگر اللہ تعالیٰ نے ناگہانی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا۔
حدیث حاشیہ:
ہر چند حضرت کعب ؓ جنگ بدر میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے مگر چونکہ بدر میں آنحضرت ﷺ کا قصد جنگ نہ تھا اس لیے سب لوگوں پر آپ نے نکلنا واجب نہیں رکھا برخلاف جنگ تبوک کے۔ اس میں سب مسلمانوں کے ساتھ جانے کا حکم تھا جو لوگ نہیں گئے ان پر اس لیے عتاب ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kab bin Malik: I never failed to join Allah's Apostle (ﷺ) in any of his Ghazawat except in the Ghazwa of Tabuk. However, I did not take part in the Ghazwa of Badr, but none who failed to take part in it, was blamed, for Allah's Apostle (ﷺ) had gone out to meet the caravans of (Quraish, but Allah caused them (i.e. Muslims) to meet their enemy unexpectedly (with no previous intention) .