Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The killing of Abu Jahl)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3968.
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، وہ خوب قسم اٹھا کر فرمایا کرتے تھے کہ سورج حج کی آیات ان چھ آدمیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو بدر کی لڑائی میں ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے تھے۔ راوی نے پہلی حدیث کی طرح اسے بھی بیان کیا۔
تشریح:
پہلے لڑائی کا یہ قاعدہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی میدان میں نکلتا اور فریق مخالف کو للکار تا ہواکہتا: کوئی ہے مقابلہ کرنے والا۔ پھر دوسرے فریق کی طرف سے ایک آدمی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آتا۔ اسے مبارزت کہتے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوتا، باقی صفیں تماشائی کے طور پردیکھتی رہتیں۔ کبھی تو اسی پر فیصلہ ہوجاتا کبھی ہلہ بول دیا جاتا۔ قریش مکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان کی طرف سے تین شخص میدان میں نکلے: عتبہ، شیبہ، اورولید کہنے لگے: اے محمد ﷺ ! ہم سے لڑنے کے لیے کسی کو میدان میں بھیجیں۔ ادھر سے انصار کی طرف سے تین نوجوان نکلے تو انہوں نے کہا: ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو اپنی برادری، یعنی قریشیوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حمزہ ؓ !اٹھو، اے علی ؓ ! تم بھی میدان میں اترو اور اے عبیدہؓ ! تم بھی مقابلے کے لیے آجاؤ۔‘‘ حضرت حمزہ ؓ شیبہ کے مقابلے میں اورحضرت علی ؓ ولید کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ حمزہ ؓ نے شیبہ کو پہلے ہی وار میں قتل کردیا اور حضرت علی ؓ نے بھی اپنے مدمقابل ولید بن عتبہ کو جھٹ مارلیا، لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل عتبہ بن ربیعہ کے درمیان ایک ایک وار کا مقابلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ ؓ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور جنگ سے واپسی پر وادی صفراء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ (فتح الباري:372/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3823
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3968
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3968
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3968
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بعض نسخوں میں یہ عنوان ان الفاظ میں ہے:(باب قتل أبي جهل وغيره)"ابوجہل وغیرہ کے قتل وغیرہ کا بیان"اور یہ مناسب معلوم ہوتاہے کیونکہ اس عنوان کے تحت ابوجہل کے علاوہ دوسرے مقتولوں کا بھی ذکر ہے۔( عمدۃ القاری 18/12۔)
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، وہ خوب قسم اٹھا کر فرمایا کرتے تھے کہ سورج حج کی آیات ان چھ آدمیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو بدر کی لڑائی میں ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے تھے۔ راوی نے پہلی حدیث کی طرح اسے بھی بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
پہلے لڑائی کا یہ قاعدہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی میدان میں نکلتا اور فریق مخالف کو للکار تا ہواکہتا: کوئی ہے مقابلہ کرنے والا۔ پھر دوسرے فریق کی طرف سے ایک آدمی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آتا۔ اسے مبارزت کہتے ہیں۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوتا، باقی صفیں تماشائی کے طور پردیکھتی رہتیں۔ کبھی تو اسی پر فیصلہ ہوجاتا کبھی ہلہ بول دیا جاتا۔ قریش مکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان کی طرف سے تین شخص میدان میں نکلے: عتبہ، شیبہ، اورولید کہنے لگے: اے محمد ﷺ ! ہم سے لڑنے کے لیے کسی کو میدان میں بھیجیں۔ ادھر سے انصار کی طرف سے تین نوجوان نکلے تو انہوں نے کہا: ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو اپنی برادری، یعنی قریشیوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حمزہ ؓ !اٹھو، اے علی ؓ ! تم بھی میدان میں اترو اور اے عبیدہؓ ! تم بھی مقابلے کے لیے آجاؤ۔‘‘ حضرت حمزہ ؓ شیبہ کے مقابلے میں اورحضرت علی ؓ ولید کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ حمزہ ؓ نے شیبہ کو پہلے ہی وار میں قتل کردیا اور حضرت علی ؓ نے بھی اپنے مدمقابل ولید بن عتبہ کو جھٹ مارلیا، لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل عتبہ بن ربیعہ کے درمیان ایک ایک وار کا مقابلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا اور حضرت عبیدہ ؓ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور جنگ سے واپسی پر وادی صفراء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ (فتح الباري:372/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰ بن جعفر نے بیان کیا، ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان نے، انہیں ابو ہاشم نے، انہیں ابومجلزنے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہوں نے حضرت ابوذر ؓ سے سنا، وہ قسمیہ بیان کرتے تھے کہ یہ آیت (جو اوپر گزری) انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ان روایات میں حضرت ابوذرؓ راوی کا نام باربار آیا ہے۔ یہ مشہور صحابی ابوذر غفاری ؓ ہیں جن کا نام جندب اور لقب مسیح الاسلام ہے۔ قبیلہ غفار سے ہیں۔ یہ عہد جاہلیت ہی میں موحد تھے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔ آنحضرت ﷺ کی خبر لینے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی کوبھیجا تھا۔ بعد میں خود گئے اور بڑی مشکلات کے بعد دربار رسالت میں باریابی ہوئی۔ تفصیل سے ان کے حالات پیچھے بیان کئے جا چکے ہیں۔ 31ھ میں بمقام ربذہ ان کاانتقال ہوا، جہاں یہ تنہا رہا کرتے تھے۔ جب یہ قریب المرگ ہوئے تو ان کی زوجہ محترمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ آپ ایک صحرا میں اس حالت میں سفر آخرت کررہے ہیں کہ آپ کے کفن کے لیے یہاں کوئی کپڑا بھی نہیں ہے۔ فرمایا، رونا موقوف کرو اور سنو! رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں صحرا میں انتقال کروں گا۔ میری موت کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت صحرا میں میرے پاس پہنچ جائے گی۔ لہذا تم راستے پر کھڑی ہو کر اب اس جماعت کا انتظار کرو۔ یہ غیبی امداد حسب ارشاد نبوی ﷺ ضرور آرہی ہوگی۔ چنانچہ ان کی اہلیہ صاحبہ ؓ گزرگاہ پر کھڑی ہوگئیں۔ تھوڑے ہی انتظار کے بعد دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اشارہ کیا وہ ٹھہر گئے اور معلوم ہونے پر یہ سب حضرت ابوذر ؓ کی عیادت کو گئے جن کو دیکھ کر حضرت ابوذر ؓ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے ان کو حضور ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی سنائی، پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی کے پاس میرے کفن کے لیے کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کی تم میں جو شخص حکومت کا ادنی عہدیدار بھی ہو وہ مجھ کونہ کفنائے۔ چنانچہ اس جماعت میں صرف ایک انصاری نوجوان ایسا ہی نکلا اور وہ بولا کہ چچا جان! میرے پاس ایک چادر ہے اس کے علاوہ دوکپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں۔ ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا۔ حضرت ابوذر ؓ نے خوش ہو کرفرمایا کہ ہاں تم ہی مجھ کو ان ہی کپڑوں میں کفن پہنانا۔ اس وصیت کے بعد ان کی روح پاک عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ اس جماعت صحابہ ؓ نے ان کو کفنایا دفنایا۔ کفن اس انصاری نوجوان نے پہنایا اور جنازہ کی نماز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے پڑھائی۔ پھر سب نے مل کر اس صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو سپر خاد کردیا۔ رضي اللہ عنهم(مستدرك حاکم، ج:3، ص:346)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais bin Ubad: I heard Abu Dhar (RA) swearing that these Holy Verses were revealed in connection with those six persons on the day of Badr.