باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Superiority of those who fought the battle of Badr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3989.
حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگرد اور بنوزہرہ کے حلیف حضرت عمرو بن جاریہ ثقفی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو امیر مقرر فرمایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلے کا نام بنو لحیان تھا۔ اس قبیلے کے سو تیر انداز ان صحابہ کرام ؓ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ آخر کار اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر صحابہ کرام ؓ نے کھجوریں کھائی تھیں۔ انہوں نے گٹھلیاں دیکھ کر کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں۔ اب وہ ان کے نشانات قدم پر چلتے رہے۔ جب حضرت عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے انہیں دیکھا تو انہوں نے ایک اونچی جگہ پر پناہ لی۔ انہوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ نیچے اترو اور خود کو ہمارے حوالے کر دو۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عاصم ؓ نے کہا: اے ساتھیو! میں ہرگز کسی کافر کی ذمہ داری پر نہیں اتروں گا۔ پھر انہوں نے دعا کی: ’’اے اللہ! اپنے نبی ﷺ کو ہمارے حالات کی خبر دے۔‘‘ پھر کافروں نے انہیں تیر مارنا شروع کر دیے حتی کہ حضرت عاصم ؓ کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے عہد و پیمان پر تین شخص نیچے اترے۔ یہ حضرات حضرت خبیب، زید بن دثنہ ؓ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں سے تانتیں اتار کر ان کے ساتھ انہیں مضبوط باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا: یہ تمہاری پہلی بدشکنی ہے۔ میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے ان مقتول ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے، چنانچہ وہ حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور انہیں فروخت کر دیا اور یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا کیونکہ انہوں ہی نے حارث بن عامر کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ؓ کچھ دنوں تک ان کے ہاں قید رہے۔ آخر انہوں نے ان کے قتل کو آخری شکل دی۔ ان دنوں حضرت خبیب ؓ نے حارث کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کر لیں۔ اس نے استرہ دے دیا۔ اتفاق سے ایک کا ایک چھوٹا سا بیٹا (کھیلتے کھیلتے) حضرت خبیب ؓ کے پاس چلا گیا جبکہ وہ اس سے بےخبر تھی۔ جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ انہوں نے اس (بچے) کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت گھبرائی۔ اس نے کہا: میری گھبراہٹ کو محسوس کر کے حضرت خبیب ؓ نے کہا: تمہیں اندیشہ ہے میں اس بچے کو قتل کر دوں گا۔ تم یقین رکھو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ اس خاتون نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! ایک دن میں نے انہیں دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں خوشہ انگور لیے ان کو کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ تو اللہ کا بھیجا ہوا رزق تھا جو اس نے خبیب کو عطا فرمایا تھا۔ پھر بنو حارث انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو حجرت خبیب ؓ نے ان سے کہا:مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے مہلت دے دی تو انہوں نے دو رکعات ادا کیں، فراغت کے بعد کہا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں گھبرا گیا ہوں تو میں ضرور نماز لمبی کرتا۔ پھر انہوں نے دعا کی: ’’اے اللہ! ان میں ایک ایک کو تباہی سے دوچار کر دے اور ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑ۔‘‘ پھر یہ اشعار پڑھے: ’’جب مسلمان ہوتے دنیا سے چلوں۔۔۔ مجھ کو کیا غم کون سی کروٹ گروں؛ میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں۔۔۔ وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا۔۔۔ اس کے جوڑوں میں وہ برکت دے فزوں‘‘اس کے بعد بوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت خبیب ہی نے مسلمانوں کے لیے طریقہ جاری کیا کہ قید کر کے قتل کیا جائے تو نماز ادا کرنے کی سنت ادا کرے۔ ادھر صحابہ کرام ؓ جس دن شہید ہوئے تھے اسی دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کو ان کی خبر دے دی تھی۔ جب قریش کے کچھ لوگوں کو خبر ہوئی کہ حضرت عاصم بن ثابت ؓ شہید کر دیے گئے ہیں تو انہوں نے چند آدمی بھیجے کہ وہ ان کی لاش سے کچھ کاٹ کر لائیں، جس سے انہیں پہچانا جا سکے کیونکہ انہوں نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو (بدر میں) قتل کیا تھا، لیکن اللہ تعالٰی نے ان کی حفاظت کے لیے بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کی ایک فوج بھیج دی، چنانچہ انہوں نے کسی کو بھی ان کی لاش کے قریب نہ آنے دیا اور وہ ان کے جسم سے کچھ کاٹنے پر قادر نہ ہو سکے۔ حضرت کعب بن مالک نے کہا: مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی دونوں نیک بزرگ تھے جو بدر میں شریک ہوئے۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جن دس آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا ان میں سے سات کے نام یہ ہیں: مرثد بن ابو مرثد غنوی، خالد بن بکیر، معتب بن عبید خبیب بن عدی زید بن دثنہ عبد اللہ بن طارق اور ان کے امیر حضرت عاصم بن ثابت ؓ باقی تین حضرات کے نام معلوم نہیں ہو سکے۔شاید وہ ان کے خدمت گزار ہوں گے، اس لیے ان ناموں کے متعلق توجہ نہیں دی گئی۔ (فتح الباري:445/7) ان میں سے سات تو وہیں شہید ہو گئے اور باقی دو مکہ مکرمہ میں فروخت کردیا گیا۔ زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے خرید ااوراپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا کیونکہ ان کے باپ حارث کو حضرت خبیب ؓ نے بدر کے دن قتل کیا تھا انھوں نے اپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا۔ (فتح الباري:447/7) 2۔چونکہ امام بخاری ؒ کا مقصد شہدائے بدر کے فضائل بیان کرنا ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت عاصم ؓ نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو قتل کیا تھا، اس لیے کفار قریش نے ان سے انتقام لیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا۔ ایک روایت میں صراحت ہے کہ بدر کے دن ایک بڑے سردار کوقتل کیا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4086) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے عقبہ بن ابی معیط کو گرفتا رکر کے قتل کیا تھا۔ (فتح الباري:387/7) 3۔ حدیث کے آخر میں حضرت کعب بن مالک ؓ کا ذکر خیر ہے اگرچہ اس حصے کا حضرت خبیب ؓ کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تاہم حدیث کے اس حصے سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مرارہ اور حضرت بلال ؓ بدری صحابی نہیں۔ سب سے پہلے جس نے انکار کیا وہ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد حضرت اثرم ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اگر یہ دونوں بدری صحابی ہوتے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرح ان سے چشم پوشی کی جاتی لیکن یہ نص کے مقابلے میں قیاس کو پیش کرنا ہے بہرحال اس حدیث میں صراحت ہے کہ وہ نیک اور بزرگ آدمی تھےجنھوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی۔ اس سے ان کی مدح اور منقبت مقصود ہے۔ (فتح الباري:388/7) حضرت خبیب ؓ کے متعلق دیگر تفصیلات ہم آئندہ بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3842
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3989
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3989
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3989
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگرد اور بنوزہرہ کے حلیف حضرت عمرو بن جاریہ ثقفی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو امیر مقرر فرمایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلے کا نام بنو لحیان تھا۔ اس قبیلے کے سو تیر انداز ان صحابہ کرام ؓ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ آخر کار اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر صحابہ کرام ؓ نے کھجوریں کھائی تھیں۔ انہوں نے گٹھلیاں دیکھ کر کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں۔ اب وہ ان کے نشانات قدم پر چلتے رہے۔ جب حضرت عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے انہیں دیکھا تو انہوں نے ایک اونچی جگہ پر پناہ لی۔ انہوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ نیچے اترو اور خود کو ہمارے حوالے کر دو۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عاصم ؓ نے کہا: اے ساتھیو! میں ہرگز کسی کافر کی ذمہ داری پر نہیں اتروں گا۔ پھر انہوں نے دعا کی: ’’اے اللہ! اپنے نبی ﷺ کو ہمارے حالات کی خبر دے۔‘‘ پھر کافروں نے انہیں تیر مارنا شروع کر دیے حتی کہ حضرت عاصم ؓ کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے عہد و پیمان پر تین شخص نیچے اترے۔ یہ حضرات حضرت خبیب، زید بن دثنہ ؓ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں سے تانتیں اتار کر ان کے ساتھ انہیں مضبوط باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا: یہ تمہاری پہلی بدشکنی ہے۔ میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے ان مقتول ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے، چنانچہ وہ حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور انہیں فروخت کر دیا اور یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا کیونکہ انہوں ہی نے حارث بن عامر کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ؓ کچھ دنوں تک ان کے ہاں قید رہے۔ آخر انہوں نے ان کے قتل کو آخری شکل دی۔ ان دنوں حضرت خبیب ؓ نے حارث کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کر لیں۔ اس نے استرہ دے دیا۔ اتفاق سے ایک کا ایک چھوٹا سا بیٹا (کھیلتے کھیلتے) حضرت خبیب ؓ کے پاس چلا گیا جبکہ وہ اس سے بےخبر تھی۔ جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ انہوں نے اس (بچے) کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت گھبرائی۔ اس نے کہا: میری گھبراہٹ کو محسوس کر کے حضرت خبیب ؓ نے کہا: تمہیں اندیشہ ہے میں اس بچے کو قتل کر دوں گا۔ تم یقین رکھو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ اس خاتون نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! ایک دن میں نے انہیں دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں خوشہ انگور لیے ان کو کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ تو اللہ کا بھیجا ہوا رزق تھا جو اس نے خبیب کو عطا فرمایا تھا۔ پھر بنو حارث انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو حجرت خبیب ؓ نے ان سے کہا:مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے مہلت دے دی تو انہوں نے دو رکعات ادا کیں، فراغت کے بعد کہا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں گھبرا گیا ہوں تو میں ضرور نماز لمبی کرتا۔ پھر انہوں نے دعا کی: ’’اے اللہ! ان میں ایک ایک کو تباہی سے دوچار کر دے اور ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑ۔‘‘ پھر یہ اشعار پڑھے: ’’جب مسلمان ہوتے دنیا سے چلوں۔۔۔ مجھ کو کیا غم کون سی کروٹ گروں؛ میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں۔۔۔ وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا۔۔۔ اس کے جوڑوں میں وہ برکت دے فزوں‘‘ اس کے بعد بوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت خبیب ہی نے مسلمانوں کے لیے طریقہ جاری کیا کہ قید کر کے قتل کیا جائے تو نماز ادا کرنے کی سنت ادا کرے۔ ادھر صحابہ کرام ؓ جس دن شہید ہوئے تھے اسی دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کو ان کی خبر دے دی تھی۔ جب قریش کے کچھ لوگوں کو خبر ہوئی کہ حضرت عاصم بن ثابت ؓ شہید کر دیے گئے ہیں تو انہوں نے چند آدمی بھیجے کہ وہ ان کی لاش سے کچھ کاٹ کر لائیں، جس سے انہیں پہچانا جا سکے کیونکہ انہوں نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو (بدر میں) قتل کیا تھا، لیکن اللہ تعالٰی نے ان کی حفاظت کے لیے بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کی ایک فوج بھیج دی، چنانچہ انہوں نے کسی کو بھی ان کی لاش کے قریب نہ آنے دیا اور وہ ان کے جسم سے کچھ کاٹنے پر قادر نہ ہو سکے۔ حضرت کعب بن مالک نے کہا: مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی دونوں نیک بزرگ تھے جو بدر میں شریک ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جن دس آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا ان میں سے سات کے نام یہ ہیں: مرثد بن ابو مرثد غنوی، خالد بن بکیر، معتب بن عبید خبیب بن عدی زید بن دثنہ عبد اللہ بن طارق اور ان کے امیر حضرت عاصم بن ثابت ؓ باقی تین حضرات کے نام معلوم نہیں ہو سکے۔شاید وہ ان کے خدمت گزار ہوں گے، اس لیے ان ناموں کے متعلق توجہ نہیں دی گئی۔ (فتح الباري:445/7) ان میں سے سات تو وہیں شہید ہو گئے اور باقی دو مکہ مکرمہ میں فروخت کردیا گیا۔ زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے خرید ااوراپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا کیونکہ ان کے باپ حارث کو حضرت خبیب ؓ نے بدر کے دن قتل کیا تھا انھوں نے اپنے باپ کے بدلے میں انھیں شہید کیا۔ (فتح الباري:447/7) 2۔چونکہ امام بخاری ؒ کا مقصد شہدائے بدر کے فضائل بیان کرنا ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت عاصم ؓ نے قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک سردار کو قتل کیا تھا، اس لیے کفار قریش نے ان سے انتقام لیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا۔ ایک روایت میں صراحت ہے کہ بدر کے دن ایک بڑے سردار کوقتل کیا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4086) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے عقبہ بن ابی معیط کو گرفتا رکر کے قتل کیا تھا۔ (فتح الباري:387/7) 3۔ حدیث کے آخر میں حضرت کعب بن مالک ؓ کا ذکر خیر ہے اگرچہ اس حصے کا حضرت خبیب ؓ کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تاہم حدیث کے اس حصے سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مرارہ اور حضرت بلال ؓ بدری صحابی نہیں۔ سب سے پہلے جس نے انکار کیا وہ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد حضرت اثرم ہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اگر یہ دونوں بدری صحابی ہوتے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرح ان سے چشم پوشی کی جاتی لیکن یہ نص کے مقابلے میں قیاس کو پیش کرنا ہے بہرحال اس حدیث میں صراحت ہے کہ وہ نیک اور بزرگ آدمی تھےجنھوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی۔ اس سے ان کی مدح اور منقبت مقصود ہے۔ (فتح الباري:388/7) حضرت خبیب ؓ کے متعلق دیگر تفصیلات ہم آئندہ بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب ؓ کے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے توبنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیر انداز ان صحابہ ؓ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے انداز ے پر چلنے لگے۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ ؓ نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور (کی گٹھلیاں) ہیں۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ جب حضرت عاصم بن ثابت ؓ اور ان کے سا تھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کر لیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آو اور ہماری پناہ خود قبول کرلو تو تم سے ہم وعدہ کر تے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ حضرت عاصم بن ثا بت ؓ نے کہا۔ مسلمانو! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انہوں نے دعا کی، اے اللہ! ہماے حالات کی خبر اپنے نبیﷺ کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور حضرت عاصم ؓ کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے۔ یہ حضرات حضرت خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لی تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا، یہ تمہاری پہلی دغابازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔ آپ کا اشارہ ان صحا بہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا) اور حضرت خبیب ؓ اور حضرت زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور (مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے، آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سابچہ ان کے پاس (کھیلتا ہوا) اس عورت کی بے خبری میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ حضرت خبیب ؓ نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کردوں گا؟ یقین رکھو کہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتا۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی حضرت خبیب ؓ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے حضرت خبیب ؓ کے لیے بھیجی تھی۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کر نے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب ؓ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دورکعت نماز پڑھی اور فرمایا، اللہ کی قسم اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ میں پریشانی کی وجہ سے (دیر تک نماز پڑھ رہا ہوں) تو اور زیا دہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کوبھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے ’’جب میں اسلام پر قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے ۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘ اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اوراس نے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت خبیب ؓ نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ ؓ پر مصیبت آئی تھی حضور ﷺ نے اپنے صحا بہ ؓ کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت ؓ شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے۔ کیوں کہ انہوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالی نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچالیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوں نے مرارہ بن ربیع عمری ؓ اور ہلال بن امیہ واقفی ؓ کا ذکر کیا۔ (جو غزوہ تبوک میں نہیں جاسکے تھے) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے نافع نے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے جمعہ کے دن ذکر کیا گیا کہ حضرت سعید بن زید بن عمر و بن نفیل ؓ جو بدری صحا بی تھے، بیمار ہیں۔ دن چڑھ چکا تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ سوارہوکر ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اتنے میں جمعہ کا وقت قریب ہوگیا اور وہ جمعہ کی نماز (مجبوراً ) نہ پڑھ سکے۔
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں جن دس آ دمیوں کا ذکر ہے، ان میں سات کے نام یہ ہیں۔ مر ثد غنوی ، خالد بن بکیر، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ، عبد اللہ بن طارق، معتب بن عبید ؓ ان کے امیر عاصم بن ثابت ؓ تھے۔ باقی تینوں کے نام مذکور نہیں ہیں۔ راستے میں کفار بنو لحیان ان کے پیچھے لگ گئے۔ آخر ان کو پالیا اور ان میں سے سردار سمیت سات مسلمانوں کو ان کافروں نے شہید کر دیا اور تین مسلمانوں کو گرفتار کر لیا، جن کے نام یہ ہیں، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبد اللہ بن طارق ؓ ۔ راستے میں حضرت حضرت عبد اللہ کو بھی شہید کر دیا اور پچھلے دو کو مکہ میں لے جاکر غلام بناکر فروخت کر دیا۔ زید بن دثنہ ؓ کو صفوان بن امیہ نے خریدا اور حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے۔ خبیب ؓ نے بدر کے دن حارث مذکور کو قتل کیا تھا۔ اب ا س کے بیٹوں نے مفت میں بدلہ لینے کی غرض سے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا اورپر حرمت کے مہینے کو گزار کر ان کو شہید کرڈالنے کا فیصلہ کر لیا ان ایام میں حضرت خبیب ؓ کے کرامات کو ان لوگوں نے دیکھا کہ بے موسم کے پھل اللہ تعالی غیب سے ان کو کھلا رہا ہے جیسے حضرت مریم ؑ کو بے موسم کے پھل ملا کرتے تھے۔ آخری دنوں میں شہادت کی تیاری کے واسطے صفائی ستھرائی حاصل کرنے کے لیے حضرت خبیب ؓ نے ان کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا مگر جب کہ ان کا ایک شیر خوار بچہ حضرت خبیب ؓ کے پاس جاکر کھیلنے لگا تو اس عورت کو خطرہ ہوا کہ شاید خبیب ؓ اس استرہ سے اس معصوم بچے کو ذبح نہ کر ڈالیں جس پر حضرت خبیب ؓ نے خود بڑھ کر اس عورت کو اطمینان دلایا کہ ایک سچے مسلمان سے ایسا قتل ناحق ہو نانا ممکن ہے۔ آ خر میں دو رکعت نماز کے بعد جب ان کو قتل گاہ میں لایا گیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے جنکا یہاں ذکر موجود ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے ان شعروں کا شعروں ہی میں ترجمہ کیا ہے۔ جب مسلماں ہو کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا غم کون سی کرو ٹ گروں میر ا مر نا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چا ہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جا ئے گا اس کے جوڑوں پر وہ برکت دے فزوں بیہقی نے روایت کی ہے کہ خبیب ؓ نے مرتے وقت دعا کی تھی کہ یا اللہ! ہما رے حال کی خبر اپنے حبیب ﷺ کو پہنچا دے۔ اسی وقت حضرت جبرئیل ؑ آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور سارے حالات کی خبر دے دی۔ روایت کے آ خر میں دو بدری صحابیوں کا ذکر ہے جس سے دمیا طی کا رد ہوا۔ جس نے ان ہردو کے بدری ہونے کا انکار کیا ہے۔ اثبات نفی پر مقدم ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جسے حضرت امام بخاری ؒ نے غزوئہ تبوک میں ذکر کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent out ten spies under the command of 'Asim bin Thabit Al-Ansari, the grand-father of 'Asim bin 'Umar Al-Khattab. When they reached (a place called) Al-Hadah between 'Usfan and Makkah, their presence was made known to a sub-tribe of Hudhail called Banu Lihyan. So they sent about one hundred archers after them. The archers traced the footsteps (of the Muslims) till they found the traces of dates which they had eaten at one of their camping places. The archers said, "These dates are of Yathrib (i.e. Medina)," and went on tracing the Muslims' footsteps. When 'Asim and his companions became aware of them, they took refuge in a (high) place. But the enemy encircled them and said, "Come down and surrender. We give you a solemn promise and covenant that we will not kill anyone of you." 'Asim bin Thabit said, "O people! As for myself, I will never get down to be under the protection of an infidel. O Allah! Inform your Prophet (ﷺ) about us." So the archers threw their arrows at them and martyred 'Asim. Three of them came down and surrendered to them, accepting their promise and covenant and they were Khubaib, Zaid bin Ad-Dathina and another man. When the archers got hold of them, they untied the strings of the arrow bows and tied their captives with them. The third man said, "This is the first proof of treachery! By Allah, I will not go with you for I follow the example of these." He meant the martyred companions. The archers dragged him and struggled with him (till they martyred him). Then Khubaib and Zaid bin Ad-Dathina were taken away by them and later on they sold them as slaves in Makkah after the event of the Badr battle. The sons of Al-Harit bin 'Amr bin Naufal bought Khubaib for he was a person who had killed (their father) Al-Hari bin 'Amr on the day (of the battle) of Badr. Khubaib remained imprisoned by them till they decided unanimously to kill him. One day Khubaib borrowed from a daughter of Al-Harith, a razor for shaving his public hair, and she lent it to him. By chance, while she was inattentive, a little son of hers went to him (i.e. Khubaib) and she saw that Khubaib had seated him on his thigh while the razor was in his hand. She was so much terrified that Khubaib noticed her fear and said, "Are you afraid that I will kill him? Never would I do such a thing." Later on (while narrating the story) she said, "By Allah, I had never seen a better captive than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating from a bunch of grapes in his hand while he was fettered with iron chains and (at that time) there was no fruit in Makkah." She used to say," It was food Allah had provided Khubaib with." When they took him to Al-Hil out of Makkah sanctuary to martyr him, Khubaib requested them. "Allow me to offer a two-Rak'at prayer." They allowed him and he prayed two Rakat and then said, "By Allah! Had I not been afraid that you would think I was worried, I would have prayed more." Then he (invoked evil upon them) saying, "O Allah! Count them and kill them one by one, and do not leave anyone of them"' Then he recited: "As I am martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, for this is for the Cause of Allah. If He wishes, He will bless the cut limbs of my body." Then Abu Sarva, 'Ubqa bin Al-Harith went up to him and killed him. It was Khubaib who set the tradition of praying for any Muslim to be martyred in captivity (before he is executed). The Prophet (ﷺ) told his companions of what had happened (to those ten spies) on the same day they were martyred. Some Quraish people, being informed of 'Asim bin Thabit's death, sent some messengers to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for he had previously killed one of their leaders (in the battle of Badr). But Allah sent a swarm of wasps to protect the dead body of 'Asim, and they shielded him from the messengers who could not cut anything from his body.