Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4005.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حفصہ ؓ کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ سہمی ؓ کی وفات ہو گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور وہ مدینہ میں فوت ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان ؓ سے ملا اور ان سے حفصہ ؓ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تمہارا ارادہ ہو تو اپنی دختر حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: میں اس پر غور کروں گا۔ پھر میں کئی راتیں ٹھہرا رہا تو حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا: ابھی میں یہی مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان دنوں نکاح نہ کروں۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت ابوبکر ؓ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر حضرت عثمان ؓ سے بھی زیادہ غصہ آیا، مگر میں چند راتیں ہی ٹھہرا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کو پیغام نکاح بھیجا، اس پر میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ سے کر دیا۔ پھر مجھے حضرت ابوبکر ؓ ملے اور انہوں نے کہا: شاید تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو کیونکہ تم نے حفصہ ؓ کا ذکر کیا تھا اور میں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میں نے کہا: ہاں مجھے رنج تو ہوا تھا۔ انہوں نے فرمایا: دراصل بات یہ تھی کہ مجھے تمہاری پیش کش قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنا مجھے منظور نہ تھا۔ ہاں، اگر آپ ﷺ اپنا ارادہ ترک کر دیتے تو میں انہیں ضرور قبول کر لیتا۔
تشریح:
1۔ خنیس بن حذافہ سہمی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ واپس ہوئے تو بدر میں شرکت کی، وہاں شدید زخمی ہوگئے۔ مدینہ طیبہ میں زخم کے شدت اختیار کرنے سے فوت ہو گئے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ کےحقیقی بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے پچیس ماہ بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح کیا۔
2۔ حضرت عمر ؓ کو حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق زیادہ خفگی اس لیے ہوئی کہ حضرت عثمان ؓ نے پہلے اس معاملے پر غور و فکر کرنے کی مہلت طلب کی، پھر معذرت کردی جبکہ سیدنا ابو بکرؓہ نے سرے سے کوئی جواب ہی نہ دیا۔ اس کے علاوہ حضرت ابو بکر ؓ سے تعلق خاطر بھی زیادہ تھا، اس لیے ناراضی بھی زیادہ ہوئی جو وضاحت کرنے سے ختم ہو گئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3857
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4005
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4005
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4005
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حفصہ ؓ کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ سہمی ؓ کی وفات ہو گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور وہ مدینہ میں فوت ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان ؓ سے ملا اور ان سے حفصہ ؓ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تمہارا ارادہ ہو تو اپنی دختر حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: میں اس پر غور کروں گا۔ پھر میں کئی راتیں ٹھہرا رہا تو حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا: ابھی میں یہی مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان دنوں نکاح نہ کروں۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت ابوبکر ؓ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر حضرت عثمان ؓ سے بھی زیادہ غصہ آیا، مگر میں چند راتیں ہی ٹھہرا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کو پیغام نکاح بھیجا، اس پر میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ سے کر دیا۔ پھر مجھے حضرت ابوبکر ؓ ملے اور انہوں نے کہا: شاید تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو کیونکہ تم نے حفصہ ؓ کا ذکر کیا تھا اور میں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میں نے کہا: ہاں مجھے رنج تو ہوا تھا۔ انہوں نے فرمایا: دراصل بات یہ تھی کہ مجھے تمہاری پیش کش قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنا مجھے منظور نہ تھا۔ ہاں، اگر آپ ﷺ اپنا ارادہ ترک کر دیتے تو میں انہیں ضرور قبول کر لیتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ خنیس بن حذافہ سہمی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ واپس ہوئے تو بدر میں شرکت کی، وہاں شدید زخمی ہوگئے۔ مدینہ طیبہ میں زخم کے شدت اختیار کرنے سے فوت ہو گئے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ کےحقیقی بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے پچیس ماہ بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح کیا۔
2۔ حضرت عمر ؓ کو حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق زیادہ خفگی اس لیے ہوئی کہ حضرت عثمان ؓ نے پہلے اس معاملے پر غور و فکر کرنے کی مہلت طلب کی، پھر معذرت کردی جبکہ سیدنا ابو بکرؓہ نے سرے سے کوئی جواب ہی نہ دیا۔ اس کے علاوہ حضرت ابو بکر ؓ سے تعلق خاطر بھی زیادہ تھا، اس لیے ناراضی بھی زیادہ ہوئی جو وضاحت کرنے سے ختم ہو گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبردی، انہوں نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے سنا اور انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے بیان کیا کہ جب حفصہ بنت عمر ؓ کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی ؓ کی وفات ہوگئی، وہ رسول اللہﷺ کے اصحاب میں تھے اور بدر کی لڑائی میں انہوں نے شرکت کی تھی اور مدینہ میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ میری ملاقات عثمان بن عفان ؓ سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کردوں۔ انہوں نے کہاکہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہوئی ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ پھر میری ملاقات حضرت ابوبکرؓ سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمرؓ سے کردوں۔ ابو بکرؓ خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طریقہ عمل عثمان ؓ سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف ہوا۔ کچھ دنوں میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم ﷺ نے خود حفصہ ؓ کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح حضورﷺ سے کردیا۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہوگی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ ؓ کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے (مجھ سے) حفصہ ؓ کا ذکر کیا تھا (مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سے نکاح کرلوں) اور میں آنحضرت ﷺ کا رازفاش نہیں کرسکتاتھا۔ اگر آپ حفصہ ؓ سے نکاح کا ارادہ چھوڑدیتے تو بے شک میں ان سے نکاح کرلیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Umar bin Al-Khattab (RA) said, "When (my daughter) Hafsah (RA) bint 'Umar lost her husband Khunais bin Hudhaifa As-Sahrni who was one of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) and had fought in the battle of Badr and had died in Medina, I met 'Uthman bin 'Affan and suggested that he should marry Hafsah (RA) saying, "If you wish, I will marry Hafsah (RA) bint 'Umar to you,' on that, he said, 'I will think it over.' I waited for a few days and then he said to me. 'I am of the opinion that I shall not marry at present.' Then I met Abu Bakr (RA) and said, 'if you wish, I will marry you, Hafsah (RA) bint 'Umar.' He kept quiet and did not give me any reply and I became more angry with him than I was with Uthman . Some days later, Allah's Apostle (ﷺ) demanded her hand in marriage and I married her to him. Later on Abu Bakr (RA) met me and said, "Perhaps you were angry with me when you offered me Hafsah (RA) for marriage and I gave no reply to you?' I said, 'Yes.' Abu Bakr (RA) said, 'Nothing prevented me from accepting your offer except that I learnt that Allah's Apostle (ﷺ) had referred to the issue of Hafsah (RA) and I did not want to disclose the secret of Allah's Apostle (ﷺ) , but had he (i.e. the Prophet) given her up I would surely have accepted her."