Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The killing of Ka'b bin Al-Ashraf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4037.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔‘‘ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اجازت ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ اس وقت تو میں تیرے پاس اس غرض سے آیا ہوں کہ ایک یا دو وسق قرض لوں۔ (راوی حدیث) عمرو نے کبھی وسق یا دو وسق کا ذکر کیا ہے اور کبھی نہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: اچھا، تو میرے پاس کوئی چیز گروی رکھو۔ انہوں نے کہا: تم کیا چیز پسند کرتے ہو؟ کعب نے کہا: اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔ انہوں نے کہا: ہم اپنی عورتیں تیرے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ تو عرب میں بہت خوبصورت آدمی ہے؟ کعب بولا: تو پھر اپنے بیٹے میرے پاس گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بیٹے تیرے پاس گروی رکھ دیں، انہیں کل گالی دی جائے اور کہا جائے گا کہ انہیں ایک یا دو وسق کے عوض گروی رکھا گیا تھا اور یہ بات ہمارے لیے باعث شرم و عار ہے، البتہ ہم اپنے ہتھیار تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اس سے ہتھیار لے کر آنے کا وعدہ کر لیا۔ پھر رات کے وقت کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ ؓ کو لے کر آئے۔ کعب نے ان کو قلعے کی ایک طرف بلایا، پھر خود ان کے پاس آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: تو اس وقت کہاں جا رہا ہے؟ کعب نے جواب دیا: اس وقت تو صرف محمد بن مسلمہ اور میرا رضاعی بھائی ابو نائلہ ہے۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا کہ کعب ملعون کی بیوی نے کہا: میں تو ایسی آواز سنتی ہوں جس سے خون ٹپکتا ہے۔ کعب نے کہا: (خطرے کی کوئی بات نہیں۔ وہاں پر) میرا دوست محمد بن مسلمہ اور میرا رضاعی بھائی ابونائلہ ہے۔ کرم پیشہ انسان اگر رات کے وقت نیزہ زنی کے لیے بلایا جائے تو اس دعوت کو قبول کر لیتا ہے۔ ادھر محمد بن مسلمہ ؓ اپنے ساتھ دو اور آدمی لے کر آئے تھے۔ (راوی حدیث) سفیان سے پوچھا گیا: کیا آپ کے شیخ عمرو نے ان کا نام لیا تھا؟ انہوں نے کہا: کچھ آدمیوں کا نام لیا تھا۔ البتہ عمرو کے علاوہ دوسروں نے بیان کیا کہ وہ اپنے ہمراہ ابو عبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر کو لائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ (محمد بن مسلمہ ؓ) اپنے ساتھ دو آدمی لائے تھے اور انہوں نے (اپنے ان دونوں ساتھیوں سے) کہا کہ جب کعب یہاں آئے گا تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھو کہ میں نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور اس کے سر کو تھام لیا ہے تو تم نے جلدی سے اس کا کام تمام کر دینا ہے۔ راوی نے ایک دفعہ یوں بیان کیا کہ میں تمہیں اس کا سر سونگھاؤں گا۔ الغرض وہ (کعب) ان کے پاس چادر لپیٹے ہوئے آیا جبکہ اس سے خوشبو کی مہک اٹھ رہی تھی۔ تب حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: میں نے آج کی طرح خوشبو دار ہوا کبھی نہیں سونگھی۔ عمرو کے علاوہ (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو سب عورتوں سے زیادہ معطر رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی بے نظیر ہے۔ عمرو نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ نے کہا: کیا تو مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ تب انہوں نے خود بھی سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر جب حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے اسے مضبوط پکڑ لیا تو اپنے ساتھیوں سے کہا: ادھر آؤ اور اس کا کام تمام کردو، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کے قتل کی خوشخبری سنائی۔
تشریح:
1۔ کعب کا باپ اشرف بنونہیان قبیلے سے تھا۔ دورجاہلیت میں اس نے کسی آدمی کو قتل کردیا، پھر وہاں سے بھاگ کر مدینہ طیبہ میں آگیا اور بنو نضیر سے عہدوپیمان کرلیا، پھر اس نے ابوالحقیق کی لڑکی عقیلہ سے شادی کی تو اس سے کعب پیدا ہوا۔ اس کے قتل کرنے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: الف۔ غزوہ بدر کے بعد اس نے قریش کو جگ پر ابھارا اورہرقسم کے مال واسباب کے ساتھ تعاون کایقین دلایا بلکہ ساٹھ آدمیوں کا وفد لے کے مکے گیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا۔ اس کے علاوہ یہ شاعر بھی تھا اپنے اشعار میں اسلام اور اہل اسلام کی توہین کرتا اور مسلم خواتین کے متعلق نازیبا اشعار کہتا تھا۔ ب۔ اس نے رسول ا للہ ﷺ کی دعوت کی اور پروگرام اس طرح طے پایا کہ جب آپ مکان میں تشریف فرماہوں تو اچانک آپ پرحملہ کرکے آپ کو شہید کردیا جائے لیکن حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو اس سے مطلع کردیا اور آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر لے آئے تو واپس آکر آپ نے فرمایا: ’’اب اس کی ایذارسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،اسے قتل کرنا چاہیے۔‘‘ چنانچہ اسے کیفر کردارتک پہنچادیا گیا۔ (فتح الباري:421/7 ،422) 2۔ کعب بن اشرف یہودی کے قتل میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حصہ لیا: محمد بن مسلمہ، ابوعبس بن جبیر، حارث بن اوس، ابونائلہ اور عباد بن بشر رضوان اللہ عنھم اجمعین۔ خود رسول اللہ ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔ پھر اللہ کا نام لے کر انھیں روانہ کیا اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ!ان کی مدد فرما۔‘‘ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب اسے قتل کرکے واپس آئے تو بقیع کے پاس پہنچ کر انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کا سرآپ کے آگے پھینک دیا۔ آپ نے اس کے قتل ہوجانے پر اللہ کا شکر اداکیا۔(فتح الباري:424/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3885
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4037
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4037
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4037
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
کعب بن اشرف یہودیوں کے قبیلے بنوقریظہ میں سے تھا۔اپنے اشعار کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کی مذمت کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔غزوہ بدر میں جب مشرکین مکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرناپڑا تو اسے سخت صدمہ ہوا۔اس جنگ میں جو کافر قتل ہوئے تھے ان کا مرثیہ پڑھتا اور اپنے اشعار کے ذریعے سے کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا کرتا تھا۔اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً اسے قتل کرنے کی ضرورت پیش آئی،چنانچہ درج ذیل حدیث میں اس کے قتل کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔‘‘ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اجازت ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ اس وقت تو میں تیرے پاس اس غرض سے آیا ہوں کہ ایک یا دو وسق قرض لوں۔ (راوی حدیث) عمرو نے کبھی وسق یا دو وسق کا ذکر کیا ہے اور کبھی نہیں۔ کعب بن اشرف نے کہا: اچھا، تو میرے پاس کوئی چیز گروی رکھو۔ انہوں نے کہا: تم کیا چیز پسند کرتے ہو؟ کعب نے کہا: اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔ انہوں نے کہا: ہم اپنی عورتیں تیرے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ تو عرب میں بہت خوبصورت آدمی ہے؟ کعب بولا: تو پھر اپنے بیٹے میرے پاس گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بیٹے تیرے پاس گروی رکھ دیں، انہیں کل گالی دی جائے اور کہا جائے گا کہ انہیں ایک یا دو وسق کے عوض گروی رکھا گیا تھا اور یہ بات ہمارے لیے باعث شرم و عار ہے، البتہ ہم اپنے ہتھیار تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اس سے ہتھیار لے کر آنے کا وعدہ کر لیا۔ پھر رات کے وقت کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ ؓ کو لے کر آئے۔ کعب نے ان کو قلعے کی ایک طرف بلایا، پھر خود ان کے پاس آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: تو اس وقت کہاں جا رہا ہے؟ کعب نے جواب دیا: اس وقت تو صرف محمد بن مسلمہ اور میرا رضاعی بھائی ابو نائلہ ہے۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا کہ کعب ملعون کی بیوی نے کہا: میں تو ایسی آواز سنتی ہوں جس سے خون ٹپکتا ہے۔ کعب نے کہا: (خطرے کی کوئی بات نہیں۔ وہاں پر) میرا دوست محمد بن مسلمہ اور میرا رضاعی بھائی ابونائلہ ہے۔ کرم پیشہ انسان اگر رات کے وقت نیزہ زنی کے لیے بلایا جائے تو اس دعوت کو قبول کر لیتا ہے۔ ادھر محمد بن مسلمہ ؓ اپنے ساتھ دو اور آدمی لے کر آئے تھے۔ (راوی حدیث) سفیان سے پوچھا گیا: کیا آپ کے شیخ عمرو نے ان کا نام لیا تھا؟ انہوں نے کہا: کچھ آدمیوں کا نام لیا تھا۔ البتہ عمرو کے علاوہ دوسروں نے بیان کیا کہ وہ اپنے ہمراہ ابو عبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر کو لائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ (محمد بن مسلمہ ؓ) اپنے ساتھ دو آدمی لائے تھے اور انہوں نے (اپنے ان دونوں ساتھیوں سے) کہا کہ جب کعب یہاں آئے گا تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھو کہ میں نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور اس کے سر کو تھام لیا ہے تو تم نے جلدی سے اس کا کام تمام کر دینا ہے۔ راوی نے ایک دفعہ یوں بیان کیا کہ میں تمہیں اس کا سر سونگھاؤں گا۔ الغرض وہ (کعب) ان کے پاس چادر لپیٹے ہوئے آیا جبکہ اس سے خوشبو کی مہک اٹھ رہی تھی۔ تب حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: میں نے آج کی طرح خوشبو دار ہوا کبھی نہیں سونگھی۔ عمرو کے علاوہ (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو سب عورتوں سے زیادہ معطر رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی بے نظیر ہے۔ عمرو نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ نے کہا: کیا تو مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ تب انہوں نے خود بھی سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر جب حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے اسے مضبوط پکڑ لیا تو اپنے ساتھیوں سے کہا: ادھر آؤ اور اس کا کام تمام کردو، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کے قتل کی خوشخبری سنائی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ کعب کا باپ اشرف بنونہیان قبیلے سے تھا۔ دورجاہلیت میں اس نے کسی آدمی کو قتل کردیا، پھر وہاں سے بھاگ کر مدینہ طیبہ میں آگیا اور بنو نضیر سے عہدوپیمان کرلیا، پھر اس نے ابوالحقیق کی لڑکی عقیلہ سے شادی کی تو اس سے کعب پیدا ہوا۔ اس کے قتل کرنے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: الف۔ غزوہ بدر کے بعد اس نے قریش کو جگ پر ابھارا اورہرقسم کے مال واسباب کے ساتھ تعاون کایقین دلایا بلکہ ساٹھ آدمیوں کا وفد لے کے مکے گیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا۔ اس کے علاوہ یہ شاعر بھی تھا اپنے اشعار میں اسلام اور اہل اسلام کی توہین کرتا اور مسلم خواتین کے متعلق نازیبا اشعار کہتا تھا۔ ب۔ اس نے رسول ا للہ ﷺ کی دعوت کی اور پروگرام اس طرح طے پایا کہ جب آپ مکان میں تشریف فرماہوں تو اچانک آپ پرحملہ کرکے آپ کو شہید کردیا جائے لیکن حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو اس سے مطلع کردیا اور آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر لے آئے تو واپس آکر آپ نے فرمایا: ’’اب اس کی ایذارسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،اسے قتل کرنا چاہیے۔‘‘ چنانچہ اسے کیفر کردارتک پہنچادیا گیا۔ (فتح الباري:421/7 ،422) 2۔ کعب بن اشرف یہودی کے قتل میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حصہ لیا: محمد بن مسلمہ، ابوعبس بن جبیر، حارث بن اوس، ابونائلہ اور عباد بن بشر رضوان اللہ عنھم اجمعین۔ خود رسول اللہ ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔ پھر اللہ کا نام لے کر انھیں روانہ کیا اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ!ان کی مدد فرما۔‘‘ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب اسے قتل کرکے واپس آئے تو بقیع کے پاس پہنچ کر انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کا سرآپ کے آگے پھینک دیا۔ آپ نے اس کے قتل ہوجانے پر اللہ کا شکر اداکیا۔(فتح الباري:424/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کعب بن اشرف کا کا م کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آ پ نے فرمایا، ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ ؓ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص (اشارہ حضوراکرم ﷺ کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، خدا کی قسم ! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کرلی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے۔ کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بے غیرتی ہوگی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ”لامة“ گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جاکر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت (اتنی رات گئے) کہاں باہر جارہے ہو؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابو نائلہ ہے۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہیں۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا (راوی نے) ابو عبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لا ئے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جا ئے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہوجانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن وجمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ ؓ نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ ؓ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ ؓ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلا ع دی۔
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ ؓ تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے۔ پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس۔ ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں۔ آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔ چاندنی رات تھی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔ کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا۔ اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی۔ قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت ﷺ کو قتل کرا دے۔ فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت ﷺ کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل ؑ، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے۔ اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے اس کو ختم کرنے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا۔ مگر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا۔ بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ بن مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ كَانَ شَاعِرًا وَكَانَ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٌ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِصْلَاحَهُمْ وَكَانَ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ يُؤْذُونَ الْمُسْلِمِينَ أَشَدَّ الْأَذَى فَأَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ وَالْمُسْلِمِينَ بِالصَّبْرِ فَلَمَّا أَبَى كَعْبٌ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَاهُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رهطا ليقتلوه وَذكر بن سَعْدٍ أَنَّ قَتْلَهُ كَانَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنَ السَّنَةِ الثَّالِثَةِ(فتح الباري) خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے۔ آنحضرتﷺنے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا۔ یہودی اور مشرکین آنحضرت ﷺ کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے۔ پس اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے۔ ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Who is willing to kill Ka'b bin Al-Ashraf who has hurt Allah and His Apostle?" Thereupon Muhammad bin Maslama got up saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Would you like that I kill him?" The Prophet (ﷺ) said, "Yes," Muhammad bin Maslama said, "Then allow me to say a (false) thing (i.e. to deceive Kab). "The Prophet (ﷺ) said, "You may say it." Then Muhammad bin Maslama went to Kab and said, "That man (i.e. Muhammad demands Sadaqa (i.e. Zakat) from us, and he has troubled us, and I have come to borrow something from you." On that, Kab said, "By Allah, you will get tired of him!" Muhammad bin Maslama said, "Now as we have followed him, we do not want to leave him unless and until we see how his end is going to be. Now we want you to lend us a camel load or two of food." (Some difference between narrators about a camel load or two.) Kab said, "Yes, (I will lend you), but you should mortgage something to me." Muhammad bin Mas-lama and his companion said, "What do you want?" Ka'b replied, "Mortgage your women to me." They said, "How can we mortgage our women to you and you are the most handsome of the 'Arabs?" Ka'b said, "Then mortgage your sons to me." They said, "How can we mortgage our sons to you? Later they would be abused by the people's saying that so-and-so has been mortgaged for a camel load of food. That would cause us great disgrace, but we will mortgage our arms to you." Muhammad bin Maslama and his companion promised Kab that Muhammad would return to him. He came to Kab at night along with Kab's foster brother, Abu Na'ila. Kab invited them to come into his fort, and then he went down to them. His wife asked him, "Where are you going at this time?" Kab replied, "None but Muhammad bin Maslama and my (foster) brother Abu Na'ila have come." His wife said, "I hear a voice as if dropping blood is from him, Ka'b said. "They are none but my brother Muhammad bin Maslama and my foster brother Abu Naila. A generous man should respond to a call at night even if invited to be killed." Muhammad bin Maslama went with two men. (Some narrators mention the men as 'Abu bin Jabr. Al Harith bin Aus and Abbad bin Bishr). So Muhammad bin Maslama went in together with two men, and sail to them, "When Ka'b comes, I will touch his hair and smell it, and when you see that I have got hold of his head, strip him. I will let you smell his head." Kab bin Al-Ashraf came down to them wrapped in his clothes, and diffusing perfume. Muhammad bin Maslama said. " have never smelt a better scent than this. Ka'b replied. "I have got the best 'Arab women who know how to use the high class of perfume." Muhammad bin Maslama requested Ka'b "Will you allow me to smell your head?" Ka'b said, "Yes." Muhammad smelt it and made his companions smell it as well. Then he requested Ka'b again, "Will you let me (smell your head)?" Ka'b said, "Yes." When Muhammad got a strong hold of him, he said (to his companions), "Get at him!" So they killed him and went to the Prophet (ﷺ) and informed him. (Abu Rafi) was killed after Ka'b bin Al-Ashraf."