باب: مسجد میں تھوک لگا ہو تو ہاتھ سے اس کا کھرچ ڈالنا ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To scrape off the sputum from the mosque with the hand (using some tool or other, or using n tool))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
405.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک دفعہ قبلے کی جانب کچھ تھوک دیکھا تو آپ کو سخت ناگواری ہوئی حتی کہ اس کے اثرات آپکے چہرہ انور پر دیکھے گئے۔ آپ (خود) کھڑے ہوئے اور اپنے دست مبارک سے صاف کر کے فرمایا:’’تم میں سے جب کوئی اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا تم میں سے کوئی (بحالت نماز) اپنے قبلے کی طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے۔‘‘پھر آپ ﷺ نے اپنی چادر کے گوشے میں تھوکا اور اسے الٹ پلٹ کیا، اور فرمایا:’’اس طرح بھی کر سکتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس باب کی روایات میں تین چیزوں کو باعث نفرت قراردیاگیا ہے: نخامہ: سینے کا بلغم۔ مخاط : ناک سے بہنے والی رطوبت۔ بصاق: منہ کاتھوک۔ مسجد کے معاملے میں ان تینوں کاحکم یکساں ہے کہ یہ چیزیں جہاں کہیں نظر آئیں انھیں فوراً زائل کردیا جائے۔ احترام مسجد کا تقاضاہے کہ مسجد کے خادم یا موذن کاانتظار کیے بغیر ہردیکھنے والا اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنا حرام ہے، اگرچہ مسجد سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی سنگینی حدیث میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے۔ کہ جو شخص قبلے کی طرف تھوکتا ہے قیامت کے دن جب یہ شخص اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوگا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3824) ایک روایت میں ہے کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنے والے کو جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اس کاتھوک اس کے چہرے پر ہوگا۔ (صحیح ابن خذیمة:278/2، حدیث:1313) حضرت سائب بن خلاد بیان کرتے ہیں کہ ایک امام مسجد نے دوران نماز میں قبلے کی جانب منہ کرکے تھوک دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے امامت سے معزول کرکے فرمایا:’’تو نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کو ایذادی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:481) 3۔ دوسری روایت میں سامنے نہ تھوکنے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اس کے سامنے ہوتی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:406) اس سے قبلے کی عظمت معلوم ہوتی ہے، نیز اس کی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس حدیث کے پیش نظر معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر وناضر ہے۔ یہ ان کی کھلی جہالت ہے، کیونکہ اگرایسا ہوتاتو بائیں جانب یا پاؤں تلے تھوکنا بھی منع ہوتا۔ (فتح الباري:658/1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے، لیکن حافظ صاحب ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ متعدد آیات اور بکثرت احادیث اس امر کے متعلق قطعی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے مستوی علی العرش ہے۔ تمام ائمہ سنت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش معلیٰ پر مستوی ہے اور ہرجگہ اس کی معیت سے مراد اس کی قدرت کاملہ اور وسیع علم ہے۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ قدرت اور علم اللہ تعالیٰ کی دوالگ الگ صفات ہیں۔ معیت سے قدرت کاملہ اور وسیع علم مرادلینا بھی ایک قسم کی تاویل ہے جس کی ممانعت ہے، لہذا معیت کو بھی اپنے معنی میں ہی رکھا جائےاور یہ موقف اختیار کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر ایک کے ساتھ ہے۔ یہ موقف بھی وزنی اور خاصا محتاط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب التوحید میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
404
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
405
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
405
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
405
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
قبلے اور مسجد کے درمیان جو مناسبت ہے وہ محتاج بیان نہیں کیونکہ مسجد میں قبلہ کی سمت متعین ہوتی ہے۔مسجد میں ہر ایک کے لیے استقبال قبلہ کے تعین کی سہولت ہوتی ہے،اسی مناسبت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب قبلہ کے ساتھ مسجد کے احکام کو شامل کردیاہے۔مسجد کی شان کیا ہے اور اس کے آداب کیا ہیں؟اب ان کاآغاز کیاجارہا ہے۔آئندہ پچپن ابواب تک مسجد کے احکام بیان ہوں گے۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے ،اس کا احترام انتہائی ضروری ہے۔اگر اس میں کوئی نفرت والی چیزنظر آئے تو خادم وغیرہ کاانتظار نہ کیا جائے بلکہ خود ہی اسے دور کردیاجائے۔عنوان میں ہاتھ کے الفاظ حدیث کی اتباع ذکر کیے ہیں۔ضروری نہیں کہ اسے ہاتھ ہی سے صاف کرنا ہے بلکہ جس طرح بھی ممکن ہواسے صاف کرنا چاہیے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک دفعہ قبلے کی جانب کچھ تھوک دیکھا تو آپ کو سخت ناگواری ہوئی حتی کہ اس کے اثرات آپکے چہرہ انور پر دیکھے گئے۔ آپ (خود) کھڑے ہوئے اور اپنے دست مبارک سے صاف کر کے فرمایا:’’تم میں سے جب کوئی اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا تم میں سے کوئی (بحالت نماز) اپنے قبلے کی طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے۔‘‘پھر آپ ﷺ نے اپنی چادر کے گوشے میں تھوکا اور اسے الٹ پلٹ کیا، اور فرمایا:’’اس طرح بھی کر سکتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس باب کی روایات میں تین چیزوں کو باعث نفرت قراردیاگیا ہے: نخامہ: سینے کا بلغم۔ مخاط : ناک سے بہنے والی رطوبت۔ بصاق: منہ کاتھوک۔ مسجد کے معاملے میں ان تینوں کاحکم یکساں ہے کہ یہ چیزیں جہاں کہیں نظر آئیں انھیں فوراً زائل کردیا جائے۔ احترام مسجد کا تقاضاہے کہ مسجد کے خادم یا موذن کاانتظار کیے بغیر ہردیکھنے والا اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنا حرام ہے، اگرچہ مسجد سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی سنگینی حدیث میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے۔ کہ جو شخص قبلے کی طرف تھوکتا ہے قیامت کے دن جب یہ شخص اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوگا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3824) ایک روایت میں ہے کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنے والے کو جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اس کاتھوک اس کے چہرے پر ہوگا۔ (صحیح ابن خذیمة:278/2، حدیث:1313) حضرت سائب بن خلاد بیان کرتے ہیں کہ ایک امام مسجد نے دوران نماز میں قبلے کی جانب منہ کرکے تھوک دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے امامت سے معزول کرکے فرمایا:’’تو نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کو ایذادی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:481) 3۔ دوسری روایت میں سامنے نہ تھوکنے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اس کے سامنے ہوتی ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:406) اس سے قبلے کی عظمت معلوم ہوتی ہے، نیز اس کی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس حدیث کے پیش نظر معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر وناضر ہے۔ یہ ان کی کھلی جہالت ہے، کیونکہ اگرایسا ہوتاتو بائیں جانب یا پاؤں تلے تھوکنا بھی منع ہوتا۔ (فتح الباري:658/1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے، لیکن حافظ صاحب ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ متعدد آیات اور بکثرت احادیث اس امر کے متعلق قطعی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے مستوی علی العرش ہے۔ تمام ائمہ سنت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش معلیٰ پر مستوی ہے اور ہرجگہ اس کی معیت سے مراد اس کی قدرت کاملہ اور وسیع علم ہے۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ قدرت اور علم اللہ تعالیٰ کی دوالگ الگ صفات ہیں۔ معیت سے قدرت کاملہ اور وسیع علم مرادلینا بھی ایک قسم کی تاویل ہے جس کی ممانعت ہے، لہذا معیت کو بھی اپنے معنی میں ہی رکھا جائےاور یہ موقف اختیار کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر ایک کے ساتھ ہے۔ یہ موقف بھی وزنی اور خاصا محتاط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب التوحید میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا، جو آپ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص ( نماز میں اپنے ) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنادہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) saw some sputum in the direction of the Qibla (on the wall of the mosque) and he disliked that and the sign of disgust was apparent from his face. So he got up and scraped it off with his hand and said, "Whenever anyone of you stands for the prayer, he is speaking in private to his Lord or his Lord is between him and his Qibla. So, none of you should spit in the direction of the Qibla but one can spit to the left or under his foot." The Prophet (ﷺ) then took the corner of his sheet and spat in it and folded it and said, "Or you can do like this.”