باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئر معونہ کے غزوہ کا بیان اور عضل اور قارہ کا قصہ اور عاصم بن ثابت اور خبیب اور ان کے ساتھیوں کا قصہ۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Ar-Raji’, Ri’l, Dhakwan and Bi’r Ma’una and the narration about Khubaib and his companions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔
4086.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک فوجی دستہ جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور حضرت عاصم بن ثابت ؓ کو ان پر امیر مقرر فرمایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے۔ یہ حضرات چل پڑے حتی کہ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو ہذیل کے ایک قبیلہ بنو لحیان کو ان کی خبر دی گئی، چنانچہ ان کے تقریبا ایک سو تیر انداز، مجاہدین کے تعاقب میں گئے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے چلتے وہ لوگ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں مجاہدین نے پڑاؤں کیا تھا۔ وہاں انہیں کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو وہ مدینہ منورہ سے توشہ کے طور پر لائے تھے۔ مشرکین کہنے لگے: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں، چنانچہ انہوں نے ان کے قدموں کے نشانات پر ان کا پیچھا کیا تو مجاہدین کو جا لیا۔ جب حضرت عاصم ؓ اور ان کے ساتھی چلنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لی۔ مشرکین آئے اور ان کا گھیراؤ کر لیا اور ان سے کہا: ہمارا تم سے عہد و میثاق ہے۔ اگر تم نیچے اتر آؤ تو ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔ (امیر لشکر) حضرت عاصم ؓ نے کہا: میں تو کسی کافر کے عہد پر نیچے نہیں اتروں گا۔ انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! ہماری طرف سے اپنے نبی کو اطلاع کر دے، چنانچہ انہوں نے مجاہدین سے لڑائی شروع کی اور انہیں تیر مارنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عاصم ؓ سمیت سات آدمیوں کو تیر مار مار کر شہید کر دیا۔ اب صرف تین آدمی حضرت خبیب، حضرت زید ؓ اور ایک تیسرا شخص باقی رہ گیا۔ مشرکین نے ان تینوں کو عہد و پیمان دیا۔ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ جب مشرکین نے ان پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں کی تانتوں سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا، جو ان کے ساتھ تھا۔ یہ پہلا دھوکا ہے اور اس نے کفار کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسے کھینچا اور ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ ساتھ نہ گیا تو اس کو بھی قتل کر دیا گیا۔ وہ خبیب اور زید ؓ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں ان دونوں کو فروخت کر دیا۔ حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ حضرت خبیب ؓ نے ان کے باپ حارث کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ وہ ان کے پاس چند روز قیدی بن کر رہے حتی کہ انہوں نے خبیب ؓ کو قتل کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس دوران میں حضرت خبیب ؓ نے حارث کی بیٹی سے استرا مانگا تاکہ زیر ناف بال صاف کر لیں تو اس نے استرا دے دیا۔ اس کا بیان ہے کہ میں اپنے بچے سے غافل ہو گئی حتی کہ وہ چلتے چلتے حضرت خبیب ؓ کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت خبیب ؓ نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ جب میں نے بچے کو اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ میری گھبراہٹ کا اندازہ حضرت خبیب ؓ نے بھی کر لیا جبکہ استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ میں، ان شاءاللہ، ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی: میں نے خبیب سے بڑھ کر اچھا کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ خوشہ انگور سے کھا رہے تھے، حالانکہ مکے میں اس وقت کوئی پھل نہ تھا جبکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ صرف اللہ کا رزق تھا جو اللہ نے انہیں دیا تھا۔ بہرحال مشرکین حضرت خبیب ؓ کو لے کر حرم سے باہر نکلے تاکہ انہیں قتل کریں تو انہوں نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں دو رکعتیں پڑھ لوں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ جلدی سے ان کی طرف گئے اور کہنے لگے: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میرے متعلق گھبرا جانے کا گمان کرو گے تو میں اور زیادہ نماز پڑھتا۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ جاری کیا۔ پھر انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! انہیں گن گن کر ہلاک کر، پھر یہ شعر پڑھے: ’’جب میں بحالت اسلام قتل ہو رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کے لیے میں کس پہلو پر گروں گا۔ میرا شہید ہونا اللہ کی رضا کے لیے ہے، اگر وہ چاہے تو میرے بریدہ (کٹے پھٹے) جسم کے ٹکڑوں پر برکت ڈال دے۔‘‘ پھر حارث کا بیٹا عقبہ آگے بڑھا اور اس نے انہیں قتل کر دیا۔ دوسری طرف کفار قریش نے حضرت عاصم ؓ کی طرف کچھ آدمی بھیجے تاکہ ان کے بدن کا کوئی حصہ لے آئیں جس سے وہ انہیں پہچان سکیں۔ دراصل حضرت عاصم ؓ نے بھی بدر کی لڑائی میں قریش کے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے شہد کی مکھیوں کا ایک چھتا بھیج دیا جس نے قاصدوں کی دست برد سے حضرت عاصم ؓ کی حفاظت کر، چنانچہ وہ حضرت عاصم ؓ کی لاش سے کوئی عضو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3933
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4086
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4086
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4086
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ رجیع اور حادثہ بئر معونہ ایک ہی واقعہ ہے لیکن یہ دو الگ الگ واقعات ہیں اور یہ دونوں غزوہ اُحد کے بعد پیش آئے۔3ہجری کے آخرمیں غزوہ رجیع پیش آیا جسے حضرت عاصم اور حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر یہ کہاجاتا ہے۔رجیع قبیلہ ہذیل کے ایک چشمے کا نام ہے،وہاں ان حضرات کاعضل اور قارہ سے مقابلہ ہوا جبکہ بئر معونہ کا واقعہ 4ہجری کے شروع میں پیش آیا۔بئر معونہ بھی قبیلہ ہذیل کے علاقے میں ہے لیکن عسفان اور مکہ کے درمیان واقع ہے۔وہاں عامر بن طفل نے ذکوان اور رعل قبائل کو ساتھ لے کرصفہ کے ستر(70) قراء کو شہید کیا تھا،البتہ ان دونوں واقعات کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات پہنچی۔اگرچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایات میں عضل اور قارہ کے قبائل کی صراحت نہیں،تاہم ابن اسحاق نے ان کی تصریح کی ہے،چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزوہ اُحد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ کا ایک گروہ آیا اور کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم مسلمان ہیں،آپ ہمارے ساتھ چند علماء بھیجیں جو احکام دین کی تعلیم دیں تو آپ نے ان کے ساتھ چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھیجے اور یہ واقعہ رجیع سے متعلق ہے جو حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا۔( فتح الباری 474/7۔) بہرحال غزوہ رجیع حضرت عاصم اور حضرت خبیب کا سریہ ہے،جو عضل اور قارہ کے ساتھ 3 ہجری کے آخر میں پیش آیا اور بئر معونہ کا حادثہ سریہ قراء کہلاتا ہے۔یہ تعداد میں ستر(70) تھے اور یہ واقعہ رعل اور ذکوان سے متعلق ہے ۔یہ 4ہجری کے شروع میں پیش آیا۔چونکہ یہ دونوں قریب قریب تھے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کو اکٹھا ہی بیان کردیا ہے۔واللہ اعلم۔
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوئہ رجیع غزوہ احد کے بعد پیش آیا۔رجیع ایک مقام کا نام ہے ہذیل کی بستیوں میں سے یہ غزوہ صفر4ھ میں جنگ احدکے بعد ہوا تھا بیئرمعونہ اور عسفان کے درمیان ایک مقام ہے وہاں قاری صحابہ کو رعل اور ذکوان قبائل نے دھوکہ سے شہید کر دیا تھا عضل اور قارہ بھی عرب کے دو قبائل کے نام ہیں ان کا قصہ غزوۂ رجیع میں ہوا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک فوجی دستہ جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور حضرت عاصم بن ثابت ؓ کو ان پر امیر مقرر فرمایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے۔ یہ حضرات چل پڑے حتی کہ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو ہذیل کے ایک قبیلہ بنو لحیان کو ان کی خبر دی گئی، چنانچہ ان کے تقریبا ایک سو تیر انداز، مجاہدین کے تعاقب میں گئے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے چلتے وہ لوگ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں مجاہدین نے پڑاؤں کیا تھا۔ وہاں انہیں کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو وہ مدینہ منورہ سے توشہ کے طور پر لائے تھے۔ مشرکین کہنے لگے: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں، چنانچہ انہوں نے ان کے قدموں کے نشانات پر ان کا پیچھا کیا تو مجاہدین کو جا لیا۔ جب حضرت عاصم ؓ اور ان کے ساتھی چلنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لی۔ مشرکین آئے اور ان کا گھیراؤ کر لیا اور ان سے کہا: ہمارا تم سے عہد و میثاق ہے۔ اگر تم نیچے اتر آؤ تو ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔ (امیر لشکر) حضرت عاصم ؓ نے کہا: میں تو کسی کافر کے عہد پر نیچے نہیں اتروں گا۔ انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! ہماری طرف سے اپنے نبی کو اطلاع کر دے، چنانچہ انہوں نے مجاہدین سے لڑائی شروع کی اور انہیں تیر مارنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عاصم ؓ سمیت سات آدمیوں کو تیر مار مار کر شہید کر دیا۔ اب صرف تین آدمی حضرت خبیب، حضرت زید ؓ اور ایک تیسرا شخص باقی رہ گیا۔ مشرکین نے ان تینوں کو عہد و پیمان دیا۔ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ جب مشرکین نے ان پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں کی تانتوں سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا، جو ان کے ساتھ تھا۔ یہ پہلا دھوکا ہے اور اس نے کفار کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسے کھینچا اور ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ ساتھ نہ گیا تو اس کو بھی قتل کر دیا گیا۔ وہ خبیب اور زید ؓ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں ان دونوں کو فروخت کر دیا۔ حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ حضرت خبیب ؓ نے ان کے باپ حارث کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ وہ ان کے پاس چند روز قیدی بن کر رہے حتی کہ انہوں نے خبیب ؓ کو قتل کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس دوران میں حضرت خبیب ؓ نے حارث کی بیٹی سے استرا مانگا تاکہ زیر ناف بال صاف کر لیں تو اس نے استرا دے دیا۔ اس کا بیان ہے کہ میں اپنے بچے سے غافل ہو گئی حتی کہ وہ چلتے چلتے حضرت خبیب ؓ کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت خبیب ؓ نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ جب میں نے بچے کو اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ میری گھبراہٹ کا اندازہ حضرت خبیب ؓ نے بھی کر لیا جبکہ استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ میں، ان شاءاللہ، ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی: میں نے خبیب سے بڑھ کر اچھا کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ خوشہ انگور سے کھا رہے تھے، حالانکہ مکے میں اس وقت کوئی پھل نہ تھا جبکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ صرف اللہ کا رزق تھا جو اللہ نے انہیں دیا تھا۔ بہرحال مشرکین حضرت خبیب ؓ کو لے کر حرم سے باہر نکلے تاکہ انہیں قتل کریں تو انہوں نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں دو رکعتیں پڑھ لوں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ جلدی سے ان کی طرف گئے اور کہنے لگے: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میرے متعلق گھبرا جانے کا گمان کرو گے تو میں اور زیادہ نماز پڑھتا۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ جاری کیا۔ پھر انہوں نے دعا مانگی: اے اللہ! انہیں گن گن کر ہلاک کر، پھر یہ شعر پڑھے: ’’جب میں بحالت اسلام قتل ہو رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کے لیے میں کس پہلو پر گروں گا۔ میرا شہید ہونا اللہ کی رضا کے لیے ہے، اگر وہ چاہے تو میرے بریدہ (کٹے پھٹے) جسم کے ٹکڑوں پر برکت ڈال دے۔‘‘ پھر حارث کا بیٹا عقبہ آگے بڑھا اور اس نے انہیں قتل کر دیا۔ دوسری طرف کفار قریش نے حضرت عاصم ؓ کی طرف کچھ آدمی بھیجے تاکہ ان کے بدن کا کوئی حصہ لے آئیں جس سے وہ انہیں پہچان سکیں۔ دراصل حضرت عاصم ؓ نے بھی بدر کی لڑائی میں قریش کے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے شہد کی مکھیوں کا ایک چھتا بھیج دیا جس نے قاصدوں کی دست برد سے حضرت عاصم ؓ کی حفاظت کر، چنانچہ وہ حضرت عاصم ؓ کی لاش سے کوئی عضو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق نے کہا: ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوہ رجیع اُحد کے بعد پیش آیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں معمر بن راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان ثقفی نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جاسوسی کے لیے ایک جماعت (مکہ، قریش کی خبر لانے کے لیے) بھیجی اور اس کا امیر عاصم بن ثابت ؓ کو بنایا، جو عاصم بن عمربن خطاب کے نانا ہیں۔ یہ جماعت روانہ ہوئی اور جب عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچی توقبیلہ ہذیل کے ایک قبیلے کو جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا، ان کا علم ہو گیا اور قبیلہ کے تقریباً سو تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے چلے۔ آخر ایک ایسی جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں صحابہ کی اس جماعت نے پڑاؤ کیا تھا۔ وہاں ان کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو صحابہ مدینہ سے لائے تھے۔ قبیلہ والوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجور (کی گھٹلی ہے) اب انہوں نے پھر تلاش شروع کی اور صحابہ کو پالیا۔ عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو صحابہ کی اس جماعت نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے وہاں پہنچ کر ٹیلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور صحابہ سے کہا کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ اس پر عاصم ؓ بولے کہ میں تو کسی کافر کی حفاظت وامن میں اپنے کو کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتا۔ اے اللہ! ہمارے ساتھ پیش آنے والے حالات کی خبر اپنے نبی کو پہنچا دے۔ چنانچہ ان صحابہ نے ان سے قتال کیا اور عاصم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے تیر وں سے شہید ہو گئے۔ خبیب، زید اور ایک صحابی ان کے حملوں سے ا بھی محفوظ تھے۔ قبیلہ والوں نے پھر حفاظت وامان کا یقین دلایا۔ یہ حضرات ان کی یقین دہانی پر اتر آئے۔ پھر جب قبیلہ والوں نے انہیں پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تو ان کی کمان کی تانت اتار کر ان صحابہ کو انہیں سے باندھ دیا۔ تیسرے صحابہ جو خبیب اور زید کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ پہلے تو قبیلہ والوں نے انہیں گھسیٹا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے زور لگا تے رہے لیکن جب وہ کسی طرح تیار نہ ہوئے تو انہیں وہیں قتل کردیا اور خبیب اور زید کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے، پھر انہیں مکہ میں لاکر بیچ دیا۔ خبیب ؓ نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔ وہ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قید ی کی حیثیت سے رہے۔ جس وقت ان سب کا خبیب ؓ کے قتل پر اتفاق ہو چکا تو اتفاق سے انہیں دنوں حارث کی ایک لڑکی (زینب) سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا اور انہوں نے ان کو استرہ بھی دے دیا تھا۔ ان کا بیان تھا کہ میرا لڑکا میری غفلت میں خبیب ؓ کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ میں نے جو اسے اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ انہوں نے میری گھبراہٹ کو جان لیا ، استرہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا ، کیا تمہیں اس کا خطرہ ہے کہ میں اس بچے کو قتل کردوںگا ؟ ان شاءاللہ میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا۔ ان کا بیان تھا کہ خبیب ؓ سے بہتر قیدی میں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ میں نے انہیں انگور کا خوشہ کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ اس وقت مکہ میں کسی طرح کاپھل موجود نہیں تھا جبکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی تھے ، تو وہ اللہ کی بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر حارث کے بیٹے قتل کر نے کے لیے انہیں لے کر حرم کے حدود سے باہر گئے۔ خبیب ؓ نے ان سے فرمایا مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو (انہوں نے اجازت دے دی اور) جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ان سے فرمایا کہ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں موت سے گھبرا گیا ہوں تو اور زیادہ نماز پڑھتا۔ خبیب ؓ ہی پہلے وہ شخص ہیں جن سے قتل سے پہلے دو رکعت نماز کا طریقہ چلا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے لیے بد دعا کی، اے اللہ! انہیں ایک ایک کر کے ہلاک کردے اور یہ اشعار پڑھے ”جب کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر اللہ کی راہ میں مجھے قتل کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ چاہے گا تو جسم کے ایک ایک کٹے ہوئے ٹکڑے میں برکت دے گا۔“ پھر عقبہ بن حارث نے کھڑے ہو کر انہیں شہید کردیا اور قریش نے عاصم ؓ کی لاش کے لیے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ عاصم ؓ نے قریش کے ایک بہت بڑے، سردارکو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا لیکن ا للہ تعالیٰ نے بھڑوں کی ایک فوج کو بادل کی طرح ان کے اوپر بھیجا اور ان بھڑوں نے ان کی لاش کو قریش کے آدمیوں سے محفوظ رکھا اور قریش کے بھیجے ہوئے یہ لوگ (ان کے پاس نہ پھٹک سکے) کچھ نہ کر سکے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) sent a Sariya of spies and appointed 'Asim bin Thabit, the grandfather of 'Asim bin 'Umar bin Al-Khattab (RA), as their leader. So they set out, and when they reached (a place) between 'Usfan and Makkah, they were mentioned to one of the branch tribes of Bani Hudhail called Lihyan. So, about one-hundred archers followed their traces till they (i.e. the archers) came to a journey station where they (i.e. 'Asim and his companions) had encamped and found stones of dates they had brought as journey food from Medina. The archers said, "These are the dates of Medina," and followed their traces till they took them over. When 'Asim and his companions were not able to go ahead, they went up a high place, and their pursuers encircled them and said, "You have a covenant and a promise that if you come down to us, we will not kill anyone of you." 'Asim said, "As for me, I will never come down on the security of an infidel. O Allah! Inform Your Prophet (ﷺ) about us." So they fought with them till they killed 'Asim along with seven of his companions with arrows, and there remained Khubaib, Zaid and another man to whom they gave a promise and a covenant. So when the infidels gave them the covenant and promise, they came down. When they captured them, they opened the strings of their arrow bows and tied them with it. The third man who was with them said, "This is the first breach in the covenant," and refused to accompany them. They dragged him and tried to make him accompany them, but he refused, and they killed him. Then they proceeded on taking Khubaib and Zaid till they sold them in Makkah. The sons of Al-Harith bin 'Amr bin Naufal bought Khubaib. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amr on the day of Badr. Khubaib stayed with them for a while as a captive till they decided unanimously to kill him. (At that time) Khubaib borrowed a razor from one of the daughters of Al-Harith to shave his pubic hair. She gave it to him. She said later on, "I was heedless of a little baby of mine, who moved towards Khubaib, and when it reached him, he put it on his thigh. When I saw it, I got scared so much that Khubaib noticed my distress while he was carrying the razor in his hand. He said 'Are you afraid that I will kill it? Allah willing, I will never do that,' " Later on she used to say, "I have never seen a captive better than Khubaib Once I saw him eating from a bunch of grapes although at that time no fruits were available at Makkah, and he was fettered with iron chains, and in fact, it was nothing but food bestowed upon him by Allah." So they took him out of the Sanctuary (of Makkah) to kill him. He said, "Allow me to offer a two-Rak'at prayer." Then he went to them and said, "Had I not been afraid that you would think I was afraid of death, I would have prayed for a longer time." So it was Khubaib who first set the tradition of praying two Rakat before being executed. He then said, "O Allah! Count them one by one," and added, 'When I am being martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, because this death is in Allah's Cause. If He wishes, He will bless the cut limbs." Then 'Uqba bin Al-Harith got up and martyred him. The narrator added: The Quraish (infidels) sent some people to 'Asim in order to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for 'Asim had killed one of their chiefs on the day of Badr. But Allah sent a cloud of wasps which protected his body from their messengers who could not harm his body consequently. ________