باب: غزوئہ احزاب سے نبی کریم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنااور ان کا محاصرہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The return of the Prophet (saws) from Ahzab and his going out to Bani Quraiza)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4120.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: صحابہ کرام ؓ اپنے باغات میں سے کچھ درخت نبی ﷺ کے لیے مقرر کر دیتے تھے یہاں تک کہ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کو فتح کیا تو میرے اہل خانہ نے مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں آپ سے تمام یا کچھ کھجوروں کی واپسی کا مطالبہ کروں جو انہوں نے آپ کو دے رکھی تھیں۔ نبی ﷺ نے ہماری کچھ کھجوریں حضرت ام ایمن ؓ کو دے رکھی تھیں۔ اس دوران میں وہ بھی تشریف لے آئیں تو انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہا: قطعا نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! جو کھجوریں آپ نے مجھے عطا کی ہیں وہ تمہیں ہرگز واپس نہیں ملیں گی یا اس طرح کے کوئی اور کلمات کہے۔ نبی ﷺ (ان سے یہ) فرماتے تھے: ’’تمہیں ان کے عوض اتنے درخت دے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ کہتیں: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! یہ کھجوریں تمہیں واپس نہیں کروں گی۔ (راوی حدیث معتمر کے والد گرامی سلیمان نے کہا:) میرا خیال ہے حضرت انس ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ نے انہیں دس گنا زیادہ کھجوریں دے کر راضی کیا۔ یا (حضرت انس ؓ نے) اس سے ملتے جلتے الفاظ بیان فرمائے تھے۔
تشریح:
1۔ ہجرت کے بعد انصار مدینہ نے مہاجرین سے مواسات اور ہمدردی کرتے ہوئے اپنے کھجوروں کے باغات سے کچھ درخت وقتی طور پر نفع اٹھانے کے لیے انھیں دے دیے تھے۔ حضرت ام سلیم ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو چند درخت استعمال کے لیے دیے تھے۔ آپ نے ان میں سے کچھ درخت حضرت ام ایمن ؓ کو عطا فرمادیے۔ جب بنوقریظہ اور بنو نضیر کے باغات فتح ہوئے تو مہاجرین ان کے مالک بن گئے، اس لیے انصاری کی طرف سے وقتی طور پر عطا کر دہ درخت انھیں واپس کردیے گئے، لیکن حضرت ام ایمن ؓ نے یہ خیال کیا کہ وہ ان درختوں کی مالک ہیں، اس لیے انھوں نے وہ درخت واپس کرنے سے انکارکردیا۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پرورش کرنے والی اورخدمت گزارتھیں۔ اس لیے حق حضانت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ ان کھجوروں کے عوض تمھیں دس گنا کھجوریں دی جائیں گی تو انھوں نے وہ درخت واپس کردیے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کا نفع ہبہ کرنا جائز ہے اگر چہ اصل چیز مالک اپنے پاس ہی رکھے۔ (فتح ا لباري:513/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3967
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4120
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4120
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4120
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مختلف قبائل سے صلح کرکے انھیں اپنا حلیف بنالیاتھا۔بنوقریظہ بھی ان میں شامل تھے لیکن غزوہ احزاب کے موقع پر کفار قریش اور قبائل غطفان سے ساز باز کرکے بنوقریظہ نے مسلمانوں سے غداری کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ ہجری 23 ذوالقعدہ کو تین ہزار مجاہدین اور چھتیس گھوڑوں کے ساتھ بنوقریظہ پرچڑھائی کی۔جب انھیں پتہ چلا کہ ہم مسلمانوں کے غضب کا نشانہ بنیں گے توخیبر کے رئیس حی بن اخطب کے ہمراہ قلعہ بند ہوگئے۔رسول اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ کیا۔اس عنوان کے تحت بنوقریظہ کے متعلق احادیث بیان ہوں گی۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: صحابہ کرام ؓ اپنے باغات میں سے کچھ درخت نبی ﷺ کے لیے مقرر کر دیتے تھے یہاں تک کہ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کو فتح کیا تو میرے اہل خانہ نے مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں آپ سے تمام یا کچھ کھجوروں کی واپسی کا مطالبہ کروں جو انہوں نے آپ کو دے رکھی تھیں۔ نبی ﷺ نے ہماری کچھ کھجوریں حضرت ام ایمن ؓ کو دے رکھی تھیں۔ اس دوران میں وہ بھی تشریف لے آئیں تو انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہا: قطعا نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! جو کھجوریں آپ نے مجھے عطا کی ہیں وہ تمہیں ہرگز واپس نہیں ملیں گی یا اس طرح کے کوئی اور کلمات کہے۔ نبی ﷺ (ان سے یہ) فرماتے تھے: ’’تمہیں ان کے عوض اتنے درخت دے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ کہتیں: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! یہ کھجوریں تمہیں واپس نہیں کروں گی۔ (راوی حدیث معتمر کے والد گرامی سلیمان نے کہا:) میرا خیال ہے حضرت انس ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ نے انہیں دس گنا زیادہ کھجوریں دے کر راضی کیا۔ یا (حضرت انس ؓ نے) اس سے ملتے جلتے الفاظ بیان فرمائے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ہجرت کے بعد انصار مدینہ نے مہاجرین سے مواسات اور ہمدردی کرتے ہوئے اپنے کھجوروں کے باغات سے کچھ درخت وقتی طور پر نفع اٹھانے کے لیے انھیں دے دیے تھے۔ حضرت ام سلیم ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو چند درخت استعمال کے لیے دیے تھے۔ آپ نے ان میں سے کچھ درخت حضرت ام ایمن ؓ کو عطا فرمادیے۔ جب بنوقریظہ اور بنو نضیر کے باغات فتح ہوئے تو مہاجرین ان کے مالک بن گئے، اس لیے انصاری کی طرف سے وقتی طور پر عطا کر دہ درخت انھیں واپس کردیے گئے، لیکن حضرت ام ایمن ؓ نے یہ خیال کیا کہ وہ ان درختوں کی مالک ہیں، اس لیے انھوں نے وہ درخت واپس کرنے سے انکارکردیا۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پرورش کرنے والی اورخدمت گزارتھیں۔ اس لیے حق حضانت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ ان کھجوروں کے عوض تمھیں دس گنا کھجوریں دی جائیں گی تو انھوں نے وہ درخت واپس کردیے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کا نفع ہبہ کرنا جائز ہے اگر چہ اصل چیز مالک اپنے پاس ہی رکھے۔ (فتح ا لباري:513/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ ابی الا سود نے بیان کیا‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری ؓ فرماتے ہیں) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ بطور ہدیہ صحابہ ؓ اپنے باغ میں سے نبی کریم ﷺ کے لیے چند کھجور کے درخت مقرر کردیئے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قبائل فتح ہو گئے (تو آنحضرت ﷺ نے ان ہدایا کو واپس کر دیا) میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس کھجور کو‘ تمام کی تمام یا اس کا کچھ حصہ لینے کے لیے حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ حضور ﷺ نے وہ کھجور ام ایمن ؓ کو دے دی تھی۔ اتنے میں وہ بھی آگئیں اور کپڑا میری گردن میں ڈال کر کہنے لگیں‘ قطعاً نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گے۔ یہ حضور ﷺ مجھے عنایت فرما چکے ہیں۔ یا اسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کئے۔ اس پر حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے اس کے بدلے میں اتنے لے لو۔ (اور ان کا مال انہیں واپس کردو) لیکن وہ اب بھی یہی کہے جارہی تھیںکہ قطعاً نہیں‘ خدا کی قسم! یہاں تک کہ حضور ﷺ نے انہیں‘ میرا خیال ہے کہ انس ؓ نے بیان کیا کہ اس کا دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا (پھر انہوں نے مجھے چھوڑا) یا اسی طرح کے الفاظ انس ؓ نے بیان کئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Some (of the Ansar) used to present date palm trees to the Prophet (ﷺ) till Banu Quraiza and Banu An-Nadir were conquered (then he returned to the people their date palms). My people ordered me to ask the Prophet (ﷺ) to return some or all the date palms they had given to him, but the Prophet (ﷺ) had given those trees to Um Aiman. On that, Um Aiman came and put the garment around my neck and said, "No, by Him except Whom none has the right to be worshipped, he will not return those trees to you as he (i.e. the Prophet) has given them to me." The Prophet (ﷺ) go said (to her), "Return those trees and I will give you so much (instead of them)." But she kept on refusing, saying, "No, by Allah," till he gave her ten times the number of her date palms.