Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of Dhat-ur-Riqa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ جنگ محارب قبیلے سے ہوئی تھی جو خصفہ کی اولاد تھے اور یہ خصفہ بنو ثعلبہ کی اولاد میں سے تھا ۔ جو غطفان قبیلہ کی ایک شاخ ہیں ۔ نبی کریمﷺنے اس غزوہ میں مقام نخل پر پڑاؤ کیا تھا ۔ یہ غزوئہ خیبر کے بعد واقع ہوا کیونکہ ابو موسیٰ اشعری ؓغزوہ خیبر کے بعد حبش سے مدینہ آئے تھے ( اور غزوہ ذات الرقاع میں ان کی شرکت روایتوں سے ثابت ہے )
4131.
حضرت صالح بن خوات ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت سہل ابن ابی حثمہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ صلاۃ خوف میں امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو گا اور مجاہدین کا ایک گروہ امام کے ساتھ کھڑا ہو۔ اس دورن میں مجاہدین کا دوسرا گروہ دشمن کے سامنے صف آراء رہے، ان کے منہ دشمن کی طرف ہوں۔ امام اپنے ساتھ والے گروہ کو پہلے ایک رکعت پڑھائے، پھر وہ کھڑے ہو کر اپنا اپنا رکوع اور دو دو سجدے اسی جگہ کر لیں۔ پھر یہ گروہ دوسرے گروہ کی جگہ چلا جائے اور امام ان کو بھی ایک رکعت پڑھائے، اس طرح امام کی دو رکعتیں پوری ہو جائیں گی اور یہ دوسرا گروہ ایک رکوع اور دو سجدے خود ادا کرے گا۔ (راوی حدیث) مسدد اپنے استاد یحییٰ سے، وہ شعبہ سے اور وہ عبدالرحمٰن بن قاسم سے بواسطہ قاسم، انہوں نے حضرت صالح بن خوات سے روایت کیا اور وہ سہل بن ابی حثمہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے یہ کیفیت آپ ﷺ سے بیان کی ہے۔ محمد بن عبیداللہ نے اپنی سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت صالح بن خوات ؒ نے اس حدیث کو حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ سے بیان کیا ہے، جبکہ پہلی حدیث میں یہ واسطہ مبہم تھا۔ 2۔ واضح رہے کہ حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ عہد رسالت میں کم سن تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ 3۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت سہل ؓ نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ کی بعیت کی تھی اور بدر کے سوا دیگر غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ غزوہ اُحد میں وہ ایک راہنما کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے لیکن علماء کی ایک جماعت نے کہا کہ مذکورہ صفات حضرت سہل کی نہیں بلکہ ان کے باپ کی ہیں۔ روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح بن خوات نے صلاۃ خوف کا یہ طریقہ حضرت سہل سے نہیں بلکہ ان کے باپ سے اخذ کیا تھا۔ (فتح الباري:531/7) لیکن علامہ عینی ؒ نے واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ کی عمر آٹھ برس تھی لیکن انھوں نے آپ کی احادیث یاد کیں اور انھیں مضبوطی سے بیان کیا۔ ابوعمرو کہتے ہیں کہ حضرت سہل مدینہ منورہ کے باشندوں میں شمار ہوتے ہیں اور وہیں ان کی وفات ہوئی ہے۔ (عمدة القاي: 164/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3974
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4131
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4131
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4131
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
یہ جنگ محارب قبیلے سے ہوئی تھی جو خصفہ کی اولاد تھے اور یہ خصفہ بنو ثعلبہ کی اولاد میں سے تھا ۔ جو غطفان قبیلہ کی ایک شاخ ہیں ۔ نبی کریمﷺنے اس غزوہ میں مقام نخل پر پڑاؤ کیا تھا ۔ یہ غزوئہ خیبر کے بعد واقع ہوا کیونکہ ابو موسیٰ اشعری ؓغزوہ خیبر کے بعد حبش سے مدینہ آئے تھے ( اور غزوہ ذات الرقاع میں ان کی شرکت روایتوں سے ثابت ہے )
حدیث ترجمہ:
حضرت صالح بن خوات ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت سہل ابن ابی حثمہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ صلاۃ خوف میں امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو گا اور مجاہدین کا ایک گروہ امام کے ساتھ کھڑا ہو۔ اس دورن میں مجاہدین کا دوسرا گروہ دشمن کے سامنے صف آراء رہے، ان کے منہ دشمن کی طرف ہوں۔ امام اپنے ساتھ والے گروہ کو پہلے ایک رکعت پڑھائے، پھر وہ کھڑے ہو کر اپنا اپنا رکوع اور دو دو سجدے اسی جگہ کر لیں۔ پھر یہ گروہ دوسرے گروہ کی جگہ چلا جائے اور امام ان کو بھی ایک رکعت پڑھائے، اس طرح امام کی دو رکعتیں پوری ہو جائیں گی اور یہ دوسرا گروہ ایک رکوع اور دو سجدے خود ادا کرے گا۔ (راوی حدیث) مسدد اپنے استاد یحییٰ سے، وہ شعبہ سے اور وہ عبدالرحمٰن بن قاسم سے بواسطہ قاسم، انہوں نے حضرت صالح بن خوات سے روایت کیا اور وہ سہل بن ابی حثمہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے یہ کیفیت آپ ﷺ سے بیان کی ہے۔ محمد بن عبیداللہ نے اپنی سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت صالح بن خوات ؒ نے اس حدیث کو حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ سے بیان کیا ہے، جبکہ پہلی حدیث میں یہ واسطہ مبہم تھا۔ 2۔ واضح رہے کہ حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ عہد رسالت میں کم سن تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ 3۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت سہل ؓ نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ کی بعیت کی تھی اور بدر کے سوا دیگر غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ غزوہ اُحد میں وہ ایک راہنما کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے لیکن علماء کی ایک جماعت نے کہا کہ مذکورہ صفات حضرت سہل کی نہیں بلکہ ان کے باپ کی ہیں۔ روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح بن خوات نے صلاۃ خوف کا یہ طریقہ حضرت سہل سے نہیں بلکہ ان کے باپ سے اخذ کیا تھا۔ (فتح الباري:531/7) لیکن علامہ عینی ؒ نے واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ کی عمر آٹھ برس تھی لیکن انھوں نے آپ کی احادیث یاد کیں اور انھیں مضبوطی سے بیان کیا۔ ابوعمرو کہتے ہیں کہ حضرت سہل مدینہ منورہ کے باشندوں میں شمار ہوتے ہیں اور وہیں ان کی وفات ہوئی ہے۔ (عمدة القاي: 164/12)
ترجمۃ الباب:
یہ جنگ محارب قبیلے سے ہوئی تھی جو خصفه کی اولاد تھے اور یہ خصفه کی اولاد سے تھا جو غطفان قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ آپ ﷺنے اس جنگ میں مقام نخل پر قیام کیا تھا۔ یہ غزوہ، غزوہ خیبر کے بعد ہوا کیونکہ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓغزوہ خیبر کے بعد تشریف لائے تھے (اور غزوہ ذات الرقاع میں ان کی شرکت ثابت ہے۔)
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا‘ ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے‘ ان سے قاسم بن محمد نے‘ ان سے صالح بن خوات نے‘ ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ (نماز خوف میں) امام قبلہ رو ہوکر کھڑا ہو گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو گی۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کی دوسری جماعت دشمن کے مقابلہ پر کھڑی ہوگی۔ انہیں کی طرف منہ کئے ہوئے۔ امام اپنے سا تھ والی جماعت کو پہلے ایک رکعت نماز پڑھائے گا (ایک رکعت پڑھنے کے بعد پھر) یہ جماعت کھڑی ہوجائے گی اور خود (امام کے بغیر) اسی جگہ ایک رکوع اوردو سجدے کر کے دشمن کے مقابلہ پر جا کر کھڑی ہو جائے گی۔ جہاں دوسری جماعت پہلے سے موجود تھی۔ اس کے بعد امام دوسری جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائے گا۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں پوری ہوجا ئیں گی اور یہ دوسری جماعت ایک رکوع اور دو سجدے خود کرے گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Abi Hathma (RA): (describing the Fear prayer): The Imam stands up facing the Qibla and one batch of them (i.e. the army) (out of the two) prays along with him and the other batch faces the enemy. The Imam offers one Rak'a with the first batch they themselves stand up alone and offer one bowing and two prostrations while they are still in their place, and then go away to relieve the second batch, and the second batch comes (and takes the place of the first batch in the prayer behind the Imam) and he offers the second Rak'a with them. So he completes his two-Rak'at and then the second batch bows and prostrates two prostrations (i.e. complete their second Rak'a and thus all complete their prayer)