Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The narration of Al-Ifk)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
4143.
حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین عائشہ ؓ کی والدہ حضرت ام رومان ؓ نے خبر دی کہ ایک دفعہ میں اور عائشہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی کہ اللہ فلاں کو ایسا ایسا کرے۔ ام رومان نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے جنہوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ ام رومان ؓ نے پوچھا: وہ کیا باتیں ہیں؟ تو انہوں نے واقعہ بہتان ذکر کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا: کیا حضرت ابوبکر ؓ نے بھی سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ یہ سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ جب انہین ہوش آیا تو انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’اس کو کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’شاید ان باتوں کے باعث جو بیان کی جاتی ہیں؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ س کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ بیٹھیں اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! اگر میں قسم اٹھاؤں تو تم میری تصدیق نہیں کرو گے اور اگر کچھ کہوں تو تم میرا عذر نہیں سنو گے۔ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ انہوں نے کہا تھا: ’’ان باتوں پر اللہ کی مدد درکر ہے جو تم بناتے ہو۔‘‘ حضرت ام رومان ؓ نے کہا: آپ ﷺ یہ سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے خود ان کی تلافی کر دی تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں نہ تمہارا اور نہ کسی اور کا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بقول واقدی حضرت ام رومان ؓ کا انتقال چار یا پانچ ہجری میں ہو چکا تھا اور حضرت مسروق صحابی نہیں ہیں کیونکہ وہ یمن سے آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ یا حضرت عمر ؓ کےکے دور خلافت میں آئے لہٰذا اس روایت میں انقطاع ہے۔ لیکن واقدی کا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ احادیث میں اس کی تردید موجود ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت تخبیر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرتا ہوں اپنے والدین حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔‘‘ (مسند أحمد:212/5) اور آیت تخبیرنو ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ہجری تک حضرت اُم رومان ؓ کا زندہ رہنا احادیث سے ثابت ہے نیز صحیح بخاری کی روایت بھی قول واقدی کے معارض ہے۔ 2۔ ابراہیم حربی نے یقین سے کہا ہے کہ مسروق کا سماع اُم رومان ؓ سے ثابت ہے اور وہ سماع کے وقت پندرہ برس کے تھے، اس کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی نے کہا: اُم رومان ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زندہ ہیں لہٰذا مذکورہ روایت متصل اور صحیح ہے۔ (فتح الباري:546/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3984
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4143
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4143
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4143
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین عائشہ ؓ کی والدہ حضرت ام رومان ؓ نے خبر دی کہ ایک دفعہ میں اور عائشہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی کہ اللہ فلاں کو ایسا ایسا کرے۔ ام رومان نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے جنہوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ ام رومان ؓ نے پوچھا: وہ کیا باتیں ہیں؟ تو انہوں نے واقعہ بہتان ذکر کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا: کیا حضرت ابوبکر ؓ نے بھی سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ یہ سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ جب انہین ہوش آیا تو انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’اس کو کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’شاید ان باتوں کے باعث جو بیان کی جاتی ہیں؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ س کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ بیٹھیں اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! اگر میں قسم اٹھاؤں تو تم میری تصدیق نہیں کرو گے اور اگر کچھ کہوں تو تم میرا عذر نہیں سنو گے۔ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ انہوں نے کہا تھا: ’’ان باتوں پر اللہ کی مدد درکر ہے جو تم بناتے ہو۔‘‘ حضرت ام رومان ؓ نے کہا: آپ ﷺ یہ سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے خود ان کی تلافی کر دی تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں نہ تمہارا اور نہ کسی اور کا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بقول واقدی حضرت ام رومان ؓ کا انتقال چار یا پانچ ہجری میں ہو چکا تھا اور حضرت مسروق صحابی نہیں ہیں کیونکہ وہ یمن سے آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ یا حضرت عمر ؓ کےکے دور خلافت میں آئے لہٰذا اس روایت میں انقطاع ہے۔ لیکن واقدی کا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ احادیث میں اس کی تردید موجود ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت تخبیر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرتا ہوں اپنے والدین حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔‘‘ (مسند أحمد:212/5) اور آیت تخبیرنو ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ہجری تک حضرت اُم رومان ؓ کا زندہ رہنا احادیث سے ثابت ہے نیز صحیح بخاری کی روایت بھی قول واقدی کے معارض ہے۔ 2۔ ابراہیم حربی نے یقین سے کہا ہے کہ مسروق کا سماع اُم رومان ؓ سے ثابت ہے اور وہ سماع کے وقت پندرہ برس کے تھے، اس کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی نے کہا: اُم رومان ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زندہ ہیں لہٰذا مذکورہ روایت متصل اور صحیح ہے۔ (فتح الباري:546/7)
ترجمۃ الباب:
لفظ افک نِجس اور نَجَس کی طرح ہے، یعنی عین کلمہ ساکن اور مفتوح دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اور أفكهم کو ہمزہ کے کسرہ اور فتحہ سے پڑھا گیاا ہے۔ جس نے اسے ماضی کے صیغے سے پڑھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے: اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا قرار دیا جیسا کہ دوسری جگہ پر ہے: "اس (قرآن یا ایمان یا قیامت) سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہوتا ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا‘ ان سے حصین بن عبد الرحمن نے‘ ان سے ابو وائل شقیق بن سلمہ نے بیان کیا‘ ان سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے ام رومان ؓ نے بیان کیا‘ وہ عائشہ ؓ کی والدہ ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ فلاں فلاں کو تباہ کرے۔ ام رومان نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے‘ جنہوں نے اس طرح کی بات کی ہے۔ ام رومان ؓ نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ اس پر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں نقل کردیں۔ عائشہ ؓ نے پوچھا‘ کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنیں ہیں؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں ۔ انہوں نے پوچھا اور ابوبکر ؓ نے بھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں‘ انہوں نے بھی۔ یہ سنتے ہی وہ غش کھا کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر ان کے کپڑے ڈال دیئے اور اچھی طرح ڈھک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ ! جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا‘ غالبااس نے اس طوفان کی بات سن لی ہے۔ ام رومان ؓ نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر عائشہ ؓ نے بیٹھ کر کہا کہ خدا کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں کہ میں بے گناہ ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر کچھ کہوں تب بھی میرا عذر نہیں سنیں گے۔ میری اور آپ لوگوں کی یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی کہا وت ہے کہ انہوں نے کہا تھا ﴿وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ ﴾ یعنی اللہ ان باتوں پر جو تم بناتے ہو‘ مدد کرنے والا ہے۔ ام رومان ؓ نے کہا‘ آنحضرت ﷺ عائشہ ؓ کی یہ تقریر سن کر لوٹ گئے‘ کچھ جواب نہیں دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تلافی نازل کی۔ وہ آنحضرت ﷺ سے کہنے لگیں بس میں اللہ ہی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ آپ کا نہ کسی اور کا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Masruq bin Al-Aida (RA): Um Ruman, the mother of 'Aisha (RA) said that while 'Aisha (RA) and she were sitting, an Ansari woman came and said, "May Allah harm such and-such a person!" Um Ruman said to her, What is the matter?" She replied, "My son was amongst those who talked of the story (of the Slander)." Um Ruman said, "What is that?" She said, "So-and-so...." and narrated the whole story. On that 'Aisha (RA) said, "Did Allah's Apostle (ﷺ) hear about that?" She replies, "yes." 'Aisha (RA) further said, "And Abu Bakr (RA) too?" She replied, "Yes." On that, 'Aisha (RA) fell down fainting, and when she came to her senses, she had got fever with rigors. I put her clothes over her and covered her. The Prophet (ﷺ) came and asked, "What is wrong with this (lady)?" Um Ruman replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! She (i.e. 'Aisha (RA)) has got temperature with rigors." He said, "Perhaps it is because of the story that has been talked about?" She said, "Yes." 'Aisha (RA) sat up and said, "By Allah, if I took an oath (that I am innocent), you would not believe me, and if I said (that I am not innocent), you would not excuse me. My and your example is like that of Jacob and his sons (as Jacob said ): 'It is Allah (Alone) Whose Help can be sought against that you assert.' Um Ruman said, "The Prophet (ﷺ) then went out saying nothing. Then Allah declared her innocence. On that, 'Aisha (RA) said (to the Prophet), "I thank Allah only; thank neither anybody else nor you."