Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The narration of Al-Ifk)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
4145.
حضرت عروہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ کو برا بھلا کہنے لگا تو انہوں نے فرمایا: ان کو بر بھلا نہ کہو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دفع کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: حضرت حسان بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی مذمت کرنے کے متعلق اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے نسب کا کیا کرو گے؟‘‘ انہوں نے عرض کی: میں آپ کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسا کہ گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ دوسری سند کے ساتھ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسان بن ثابت ؓ کو برا بھلا کہا کیونکہ وہ واقعہ افک میں حضرت عائشہ کے متعلق بہت کچھ کہا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت حسن بن ثابت ؓ رسول اللہ ﷺ کے ثناء خواہ اور مداح تھے اور آپ سے والہانہ محبت بھی کرتے تھے اس کے باوجود انھوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگانے والوں میں شرکت کی جس کی انھیں عمر بھر ندامت رہی لیکن حد قذف کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ کا کفارہ بنا دیا۔ 2۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کی موجودگی میں حضرت حسان ؓ کو سخت الفاظ میں یاد کیا جائے۔ آپ فرماتی تھیں۔ حضرت حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کے مداح تھے اور کفارکی ہجو کا جواب دیتے تھے۔ بہرحال ان حضرات کا دشمنان دین کی باتوں سے اتفاق کرنا کسی بھی صورت میں صحیح نہ تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3986
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4145
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4145
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4145
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عروہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ کو برا بھلا کہنے لگا تو انہوں نے فرمایا: ان کو بر بھلا نہ کہو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دفع کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: حضرت حسان بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی مذمت کرنے کے متعلق اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے نسب کا کیا کرو گے؟‘‘ انہوں نے عرض کی: میں آپ کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسا کہ گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ دوسری سند کے ساتھ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسان بن ثابت ؓ کو برا بھلا کہا کیونکہ وہ واقعہ افک میں حضرت عائشہ کے متعلق بہت کچھ کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت حسن بن ثابت ؓ رسول اللہ ﷺ کے ثناء خواہ اور مداح تھے اور آپ سے والہانہ محبت بھی کرتے تھے اس کے باوجود انھوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگانے والوں میں شرکت کی جس کی انھیں عمر بھر ندامت رہی لیکن حد قذف کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ کا کفارہ بنا دیا۔ 2۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کی موجودگی میں حضرت حسان ؓ کو سخت الفاظ میں یاد کیا جائے۔ آپ فرماتی تھیں۔ حضرت حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کے مداح تھے اور کفارکی ہجو کا جواب دیتے تھے۔ بہرحال ان حضرات کا دشمنان دین کی باتوں سے اتفاق کرنا کسی بھی صورت میں صحیح نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
لفظ افک نِجس اور نَجَس کی طرح ہے، یعنی عین کلمہ ساکن اور مفتوح دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اور أفكهم کو ہمزہ کے کسرہ اور فتحہ سے پڑھا گیاا ہے۔ جس نے اسے ماضی کے صیغے سے پڑھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے: اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا قرار دیا جیسا کہ دوسری جگہ پر ہے: "اس (قرآن یا ایمان یا قیامت) سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہوتا ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عائشہ ؓ کے سامنے حسان بن ثابت ؓ کو برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ انہیں برا نہ کہو‘ کیو نکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کفار کو جواب دیتے تھے اور حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے مشرکین قریش کی ہجو کہنے کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ پھر میرے نسب کا کیا ہوگا؟ حسان ؓ نے کہا کہ میں آپ کو ان سے اس طرح الگ کرلوں گا، جیسے بال گندھے ہوئے آٹے سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ اور محمد بن عقبہ (امام بخاری کے شیخ) نے بیان کیا‘ ہم سے عثمان بن فرقد نے بیان کیا‘ کہا میں نے ہشام سے سنا‘ انہوں نے اپنے والد سے‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حسان بن ثابت ؓ کو برا بھلا کہا کیونکہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگانے میں بہت حصہ لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hisham's father (RA): I started abusing Hassan in front of 'Aisha (RA). She said, "Do not abuse him as he used to defend Allah's Apostle (ﷺ) (against the infidels). 'Aisha (RA) added, "Once Hassan took the permission from the Prophet (ﷺ) to say poetic verses against the infidels. On that the Prophet (ﷺ) said, 'How will you exclude my forefathers (from that)? Hassan replied, 'I will take you out of them as one takes a hair out of the dough." Hisham's father added, "I abused Hassan as he was one of those who spoke against 'Aisha (RA)."