Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The narration of Al-Ifk)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
4146.
حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ’’ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ نے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔مذکورہ آیت کریمہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4749) اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ نے بطور فرض وتسلیم حسان بن ثابت ؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ انھیں دنیا میں سزادے دی ہے شاید دوسری مرتبہ ان کو سزا نہ دی جائے۔ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسان ؓ کی شان میں کسی بُرے کلمے کو گوارا نہیں کرتی تھی۔ ان سے تہمت لگانے میں غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن انھوں نے توبہ کرلی اور اس کی سزا قبول کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ کا دل ان کی طرف سے صاف ہوگیا تھا لیکن جب کبھی اس طرح کا ذکر آجاتا تو دل کا رنجیدہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، اس بنا پر روایت میں ایک دوچبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر کا نتیجہ ہیں۔ 2۔بہرحال حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک بطور تنصیص آیت کا مصداق عبداللہ بن ابی منافق ہے اور اس حدیث میں بطور فرض وتسلیم ہے تاکہ تنصیص کی خلاف ورزی نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3987
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4146
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4146
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4146
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
لفظ الإفك نجس اور النجس کی طرح ہے۔ بولتے ہیں إفكهم (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ وذلك إفكهم وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔اس باب میں جھوٹے الزام کا تفصیلی ذکر ہے جو منافقین نے حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کے اوپر لگایا تھا جس کی برأت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تفصیل کے ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ’’ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ نے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔مذکورہ آیت کریمہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4749) اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ نے بطور فرض وتسلیم حسان بن ثابت ؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ انھیں دنیا میں سزادے دی ہے شاید دوسری مرتبہ ان کو سزا نہ دی جائے۔ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسان ؓ کی شان میں کسی بُرے کلمے کو گوارا نہیں کرتی تھی۔ ان سے تہمت لگانے میں غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن انھوں نے توبہ کرلی اور اس کی سزا قبول کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ کا دل ان کی طرف سے صاف ہوگیا تھا لیکن جب کبھی اس طرح کا ذکر آجاتا تو دل کا رنجیدہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، اس بنا پر روایت میں ایک دوچبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر کا نتیجہ ہیں۔ 2۔بہرحال حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک بطور تنصیص آیت کا مصداق عبداللہ بن ابی منافق ہے اور اس حدیث میں بطور فرض وتسلیم ہے تاکہ تنصیص کی خلاف ورزی نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
لفظ افک نِجس اور نَجَس کی طرح ہے، یعنی عین کلمہ ساکن اور مفتوح دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اور أفكهم کو ہمزہ کے کسرہ اور فتحہ سے پڑھا گیاا ہے۔ جس نے اسے ماضی کے صیغے سے پڑھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے: اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا قرار دیا جیسا کہ دوسری جگہ پر ہے: "اس (قرآن یا ایمان یا قیامت) سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہوتا ہے۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا‘ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی‘ انہیں شعبہ نے‘ انہیں سلیمان نے‘ انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے یہاں حسان بن ثابت ؓ موجود تھے اور ام المومنین ؓ کو اپنا اشعار سنا رہے تھے۔ ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ وہ سنجیدہ اور پاک دامن ہیں جس پر کبھی تہمت نہیں لگائی گئی‘ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر نادان بہنوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ اس پر عائشہ ؓ نے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ ؓ سے عرض کیا‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فر چکا ہے ”اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہوگا۔“ اس پر ام المومنین نے فرمایا کہ نابینا ہوجانے سے سخت عذاب اور کیا ہوگا (حسان ؓ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی) عائشہ ؓ نے ان سے کہا کہ حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ معلوم ہے۔ حضرت عائشہ ؓ حسان ؓ کی شان میں کسی برے کلمہ کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔ حسان ؓ سے تہمت کی غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن جن صحابہ ؓ نے بھی اس میں غلطی سے شرکت کی تھی وہ سب تائب ہو گئے تھے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی۔ اور بہر حال حضرت عائشہ ؓ کا دل غلطی سے شریک ہونے والے صحابہ ؓ کی طرف سے صاف ہو گیا تھا لیکن جب اس طرح کا ذکر آجا تا تو دل کارنجیدہ ہوجانا ایک قدرتی بات تھی۔ یہاں بھی حضرت عائشہ ؓ نے دو ایک چبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر میں حضرت حسان ؓ سے متعلق کہہ دیئے ہیں۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَفِي تَرْجَمَةِ الزُّهْرِيِّ عَنْ حِلْيَةِ أَبِي نُعَيْمٍ من طَرِيق بن عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ كُنْتُ عِنْدَ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُم لَهُ عَذَاب عَظِيم فَقَالَ نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَصْلَحَ اللَّهُ الْأَمِيرَ لَيْسَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ وَكَيْفَ أَخْبَرَكَ قُلْتُ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ بن أبي ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وَكَأَنَّ بَعْضَ مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ مِنَ النَّاصِبَةِ تَقَرَّبَ إِلَى بَنِي أُمَيَّةَ بِهَذِهِ الْكِذْبَةِ فَحَرَّفُوا قَوْلَ عَائِشَةَ إِلَى غَيْرِ وَجْهِهِ لِعِلْمِهِمْ بِانْحِرَافِهِمْ عَنْ عَلِيٍّ فَظَنُّوا صِحَّتَهَا حَتَّى بَيَّنَ الزُّهْرِيُّ لِلْوَلِيدِ أَنَّ الْحَقَّ خِلَافُ ذَلِكَ فَجَزَاهُ اللَّهُ تَعَالَى خَيْرًا وَقَدْ جَاءَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ هِشَامَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ كَانَ يَعْتَقِدُ ذَلِكَ أَيْضًا فَأَخْرَجَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي مُسْنَدِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ حَدثنَا عَمِّي قَالَ دَخَلَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْمَانُ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مَنْ هُوَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ قَالَ كَذَبْتَ هُوَ عَلِيٌّ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَدخل الزُّهْرِيّ فَقَالَ يَا بن شهَاب من الَّذِي تولى كبره قَالَ بن أُبَيٍّ فَقَالَ أَنَا أكذب لَا أبالك وَاللَّهِ لَوْ نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ اللَّهَ أَحَلَّ الْكَذِبَ مَا كَذَبْتُ قال الکرمانی واعلم أن براءة عائشة قطعیة بنص القرآن ولو شك فیھا أحد صار کافرا انتھی وزاد في خیر الجاري وهو مذهب ٓ رحمه اللہ الشیعة الإمامیة مع بغضھم بھا انتھی۔(فتح الباری) (خلاصہ یہ ہے کہ آیت ﴿والَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ﴾ سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے حضرت علی ؓ مراد نہیں ہیں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Masruq (RA): We went to 'Aisha (RA) while Hassan bin Thabit was with her reciting poetry to her from some of his poetic verses, saying "A chaste wise lady about whom nobody can have suspicion. She gets up with an empty stomach because she never eats the flesh of indiscreet (ladies)." 'Aisha (RA) said to him, "But you are not like that." I said to her, "Why do you grant him admittance, though Allah said:-- "and as for him among them, who had the greater share therein, his will be a severe torment." (24.11) On that, 'Aisha (RA) said, "And what punishment is more than blinding?" She, added, "Hassan used to defend or say poetry on behalf of Allah's Apostle (ﷺ) (against the infidels)."