Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4207.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تو جہنمی ہے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اس طرح اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا پیچھا کرنے والا شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے تمام واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’بےشک ایک آدمی لوگوں کے سامنے اہل جنت کے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص لوگوں کی نظروں میں اہل جہنم کے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا۔ انصار کے ایک چھوٹے قبیلے بنوظفر کی طرف منسوب ہے۔ اس کی کنیت ابوغیداق تھی۔ (شَاذَّه) اس بکری کو کہتے ہیں جو ریوڑ سے الگ ہوکر چرے اور (فَاذَّه) وہ بکری جو ابتدا ہی سے دوسری بکریوں سے الگ تھلگ رہے۔ (فتح الباري:589/7) 2۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشرکین کے کسی آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا، جسے دیکھتا اسے اپنی تلوار کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔ وہ شخص مناق تھا اور اس نے اپنے نفاق کو چھپارکھاتھا، اس لیے یہ حدیث ا پنے ظاہری مفہوم میں واضح ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تلوار سے کام تمام کیا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تیر سے خود کشی کی تھی، ان روایات میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے اس نے تیر سے خود کو زخمی کیا، لیکن ا س سے مقصد حاصل نہ ہوتوتلوار سے اپنا کام تمام کردیا۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4044
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4207
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4207
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4207
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تو جہنمی ہے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اس طرح اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا پیچھا کرنے والا شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے تمام واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’بےشک ایک آدمی لوگوں کے سامنے اہل جنت کے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص لوگوں کی نظروں میں اہل جہنم کے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا۔ انصار کے ایک چھوٹے قبیلے بنوظفر کی طرف منسوب ہے۔ اس کی کنیت ابوغیداق تھی۔ (شَاذَّه) اس بکری کو کہتے ہیں جو ریوڑ سے الگ ہوکر چرے اور (فَاذَّه) وہ بکری جو ابتدا ہی سے دوسری بکریوں سے الگ تھلگ رہے۔ (فتح الباري:589/7) 2۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشرکین کے کسی آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا، جسے دیکھتا اسے اپنی تلوار کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔ وہ شخص مناق تھا اور اس نے اپنے نفاق کو چھپارکھاتھا، اس لیے یہ حدیث ا پنے ظاہری مفہوم میں واضح ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تلوار سے کام تمام کیا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تیر سے خود کشی کی تھی، ان روایات میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے اس نے تیر سے خود کو زخمی کیا، لیکن ا س سے مقصد حاصل نہ ہوتوتلوار سے اپنا کام تمام کردیا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابن ابی حازم نے‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم ﷺ اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخردونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ ؓ نے کہا‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہوسکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کرکے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خود کشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اسی لیے تو فرمایا کہ اصل اعتبار خاتمہ کا ہے۔ جنتی لوگوں کا خاتمہ جنت کے اعمال پر اور دوزخیوں کا خاتمہ دوزخ کے اعمال پر ہوتا ہے۔ خود کشی کرنا شریعت میں سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ حرام موت مرنا ہے۔ روایت میں جنگ خیبر کا ذکر ہے۔ یہی روایت اور باب میں مطابقت ہے۔ یہ نوٹ آج شعبان سنہ1392 ھ کو مسجد اہلحدیث ہندو پور میں لکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالی اس مسجد کو قائم و دائم رکھے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA) : During one of his Ghazawat, the Prophet (ﷺ) encountered the pagans, and the two armies fought, and then each of them returned to their army camps. Amongst the (army of the) Muslims there was a man who would follow every pagan separated from the army and strike him with his sword. It was said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! None has fought so satisfactorily as so-and-so (namely, that brave Muslim). "The Prophet (ﷺ) said, "He is from the dwellers of the Hell-Fire." The people said, "Who amongst us will be of the dwellers of Paradise if this (man) is from the dwellers of the Hell-Fire?" Then a man from amongst the people said, "I will follow him and accompany him in his fast and slow movements." The (brave) man got wounded, and wanting to die at once, he put the handle of his sword on the ground and its tip in between his breasts, and then threw himself over it, committing suicide. Then the man (who had watched the deceased) returned to the Prophet (ﷺ) and said, "I testify that you are Apostle of Allah (ﷺ) ." The Prophet (ﷺ) said, "What is this?" The man told him the whole story. The Prophet (ﷺ) said, "A man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise, but he is of the dwellers of the Hell-Fire and a man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."