Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Khaibar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4240.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔‘‘ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات ترک کر دی۔ پھر فوت ہونے تک ان سے بات چیت نہیں کی۔ اور وہ نبی ﷺ کے بعد صرف چھ ماہ بقید حیات رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی ؓ نے راتوں رات انہیں دفن کر دیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو خبر تک نہ کی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ سیدہ فاطمہ ؓ کی حیات طیبہ میں تو حضرت علی ؓ کی وجاہت لوگوں میں رہی، جب سیدہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت علی ؓ نے لوگوں کی توجہ کو بدلا ہوا پایا، چنانچہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے مصالحت اور ان سے بیعت کا پروگرام بنایا کیونکہ چھ ماہ تک انہوں نے آپ کی بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی اور شخص نہ آئے۔ وہ حضرت عمر ؓ کی حاضری کو نامناسب خیال کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! آپ اکیلے ان کے پاس نہ جائیں، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: مجھے ان سے امید نہیں کہ میرے ساتھ کوئی بدسلوکی کریں گے، اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ضرور جاؤں گا، چنانچہ آپ ان حضرات کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت علی ؓ نے پہلے خطبہ پڑھا اور کہا: اے ابوبکر! ہم تمہاری بزرگی کو جانتے ہیں اور وہ فضائل جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائے ہیں ہمیں ان کا بھی اعتراف ہے اور اللہ تعالٰی نے جو خیروبرکت آپ کو دی ہے ہمیں قطعا اس پر کوئی حسد نہیں لیکن یہ شکوہ ضرور ہے کہ آپ خلافت کے معاملے میں منفرد رہے اور اس سلسلے میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ ہم لوگ بھی رسول اللہ ﷺ سے قرابت کی وجہ سے مشاورت کا حق تو رکھتے تھے۔ باتیں سنتے سنتے حضرت ابوبکر ؓ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ گویا ہوئے تو فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ عزیز ہے کہ میں اس کا لحاظ کروں اور جو میرے اور تمہارے درمیان ان متروکہ اموال کے متعلق اختلاف واقع ہوا ہے تو میں نے ان میں خیرخواہی کرنے سے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور میں نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا: آج زوال کے بعد آپ سے بیعت کا وعدہ ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے جب نماز ظہر ادا کی تو منبر پر تشریف لائے، خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت علی ؓ کی شان اور ان کا مرتبہ اور مقام بیان کیا، پھر بیعت میں دیر اور اس معذرت کو ذکر کیا جو انہوں نے کی تھی۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے استغفار اور خطبہ پڑھا۔ پھر ابوبکر ؓ کی عظمت شان کو بیان کیا اور بتایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث حضرت ابوبکر ؓ پر حسد کرنا نہیں اور نہ ان کے فضائل سے انکار ہی مقصود تھا جن کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے انہیں برتری عطا فرمائی ہے۔ لیکن ہم خلافت کے معاملے میں مشورے کی حد تک اپنا کچھ نہ کچھ حق ضرور سمجھتے تھے جس کے متعلق خود مختاری کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے ہمیں دلی رنج پہنچا۔ حضرت علی ؓ ان کے اس بیان پر تمام مسلمان خوش ہوئے اور کہنے لگے: اے علی! تم نے درست کہا ہے۔ اور جب حضرت علی ؓ نے امرِ معروف کی طرف رجوع کر لیا تو تمام مسلمان ان کے بہت قریب ہو گئے۔
تشریح:
1۔مال فے سے مراد وہ مال ہے جو جنگ وقتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ مدینہ طیبہ میں یہ وہ اموال تھے جو بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ملے تھے، اسی طرح فدک کی زمین بھی آپ کو بطور فے ہی ملی تھی، کچھ خیبر کی زمینیں بھی اسی طرح آپ کے ہاتھ آئی تھیں۔ 2۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو غزوہ خیبر کے عنوان کے تحت اس لیے بیان کیا ہے کہ ان مفتوحہ زمینوں کی حیثیت کھول دیں۔ آپ خیبر کی زمین کو اہل خیبر اور مصالحہ عامہ پرخرچ کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے تمام متروکات صدقہ بن گیا، ان پر مالکانہ حقوق قائم کرنا درست نہ تھا جیسا کہ آپ کاارشاد گرامی ہے:’’ہماراکوئی وارث نہیں ہماراترکہ صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث:7305۔) ان متروکات سے رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور جو بچ رہتا اسے مصالح عامہ میں صرف کردیاجاتا۔ 3۔صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبے سے فارغ ہوکر اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی، اس طرح حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت پر تمام صحابہ کرام ؓ کااجماع ہوگیا۔(صحیح مسلم، فضائل الجھاد، حدیث:4581(1759)) اب جو ان کی خلافت کو صحیح خیال نہ کرے وہ تمام صحابہ کرام اور ان کے اجماعی فیصلے کا مخالف ہے۔ اور درج ذیل آیت کی وعید شدید میں داخل ہے:’’جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے ،ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر وہ جانا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بُرا مقام ہے۔‘‘(النساء:115:4۔) اس روایت کی بنا پر روافض نے حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق بڑے غیض وغضب کا اظہار کیا ہے ہم کسی مناسب موقع پر اس کا جواب دیں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4073
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4240
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4240
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4240
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
خیبر ایک بہت بڑا شہر ہے جو عمالقہ قوم خیبر نامی شخص کی یہاں اقامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس میں بہت سے قلعے ہیں۔ یہ زرعی علاقہ اور زرخیز خطہ مدینہ طیبہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے 184کلو میٹر پر واقع ہے۔ اس مقام پر یہودی آباد تھے۔ آئے دن وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ خیبر سے متعلقہ احادیث اس عنوان کے تحت بیان کی ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔‘‘ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات ترک کر دی۔ پھر فوت ہونے تک ان سے بات چیت نہیں کی۔ اور وہ نبی ﷺ کے بعد صرف چھ ماہ بقید حیات رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی ؓ نے راتوں رات انہیں دفن کر دیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو خبر تک نہ کی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ سیدہ فاطمہ ؓ کی حیات طیبہ میں تو حضرت علی ؓ کی وجاہت لوگوں میں رہی، جب سیدہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت علی ؓ نے لوگوں کی توجہ کو بدلا ہوا پایا، چنانچہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے مصالحت اور ان سے بیعت کا پروگرام بنایا کیونکہ چھ ماہ تک انہوں نے آپ کی بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کو پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی اور شخص نہ آئے۔ وہ حضرت عمر ؓ کی حاضری کو نامناسب خیال کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! آپ اکیلے ان کے پاس نہ جائیں، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: مجھے ان سے امید نہیں کہ میرے ساتھ کوئی بدسلوکی کریں گے، اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ضرور جاؤں گا، چنانچہ آپ ان حضرات کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت علی ؓ نے پہلے خطبہ پڑھا اور کہا: اے ابوبکر! ہم تمہاری بزرگی کو جانتے ہیں اور وہ فضائل جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائے ہیں ہمیں ان کا بھی اعتراف ہے اور اللہ تعالٰی نے جو خیروبرکت آپ کو دی ہے ہمیں قطعا اس پر کوئی حسد نہیں لیکن یہ شکوہ ضرور ہے کہ آپ خلافت کے معاملے میں منفرد رہے اور اس سلسلے میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ ہم لوگ بھی رسول اللہ ﷺ سے قرابت کی وجہ سے مشاورت کا حق تو رکھتے تھے۔ باتیں سنتے سنتے حضرت ابوبکر ؓ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ گویا ہوئے تو فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ عزیز ہے کہ میں اس کا لحاظ کروں اور جو میرے اور تمہارے درمیان ان متروکہ اموال کے متعلق اختلاف واقع ہوا ہے تو میں نے ان میں خیرخواہی کرنے سے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور میں نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا: آج زوال کے بعد آپ سے بیعت کا وعدہ ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے جب نماز ظہر ادا کی تو منبر پر تشریف لائے، خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت علی ؓ کی شان اور ان کا مرتبہ اور مقام بیان کیا، پھر بیعت میں دیر اور اس معذرت کو ذکر کیا جو انہوں نے کی تھی۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے استغفار اور خطبہ پڑھا۔ پھر ابوبکر ؓ کی عظمت شان کو بیان کیا اور بتایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث حضرت ابوبکر ؓ پر حسد کرنا نہیں اور نہ ان کے فضائل سے انکار ہی مقصود تھا جن کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے انہیں برتری عطا فرمائی ہے۔ لیکن ہم خلافت کے معاملے میں مشورے کی حد تک اپنا کچھ نہ کچھ حق ضرور سمجھتے تھے جس کے متعلق خود مختاری کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے ہمیں دلی رنج پہنچا۔ حضرت علی ؓ ان کے اس بیان پر تمام مسلمان خوش ہوئے اور کہنے لگے: اے علی! تم نے درست کہا ہے۔ اور جب حضرت علی ؓ نے امرِ معروف کی طرف رجوع کر لیا تو تمام مسلمان ان کے بہت قریب ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔مال فے سے مراد وہ مال ہے جو جنگ وقتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ مدینہ طیبہ میں یہ وہ اموال تھے جو بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ملے تھے، اسی طرح فدک کی زمین بھی آپ کو بطور فے ہی ملی تھی، کچھ خیبر کی زمینیں بھی اسی طرح آپ کے ہاتھ آئی تھیں۔ 2۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو غزوہ خیبر کے عنوان کے تحت اس لیے بیان کیا ہے کہ ان مفتوحہ زمینوں کی حیثیت کھول دیں۔ آپ خیبر کی زمین کو اہل خیبر اور مصالحہ عامہ پرخرچ کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے تمام متروکات صدقہ بن گیا، ان پر مالکانہ حقوق قائم کرنا درست نہ تھا جیسا کہ آپ کاارشاد گرامی ہے:’’ہماراکوئی وارث نہیں ہماراترکہ صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث:7305۔) ان متروکات سے رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور جو بچ رہتا اسے مصالح عامہ میں صرف کردیاجاتا۔ 3۔صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبے سے فارغ ہوکر اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی، اس طرح حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت پر تمام صحابہ کرام ؓ کااجماع ہوگیا۔(صحیح مسلم، فضائل الجھاد، حدیث:4581(1759)) اب جو ان کی خلافت کو صحیح خیال نہ کرے وہ تمام صحابہ کرام اور ان کے اجماعی فیصلے کا مخالف ہے۔ اور درج ذیل آیت کی وعید شدید میں داخل ہے:’’جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے ،ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر وہ جانا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بُرا مقام ہے۔‘‘(النساء:115:4۔) اس روایت کی بنا پر روافض نے حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق بڑے غیض وغضب کا اظہار کیا ہے ہم کسی مناسب موقع پر اس کا جواب دیں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عروہ نے‘ ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ نے ابوبکر صدیق ؓ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور ﷺ کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالی نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر ؓ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا‘ ہم جو کچھ چھوڑجائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے‘ البتہ آل محمد ﷺ اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم ﷺ چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروںگا ‘ جس حال میں وہ آنحضور ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا ۔ غرض ابو بکر نے فاطمہ ؓ کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر ؓ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ ؓ آنحضور ﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی ؓ نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابو بکر ؓ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ ؓ جب تک زندہ رہیں علی ؓ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابو بکر ؓ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر ؓ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر ؓ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر ؓ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر ؓ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو خدا کی قسم ضرور ان کی پاس جاؤںگا۔ آخر آپ علی ؓ کے یہاں گئے۔ علی ؓ نے خدا کو گواہ کیا‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل وکمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر وامتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھاہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابو بکر ؓ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہو گئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے حضور اکرم ﷺ کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی ؓ نے اس کے بعد ابوبکر ؓ سے کہا کہ دو پہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکرؓ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی ؓ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی ؓ نے پیش کیا تھا پھر علی ؓ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر ؓ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر ؓ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل وکمال کا انکار مقصود تھاجو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی ؓ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی ؓ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کرلی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبہ کے بعد اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ ان کے بیعت کرتے ہی سب بنو ہاشم نے بیعت کر لی اور ابو بکر کی خلافت پر تمام صحابہ ؓ کا اجتماع ہو گیا۔ اب جو ان کی خلافت کو صحیح نہ سمجھے وہ تمام صحابہ کا مخالف ہے اور وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہے۔ ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾(نساء:115) ابن حبان نے ابو سعید سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ پر شروع ہی میں بیعت کرلی تھی۔ بیہقی نے اسی روایت کو صحیح کہا ہے تو اب مکرر بیعت تاکید کے لیے ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Fatima the daughter of the Prophet (ﷺ) sent someone to Abu Bakr (RA) (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle (ﷺ) had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle (ﷺ) and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle (ﷺ) used to do." So Abu Bakr (RA) refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr (RA) and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr (RA) and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr (RA) and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr (RA) saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr (RA) said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr (RA) entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle (ﷺ) ." Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr (RA) spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle (ﷺ) is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle (ﷺ) following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr (RA) had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr (RA) or as a protest of that Allah had favored him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).