باب: کیا دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Is it permissible to dig the graves of pagans of the period of Ignorance, and to use that place as a mosque?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انس بن مالک ؓ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
427.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھم نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ (جب) انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کی عدت تھی کہ ان میں اگر کوئی نیک آدمی مرتا تو اس کی قبر پر مسجد اور تصویریں بنا دیتے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا دعویٰ ہے کہ مشرکین کے قبرستان میں قبریں ختم کرکے مسجد تعمیر کرنادرست ہے اور جو دلیل ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ قبرستان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں، اس لیے امام بخاری کے دعویٰ اوردلیل میں تقریب تام نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہودونصاریٰ کے حق میں وعید اور لعنت جس طرح ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے انھیں سجدہ گاہ بنالیا اور نتیجتاً و ہ انبیاء علیہم السلام کو معبود سمجھنے لگے، اسی طرح یہ وعید ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان قبروں کی جگہ اس طرح مسجد تعمیر کریں کہ ان کے جسد اطہر کو قبر سے نکال دیں اور ہڈیاں پھینک دیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ دونوں باتیں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین ہی کے ساتھ خاص ہیں، جہاں تک کفار کا تعلق ہے تو ان میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، اس لیے اگرکفار کی قبروں سے ہڈیاں نکال کر پھینک دی جائیں اور ان کی جگہ مسجد تعمیر کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کی تعظیم تو مقصود نہیں اور ان کی اہانت میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:679/1) 2۔ یہود ونصاریٰ پر لعنت کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھتے ہوئے انھیں مساجد بنالیا تھا۔ جب انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھے ہوئے وہاں مسجد بنانا باعث لعنت ہے، توقبور مشرکین کو باقی رکھتے ہوئے وہاں مسجد تعمیر کرنابدرجہ اولیٰ موجب لعنت ہوگا۔ اس طرح امام بخاری ؒ کے دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ظاہر ہوگئی۔ ہاں! یہ ضروری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو کھودنا سخت حرام اور ان کی توہین کاباعث ہے۔ اس لیے ان کی قبروں کی جگہ پر مسجد تعمیرکرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ اس کے برعکس مشرکین کی قبروں کا کوئی احترام نہیں، اس لیےان کی جگہ پرمساجد تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اکھاڑ کر ہڈیاں الگ کردی جائیں۔ اور جب زمین ان کے ناپاک جسم سے پاک ہوجائے تو وہاں مسجد بنا لی جائے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ بزرگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا یہودونصاریٰ کی علامت ہے۔ جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قراردیا ہے اور آپ نے یہ باتیں مرض وفات میں ارشادفرمائیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کی قبر مبارک کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ کو جزاے خیر دے جس کی مخلصانہ کوششوں سے امت ابھی تک ان ہدایات پر قائم ہے اور آپ کی قبر سجدہ گاہ بننے سے محفوظ ہے۔ الحمدلله على ذلك۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
424
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
427
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
427
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
427
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
انبیاء علیہ السلام اور صلحائے امت کی قبروں کو سجدہ گاہ اور مسجد بنانے میں تعظیم وتکریم کا پہلو نکلتا ہے۔کفار ویہود اسی طرح گمراہی میں مبتلا ہوئے اور وجہ سے اللہ کی طرف سے ان پر لعنت کی گئی لیکن مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر وہاں مسجد تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایساکرنے میں ان کی تعظیم وتکریم کا وہم بھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح ان کی توہین کا پہلونکلتا ہے اور مشرکین کی اہانت جائز ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس فرمان نبوی سے یہ مسئلہ مستنبط فرمایا ہے،اسے صحیح بخاری میں موصولاً بھی بیان کیا ہے۔( ملاحظہ ہوحدیث 168۔) بلکہ ایک روایت میں یہود کے ساتھ نصاریٰ کا بھی ذکر ہے ،نیز اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنی امت کوخبردار کرنا چاہتے تھے۔( صحیح البخاری المغازی حدیث 4441۔) اس کے علاوہ دیگر مقامات پر اس حدیث کو بیان کیاگیاہے۔( صحیح البخاری الصلاۃ حدیث 435۔436۔) اس عنوان کا دوسرا جز یہ ہے کہ قبروں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔اس سے مراد قبر کے اوپر یا قبر کے طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے یا دو قبروں کے درمیان نماز ادا کرنا ہے۔یہ تمام صورتیں منع ہیں۔اس کے متعلق ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے،ان پر یا ان کی منہ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔( فتح الباری 679/1۔) چونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی،اس لیے آپ نے عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ابونعیم نے اپنی تالیف "کتاب الصلاۃ" میں موصولاً بیان کیا ہے۔( صحیح المسلم الجنائز حدیث 2250(972))
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انس بن مالک ؓ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھم نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ (جب) انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کی عدت تھی کہ ان میں اگر کوئی نیک آدمی مرتا تو اس کی قبر پر مسجد اور تصویریں بنا دیتے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا دعویٰ ہے کہ مشرکین کے قبرستان میں قبریں ختم کرکے مسجد تعمیر کرنادرست ہے اور جو دلیل ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ قبرستان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں، اس لیے امام بخاری کے دعویٰ اوردلیل میں تقریب تام نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہودونصاریٰ کے حق میں وعید اور لعنت جس طرح ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے انھیں سجدہ گاہ بنالیا اور نتیجتاً و ہ انبیاء علیہم السلام کو معبود سمجھنے لگے، اسی طرح یہ وعید ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان قبروں کی جگہ اس طرح مسجد تعمیر کریں کہ ان کے جسد اطہر کو قبر سے نکال دیں اور ہڈیاں پھینک دیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ دونوں باتیں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین ہی کے ساتھ خاص ہیں، جہاں تک کفار کا تعلق ہے تو ان میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، اس لیے اگرکفار کی قبروں سے ہڈیاں نکال کر پھینک دی جائیں اور ان کی جگہ مسجد تعمیر کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ان کی تعظیم تو مقصود نہیں اور ان کی اہانت میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:679/1) 2۔ یہود ونصاریٰ پر لعنت کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھتے ہوئے انھیں مساجد بنالیا تھا۔ جب انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو باقی رکھے ہوئے وہاں مسجد بنانا باعث لعنت ہے، توقبور مشرکین کو باقی رکھتے ہوئے وہاں مسجد تعمیر کرنابدرجہ اولیٰ موجب لعنت ہوگا۔ اس طرح امام بخاری ؒ کے دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ظاہر ہوگئی۔ ہاں! یہ ضروری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو کھودنا سخت حرام اور ان کی توہین کاباعث ہے۔ اس لیے ان کی قبروں کی جگہ پر مسجد تعمیرکرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ اس کے برعکس مشرکین کی قبروں کا کوئی احترام نہیں، اس لیےان کی جگہ پرمساجد تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اکھاڑ کر ہڈیاں الگ کردی جائیں۔ اور جب زمین ان کے ناپاک جسم سے پاک ہوجائے تو وہاں مسجد بنا لی جائے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ بزرگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا یہودونصاریٰ کی علامت ہے۔ جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قراردیا ہے اور آپ نے یہ باتیں مرض وفات میں ارشادفرمائیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کی قبر مبارک کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ کو جزاے خیر دے جس کی مخلصانہ کوششوں سے امت ابھی تک ان ہدایات پر قائم ہے اور آپ کی قبر سجدہ گاہ بننے سے محفوظ ہے۔ الحمدلله على ذلك۔
ترجمۃ الباب:
فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔"(علاوہ ازیں) قبروں پر نماز پڑھنا ناپسندیدہ عمل ہے۔ حضرت عمرؓ نے (ایک دفعہ) حضرت انس ؓ کو قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: قبر سے بچو، قبر سے دور رہو لیکن آپ نے انہیں نماز دہرانے کے متعلق نہیں فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ ؓ اور ام سلمہ ؓ دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں ( تصویریں ) تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار ( نیک ) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں ( تصویریں ) بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰة میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری ؒ کے شیوخ میں سے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓب نے حضرت انس ؓ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی، مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔ اس سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔ ( فتح ) آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Um Habiba and Um Salama mentioned about a church they had seen in Ethiopia in which there were pictures. They told the Prophet (ﷺ) about it, on which he said, "If any religious man dies amongst those people they would build a place of worship at his grave and make these pictures in it. They will be the worst creature in the sight of Allah on the Day of Resurrection."