Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Al-Fath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو خط حاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو نبی کریم ﷺ کے غزوہ کے ارادہ سے آگاہ کرنے کے لیے بھیجا تھا اس کا بھی بیان ۔
4274.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنھم کو روانہ فرمایا اور حکم دیا: ’’تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچو۔ یقینا وہاں تمہیں اونٹنی پر سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے۔ تم اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔‘‘ انہوں نے کہا: ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں اونٹنی پر سوار ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے، وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط وغیرہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا: تجھے خط نکالنا ہو گا بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا جسے لے کر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں یہ لکھا تھا: ’’حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام۔‘‘ اس خط کے ذریعے سے وہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ راز مشرکین کو بتا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حاطب! یہ کیا ہے؟‘‘ حاطب نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں۔ دراصل میں قریش کے خاندان سے نہیں تھا بلکہ میں ان کا حلیف تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی مکہ مکرمہ میں قرابت داری ہے جس کی وجہ سے اہل مکہ ان کے اہل و عیال اور اموال و متاع کی حفاظت کریں گے۔ میں نے خیال کیا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبتی رشتہ نہیں ہے تو میں ان پر کوئی احسان کر دوں جس کی وجہ سے وہ میری قرابت کی نگہبانی کریں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے برگشتہ ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ ہی سے ایسا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اس شخص نے سچ سچ کہہ دیا ہے۔‘‘ (اس کے باوجود) حضرت عمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اراتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شخص بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے غزوہ بدر میں حاضر ہونے والوں سے فرمایا ہے: تم جو چاہو عمل کرو۔ یقینا میں تمہیں بخش چکا ہوں۔‘‘ پھر اللہ تعالٰی یہ یہ سورت نازل فرمائی: ’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم انہیں اپنی محبت اور دوستی کا یقین دلاتے ہو حالانکہ وہ حق (سچے دین)کے منکر ہوئے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ۔۔ تو یقینا وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔‘‘
تشریح:
1۔روضہ خاخ، مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ حضرت حاطب ؓ نے اس عورت کو دس دینار دیے تھے کہ وہ اس خط کو مشرکین مکہ تک بحفاظت پہنچادے لیکن بذریعہ وحی یہ راز فاش ہوگیا۔ 2۔حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری اور قانونی سیاست کے مطابق تھا مگر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حا طب ؓ کی سچائی بذریعہ وحی معلوم ہوگئی، اس بنا پر آپ نے ان کوغلطی سے درگزر فرمایا۔ 3۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں محض ظاہری حالات کودیکھ کر فیصلہ کرنا قرین قیاس نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انھوں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:3983۔) 4۔بہرحال اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہم راز راستے ہی میں پکڑ وادیا اور مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی کوئی خبرقریش تک نہ پہنچ سکی، بالآخر نبی کریم ﷺ نے 10 رمضان المبارک کو مدینہ طیبہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا رخ کیا اور آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام ؓ کی نفری تھی۔ اس کی تفصیل آئندہ حدیث میں بیان ہوگی۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4101
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4274
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4274
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4274
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے دس سال تک لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ کیا جسے"صلح حدیبیہ" کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔لیکن اہل مکہ نے صلح نامہ کی متعدددفعات کی خلاف ورزی کی ،بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمکے پر چڑھائی کرنے کا پروگرام بنایا اور اسے چنداکابرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے علاوہ دیگراہل اسلام سے صیغہ راز میں رکھا۔لیکن حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کو ایک خط لکھ کر اطلاع بھیجی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حملہ کرنے والے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس خط کا مضمون ان الفاظ میں بیان کیاہے:"اے جماعت قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس سیل رواں کی طرح بڑھتا ہوا لشکر لے کر آرہے ہیں۔اللہ کی قسم!اگر وہ تنہا بھی تمہارے پاس آجائیں تو اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان سے اپنا وعدہ پورا کرے گا ،لہذا تم اپنے متعلق سوچ لو والسلام۔"واقدی نے اپنی ایک مرسل سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہیل بن عمرو،صفوان بن امیہ اور عکرمہ کویہ لکھا تھا:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں جنگ کا اعلان کردیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ کاارادہ تم لوگوں کے سوا کسی اور کا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم لوگوں پر میرا ایک احسان رہے۔"( فتح الباری 652/7۔)
اور جو خط حاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو نبی کریم ﷺ کے غزوہ کے ارادہ سے آگاہ کرنے کے لیے بھیجا تھا اس کا بھی بیان ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنھم کو روانہ فرمایا اور حکم دیا: ’’تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچو۔ یقینا وہاں تمہیں اونٹنی پر سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے۔ تم اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔‘‘ انہوں نے کہا: ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں اونٹنی پر سوار ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے، وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط وغیرہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا: تجھے خط نکالنا ہو گا بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا جسے لے کر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں یہ لکھا تھا: ’’حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام۔‘‘ اس خط کے ذریعے سے وہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ راز مشرکین کو بتا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حاطب! یہ کیا ہے؟‘‘ حاطب نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں۔ دراصل میں قریش کے خاندان سے نہیں تھا بلکہ میں ان کا حلیف تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی مکہ مکرمہ میں قرابت داری ہے جس کی وجہ سے اہل مکہ ان کے اہل و عیال اور اموال و متاع کی حفاظت کریں گے۔ میں نے خیال کیا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبتی رشتہ نہیں ہے تو میں ان پر کوئی احسان کر دوں جس کی وجہ سے وہ میری قرابت کی نگہبانی کریں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے برگشتہ ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ ہی سے ایسا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اس شخص نے سچ سچ کہہ دیا ہے۔‘‘ (اس کے باوجود) حضرت عمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اراتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شخص بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے غزوہ بدر میں حاضر ہونے والوں سے فرمایا ہے: تم جو چاہو عمل کرو۔ یقینا میں تمہیں بخش چکا ہوں۔‘‘ پھر اللہ تعالٰی یہ یہ سورت نازل فرمائی: ’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم انہیں اپنی محبت اور دوستی کا یقین دلاتے ہو حالانکہ وہ حق (سچے دین)کے منکر ہوئے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ۔۔ تو یقینا وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔روضہ خاخ، مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ حضرت حاطب ؓ نے اس عورت کو دس دینار دیے تھے کہ وہ اس خط کو مشرکین مکہ تک بحفاظت پہنچادے لیکن بذریعہ وحی یہ راز فاش ہوگیا۔ 2۔حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری اور قانونی سیاست کے مطابق تھا مگر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حا طب ؓ کی سچائی بذریعہ وحی معلوم ہوگئی، اس بنا پر آپ نے ان کوغلطی سے درگزر فرمایا۔ 3۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض معاملات میں محض ظاہری حالات کودیکھ کر فیصلہ کرنا قرین قیاس نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انھوں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:3983۔) 4۔بہرحال اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہم راز راستے ہی میں پکڑ وادیا اور مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی کوئی خبرقریش تک نہ پہنچ سکی، بالآخر نبی کریم ﷺ نے 10 رمضان المبارک کو مدینہ طیبہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا رخ کیا اور آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام ؓ کی نفری تھی۔ اس کی تفصیل آئندہ حدیث میں بیان ہوگی۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
اور اس خط کی وضاحت جو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے اہل مکہ کو لکھا تھا، جس میں انہوں نے اہل مکہ کو نبی ﷺ کے حملے کی خبر دی تھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا‘ انہیں حسن بن محمد بن علی نے خبر دی اور انہوں نے عبید اللہ بن رافع سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی ؓ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیاکہ مجھے اور زبیر اور مقداد ؓ کو رسول کریم ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ (مکہ کے راستے پر) چلے جانا جب تم مقام روضہ خاخ پر پہنچو تو وہان تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی۔ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے‘ تم اس سے وہ لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں ایک عورت ہودج میں سوار ملی (جس کا نام سارا یا کناد ہے) ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے لیکن جب ہم نے اس سے یہ کہا کہ اگر تو نے خود سے خط نکال کر ہمیں نہیں دیا تو ہم تیرا کپڑا اتار کر (تلاشی لیں گے) تب اس نے اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں واپس ہوئے۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام (صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل) پھر انہوں نے اس میں مشرکین کو حضور اکرم ﷺ کے بعض بھیدوں کی خبر بھی دی تھی۔ (آپ فوج لے کر آنا چاہتے ہیں) حضور ﷺ نے دریافت فرمایا‘ اے حاطب ! تو نے یہ کیا کیا ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں‘ میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں۔ بات یہ ہے میں دوسرے مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں‘ صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں اور دوسرے مہاجرین کے وہاں عزیز و اقرباءہیں جو ان کے گھر بار مال واسباب کی نگرانی کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ خیر جب میں خاندان کی رو سے ان کا شریک نہیں ہوں تو کچھ احسان ہی ان پر ایسا کردوں جس کے خیال سے وہ میرے کنبہ والوں کو نہ ستائیں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ واقعی انہوں نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن اڑادوں لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ غزوئہ بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ جو غزوئہ بدر میں شریک ہونے والوں کے کام سے واقف ہے سورۃ ممتحنہ میں اس نے ان کے متعلق خود فرمادیا ہے کہ ”جو چاہو کرو میں نے تمہارے گناہ معاف کر دیئے“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ”اے وہ لوگو جو ایمان لاچکے ہو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے تم اپنی محبت کا اظہار کرتے رہو ۔ آیت‘‘ ﴿فقد ضل سوآءالسبیل﴾ تک۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے مشرکین مکہ کو لکھا تھا کہ رسول کریم ﷺ مکہ پر فوج لے کر آنا چاہتے ہیں تم اپنا انتظام کر لو۔ حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کہا وہ ظاہری قانونی سیاست کے مطابق تھا۔ مگر آنحضرت ﷺ کو ان کی سچائی وحی سے معلوم ہو گئی۔ لہذا آپ نے ان کی غلطی سے در گزر فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بعض امور میں محض ظاہری وجوہ کی بنا پر فتوی ٹھوک دینا درست نہیں ہے۔ مفتی کو لازم ہے کہ ظاہر وباطن کے جملہ امور وحالات پر خوب غور وخوض کرکے فتوی نویسی کرے۔ روایت میں غزوئہ فتح مکہ کے عزم کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔ فتح الباری میں حضرت حاطب ؓ کے خط کے یہ الفاظ منقول ہوئے ہیں: ((يَا مَعْشَر قُرَيْش فَإِنَّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَكُمْ بِجَيْشٍ كَاللَّيْلِ , يَسِير كَالسَّيْلِ , فَوَاَللَّهِ لَوْ جَاءَكُمْ وَحْدَهُ لَنَصَرَهُ اللَّه وَأَنْجَزَ لَهُ وَعْده. فَانْظُرُوا لأَنْفُسِكُمْ وَالسَّلام)) وا قدی نے یہ لفظ نقل کئے ہیں۔ أن حاطب كتب إلی سہیل بن عمرو و صفوان بن أسد وعکرمة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أذن في الناس بالغزو ولا أرادہ یرید غیرکم وقد أحببت أن یکون لي عندکم ید۔ان کا خلاصہ یہ کہ رسول کریم ﷺ ا یک لشکر جرار لے کر تمہارے اوپر چڑھائی کر نے والے ہیں تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ احسان کرنے کے لیے ایسا لکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent me, Az-Zubair and Al-Miqdad saying, "Proceed till you reach Rawdat Khakh where there is a lady carrying a letter, and take that (letter) from her." So we proceeded on our way with our horses galloping till we reached the Rawda, and there we found the lady and said to her, "Take out the letter." She said, "I have no letter." We said, "Take out the letter, or else we will take off your clothes." So she took it out of her braid, and we brought the letter to Allah's Apostle (ﷺ) . The letter was addressed from Hatib, bin Abi Balta'a to some pagans of Makkah, telling them about what Allah's Apostle (ﷺ) intended to do. Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Hatib! What is this?" Hatib replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do not make a hasty decision about me. I was a person not belonging to Quraish but I was an ally to them from outside and had no blood relation with them, and all the Emigrants who were with you, have got their kinsmen (in Makkah) who can protect their families and properties. So I liked to do them a favor so that they might protect my relatives as I have no blood relation with them. I did not do this to renegade from my religion (i.e. Islam) nor did I do it to choose Heathenism after Islam." Allah's Apostle (ﷺ) said to his companions." As regards him, he (i.e. Hatib) has told you the truth." 'Umar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to chop off the head of this hypocrite!" The Prophet (ﷺ) said, "He (i.e. Hatib) has witnessed the Badr battle (i.e. fought in it) and what could tell you, perhaps Allah looked at those who witnessed Badr and said, "O the people of Badr (i.e. Badr Muslim warriors), do what you like, for I have forgiven you. "Then Allah revealed the Sura:-- "O you who believe! Take not my enemies And your enemies as friends offering them (Your) love even though they have disbelieved in that Truth (i.e. Allah, Prophet (ﷺ) Muhammad and this Qur'an) which has come to you ....(to the end of Verse)....(And whosoever of you (Muslims) does that, then indeed he has gone (far) astray (away) from the Straight Path." (60.1