Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4302.
ایوب نے کہا: مجھ سے ابو قلابہ نے کہا: عمرو بن سلمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابو قلابہ نے کہا: پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا: ہم ایک چشمے پر رہائش پذیر تھے جو لوگوں کے لیے عام گزرگاہ تھا۔ ہماری طرف سے جو مسافر سوار گزرتے ہم ان سے پوچھتے رہتے کہ آپ لوگوں کا کیا حال ہے؟ اور اس شخص کی کیا کیفیت ہے؟ لوگ جواب دیتے: وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ اس کی طرف وحی اتارتا ہے یا یوں کہا کہ اللہ نے اس پریہ یہ وحی بھیجی ہے۔ (پھر وہ لوگ قرآن کی کوئی آیت سناتے تو) میں وہ کلام خوب یاد کر لیا کرتا گویا کوئی اسے میرے سینے میں ج دیتا ہے۔ اور اہل عرب مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کو اور اس کی قوم کو چھوڑ دو۔ اگر حضرت محمد ﷺ ان پر غالب آ گئے تو وہ نبی برحق ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے چاہا کہ وہ پہلے مسلمان ہو جائے اور میرے باپ نے مسلمان ہونے میں اپنی قوم سے بھی جلدی کی۔ جب میرا باپ (مسلمان ہو کر) آیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی حق سے ملاقات کر کے تمہارے پاس آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے: ’’فلااں وقت یہ نماز پڑھا کرو اور فلاں وقت وہ نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ جماعت کرائے۔‘‘ لوگوں نے اس پر غور کیا تو مجھ سے زیادہ قرآن پڑھنے والا کسی کو نہ پایا کیونکہ میں مسافر سواروں سے سن سن کر بہت یاد کر چکا تھا، لہذا سب نے مجھے امام منتخب کر لیا، حالانکہ میں اس وقت چھ سات برس کا تھا۔ ایسا ہوا کہ اس وقت میرے تن پر صرف ایک چادر تھی، وہ بھی جب میں سجدہ کرتا تو سکڑ جاتی۔ قبیلے کی ایک عورت نے یہ منظر دیکھ کر کہا: تم اپنے قاری کا سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ آخرکار انہوں نے ایک کپڑا خرید کر میرا کرتا بنایا اور میں جتنا اس کرتے سے خوش ہوا اتنا کسی چیز سے کبھی خوش نہیں ہوا۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نابالغ بچہ فرائض اور نوافل میں امام بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھ دار ہو جبکہ بعض لوگوں نے بلا وجہ اس موقف سے اختلاف کیا ہے، انھوں نے فرائض میں بچے کی امامت کو جائز نہیں رکھا۔ 2۔عربوں کی قمیص تہبند کاکام بھی دیتی ہے، غالباً اسی وجہ سے روایت میں صرف کرتا بنانے کا ذکر ہے وہ ٹخنوں تک لمبا ہوتا اگر تہبند نہ ہو تب بھی جسم چھپ جاتا ہے چونکہ وحی کا زمانہ نہ تھا اگر ایسا کرناناجائز ہوتا تو اسے کسی صورت میں برقرار نہ رکھا جاتا۔ اسے حدیث تقریری حکمی کا نام دیا جا سکتا ہے واللہ اعلم۔ 3۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:جن حضرات نے نابالغ بچے کی امامت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے انھوں نے یہ کہہ کر انصاف سے کام نہیں لیا کہ مذکورہ واقعے میں اہل چشمہ نے اپنے اجتہاد سے عمرو بن سلمہ ؓ کو امام بنایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے اطلاع نہیں پائی اور نہ آپ نے اسے برقرار ہی رکھا حالانکہ زمانہ وحی میں کسی بھی ناجائز کام کو برقرارنہیں رکھا جا سکتا۔ (فتح الباري:30/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4127
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4302
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4302
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4302
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
ایوب نے کہا: مجھ سے ابو قلابہ نے کہا: عمرو بن سلمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابو قلابہ نے کہا: پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا: ہم ایک چشمے پر رہائش پذیر تھے جو لوگوں کے لیے عام گزرگاہ تھا۔ ہماری طرف سے جو مسافر سوار گزرتے ہم ان سے پوچھتے رہتے کہ آپ لوگوں کا کیا حال ہے؟ اور اس شخص کی کیا کیفیت ہے؟ لوگ جواب دیتے: وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ اس کی طرف وحی اتارتا ہے یا یوں کہا کہ اللہ نے اس پریہ یہ وحی بھیجی ہے۔ (پھر وہ لوگ قرآن کی کوئی آیت سناتے تو) میں وہ کلام خوب یاد کر لیا کرتا گویا کوئی اسے میرے سینے میں ج دیتا ہے۔ اور اہل عرب مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کو اور اس کی قوم کو چھوڑ دو۔ اگر حضرت محمد ﷺ ان پر غالب آ گئے تو وہ نبی برحق ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے چاہا کہ وہ پہلے مسلمان ہو جائے اور میرے باپ نے مسلمان ہونے میں اپنی قوم سے بھی جلدی کی۔ جب میرا باپ (مسلمان ہو کر) آیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی حق سے ملاقات کر کے تمہارے پاس آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے: ’’فلااں وقت یہ نماز پڑھا کرو اور فلاں وقت وہ نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ جماعت کرائے۔‘‘ لوگوں نے اس پر غور کیا تو مجھ سے زیادہ قرآن پڑھنے والا کسی کو نہ پایا کیونکہ میں مسافر سواروں سے سن سن کر بہت یاد کر چکا تھا، لہذا سب نے مجھے امام منتخب کر لیا، حالانکہ میں اس وقت چھ سات برس کا تھا۔ ایسا ہوا کہ اس وقت میرے تن پر صرف ایک چادر تھی، وہ بھی جب میں سجدہ کرتا تو سکڑ جاتی۔ قبیلے کی ایک عورت نے یہ منظر دیکھ کر کہا: تم اپنے قاری کا سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ آخرکار انہوں نے ایک کپڑا خرید کر میرا کرتا بنایا اور میں جتنا اس کرتے سے خوش ہوا اتنا کسی چیز سے کبھی خوش نہیں ہوا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نابالغ بچہ فرائض اور نوافل میں امام بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھ دار ہو جبکہ بعض لوگوں نے بلا وجہ اس موقف سے اختلاف کیا ہے، انھوں نے فرائض میں بچے کی امامت کو جائز نہیں رکھا۔ 2۔عربوں کی قمیص تہبند کاکام بھی دیتی ہے، غالباً اسی وجہ سے روایت میں صرف کرتا بنانے کا ذکر ہے وہ ٹخنوں تک لمبا ہوتا اگر تہبند نہ ہو تب بھی جسم چھپ جاتا ہے چونکہ وحی کا زمانہ نہ تھا اگر ایسا کرناناجائز ہوتا تو اسے کسی صورت میں برقرار نہ رکھا جاتا۔ اسے حدیث تقریری حکمی کا نام دیا جا سکتا ہے واللہ اعلم۔ 3۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:جن حضرات نے نابالغ بچے کی امامت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے انھوں نے یہ کہہ کر انصاف سے کام نہیں لیا کہ مذکورہ واقعے میں اہل چشمہ نے اپنے اجتہاد سے عمرو بن سلمہ ؓ کو امام بنایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے اطلاع نہیں پائی اور نہ آپ نے اسے برقرار ہی رکھا حالانکہ زمانہ وحی میں کسی بھی ناجائز کام کو برقرارنہیں رکھا جا سکتا۔ (فتح الباري:30/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ ؓ نے‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابو قلابہ نے کہا‘ عمرو بن سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابو قلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے ؟ (یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہو تا تھا۔) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو‘ اگر وہ ان پر غالب آگئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں خدا کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آرہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں ن ز اس طرح فلاں وقت پڑھاکرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یادکرنے والاا نہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی‘ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہوجاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا‘ تم اپنے قاری کا چو تڑ تو پہلے چھپا دو۔ آ خر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس سے اہلحدیث اور شافعیہ کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی امامت درست ہے اور جب وہ تمیز دار ہو فرائض اور نوافل سب میں اور اس میں حنفیہ نے خلاف کیا ہے۔ فرائض میں امامت جائز نہیں رکھی (وحیدی) روایت میں لفظ فکنت احفظ ذلک الکلام و کانما یغری فی صدری۔ پس میں اس کلام قرآ ن کو یاد کر لیتا جیسے کوئی میرے سینے میں اتار دیتا۔ بعض لوگ ترجمہ یہ کر تے ہیں جیسے کوئی میرے سینے میں چپکا دیتا یا کوٹ کر بھر دیتا۔ یہ کئی ترجمے اس بنا پر ہیں کہ بعض نسخوں میں یغری في صدري ہے بعض میں یقر في صدري ہے، عربوں کی قمیص ساتھ ہی تہ بند کا کام بھی دے دیتی ہے۔ اسی لیے روایت میں صرف قمیص بنانے کا ذکر ہے۔ یعنی وہ ٹخنوں تک لمبی ہوتی ہے جس کے بعد تہ بند نہ ہو تب بھی جسم چھپ جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Salama (RA) : We were at a place which was a thoroughfare for the people, and the caravans used to pass by us and we would ask them, "What is wrong with the people? What is wrong with the people? Who is that man?. They would say, "That man claims that Allah has sent him (as an Apostle), that he has been divinely inspired, that Allah has revealed to him such-and-such." I used to memorize that (Divine) Talk, and feel as if it was inculcated in my chest (i.e. mind) And the 'Arabs (other than Quraish) delayed their conversion to Islam till the Conquest (of Makkah). They used to say." "Leave him (i.e. Muhammad) and his people Quraish: if he overpowers them then he is a true Prophet. So, when Makkah was conquered, then every tribe rushed to embrace Islam, and my father hurried to embrace Islam before (the other members of) my tribe. When my father returned (from the Prophet) to his tribe, he said, "By Allah, I have come to you from the Prophet (ﷺ) for sure!" The Prophet (ﷺ) afterwards said to them, 'Offer such-and-such prayer at such-and-such time, and when the time for the prayer becomes due, then one of you should pronounce the Adhan (for the prayer), and let the one amongst you who knows Qur'an most should, lead the prayer." So they looked for such a person and found none who knew more Qur'an than I because of the Qur'anic material which I used to learn from the caravans. They therefore made me their Imam ((to lead the prayer) and at that time I was a boy of six or seven years, wearing a Burda (i.e. a black square garment) proved to be very short for me (and my body became partly naked). A lady from the tribe said, "Won't you cover the anus of your reciter for us?" So they bought (a piece of cloth) and made a shirt for me. I had never been so happy with anything before as I was with that shirt.