باب: نبی کریم ﷺکا خالد بن ولید ؓ کو بنی جذیمہ قبیلے کی طرف بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Sending Khalid bin Al-Walid to Banu Jadhima)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4339.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا تو حضرت خالد ؓ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اچھی طرح یوں نہ کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے بلکہ کہنے لگے: ہم نے اپنا دین بدل ڈالا، ہم نے اپنا دین بدل ڈالا۔ (اس پر) حضرت خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا اور بعض کو قید کر کے ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک قیدی دے دیا۔ پھر ایک روز حضرت خالد ؓ نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو مار ڈالے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو ہرگز قتل نہیں کروں گا اور نہ میرا کوئی ساتھی ہی اپنے قیدی کو مارے گا۔ پھر جب ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ قصہ بیان کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری الذمہ ہوں۔‘‘ دوبار یہی فرمایا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ سے فارغ ہوئے تو ماہ شعبان 8ہجری میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی سرکردگی میں ایک تبلیغی وفد بنو جذیمہ کی طرف روانہ کیا لیکن حملہ نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ کی تھی۔ یہ وفد ساڑھے تین سومہاجرین و انصار اور بنو سلیم پر مشتمل تھا۔ تبلیغ کے نتیجے میں وہ مسلمان ہوگئے لیکن اپنے اسلام لانے کی تعبیر اچھی طرح نہ کرسکے۔ اس پر خالد بن ولید ؓ نے انھیں قتل اور گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس موقع پر صرف بنوسلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کوقتل کیا، انصارو مہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔ 2۔ حضرت خالد بن ولید ؓ سے چونکہ اجتہادی غلطی ہوئی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے خود کو بری الذمہ قراردیا لیکن حضرت خالد ؓ کوکچھ نہیں کہا، البتہ قوم کے افراد بے گناہ مارے گئے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ (فتح الباري:72/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4158
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4339
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4339
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4339
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا تو حضرت خالد ؓ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اچھی طرح یوں نہ کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے بلکہ کہنے لگے: ہم نے اپنا دین بدل ڈالا، ہم نے اپنا دین بدل ڈالا۔ (اس پر) حضرت خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا اور بعض کو قید کر کے ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک قیدی دے دیا۔ پھر ایک روز حضرت خالد ؓ نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو مار ڈالے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو ہرگز قتل نہیں کروں گا اور نہ میرا کوئی ساتھی ہی اپنے قیدی کو مارے گا۔ پھر جب ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ قصہ بیان کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری الذمہ ہوں۔‘‘ دوبار یہی فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ سے فارغ ہوئے تو ماہ شعبان 8ہجری میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی سرکردگی میں ایک تبلیغی وفد بنو جذیمہ کی طرف روانہ کیا لیکن حملہ نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ کی تھی۔ یہ وفد ساڑھے تین سومہاجرین و انصار اور بنو سلیم پر مشتمل تھا۔ تبلیغ کے نتیجے میں وہ مسلمان ہوگئے لیکن اپنے اسلام لانے کی تعبیر اچھی طرح نہ کرسکے۔ اس پر خالد بن ولید ؓ نے انھیں قتل اور گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس موقع پر صرف بنوسلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کوقتل کیا، انصارو مہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔ 2۔ حضرت خالد بن ولید ؓ سے چونکہ اجتہادی غلطی ہوئی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے خود کو بری الذمہ قراردیا لیکن حضرت خالد ؓ کوکچھ نہیں کہا، البتہ قوم کے افراد بے گناہ مارے گئے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ (فتح الباري:72/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی۔ (دوسری سند) اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید ؓ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ خالد بن ولید ؓ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں ''أسلمنا'' (ہم اسلام لائے) کہنا نہیں آتا تھا، اس کے بجائے وہ ''صبانا، صبانا '' (ہم بے دین ہوگئے، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے) کہنے لگے۔ خالد ؓ نے انہیں قتل کر نا اور قید کر نا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھرجب ایک دن خالد ؓ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کر دیں۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا آخر جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اے اللہ ! میں اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں، جو خالد نے کیا۔ دومرتبہ آپ نے یہی فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
خالد بن ولید ؓ فوج کے سردار تھے مگر عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس حکم میں ان کی اطاعت نہیں کی کیونکہ ان کا یہ حکم شرع کے خلاف تھا۔ جب بنی جذیمہ کے لوگوں نے لفظ صبانا سے مسلمان ہونا مراد لیا تو حضرت خالد ؓ کو ان کے قتل کر نے سے رک جانا ضروری تھا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت انے خالد ؓ کے فعل سے اپنی براءت ظاہر فرمائی۔ ان کی خطا اجتہاد ی تھی۔ وہ صبانا کا معنی أسلمنا نہ سمجھے اور انہوں نے ظاہر حکم پر عمل کیا کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں، ان سے لڑو۔ حضرت خالد ؓ ولید قریشی کے بیٹے ہیں جو مخزومی ہیں۔ ان کی والدہ لبابۃ الصغری نامی ام المو منین حضرت میمونہ ؓ کی بہن ہیں۔ یہ اشراف قریش سے تھے۔ آنحضرت انے ان کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا۔ سنہ 21ھ میں وفات پائی، رضي اللہ عنه۔
قَالَ ابن سعد: وَلَمَّا رَجَعَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مِنْ هَدْمِ الْعُزَّى، وَرَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُقِيمٌ بِمَكَّةَ، بَعَثَهُ إِلَى بَنِي جُذَيْمَةَ دَاعِيًا إِلَى الْإِسْلَامِ، وَلَمْ يَبْعَثْهُ مُقَاتِلًا، فَخَرَجَ فِي ثَلَاثمِائَةٍ وَخَمْسِينَ رَجُلًا، مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ، وَبَنِي سُلَيْمٍ، فَانْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوا: مُسْلِمُونَ قَدْ صَلَّيْنَا وَصَدَّقْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَبَنَيْنَا الْمَسَاجِدَ فِي سَاحَتِنَا، وَأَذَّنَّا فِيهَا، قَالَ: فَمَا بَالُ السِّلَاحِ عَلَيْكُمْ؟ قَالُوا: إِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ مِنَ الْعَرَبِ عَدَاوَةً، فَخِفْنَا أَنْ تَكُونُوا هُمْ، وَقَدْ قِيلَ: إِنَّهُمْ قَالُوا: صَبَأْنَا، وَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا: أَسْلَمْنَا، قَالَ: فَضَعُوا السِّلَاحَ، فَوَضَعُوهُ، فَقَالَ لَهُمْ: اسْتَأْسِرُوا، فَاسْتَأْسَرَ الْقَوْمُ، فَأَمَرَ بَعْضَهُمْ فَكَتَّفَ بَعْضًا، وَفَرَّقَهُمْ فِي أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي السَّحَرِ، نَادَى خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: مَنْ كَانَ مَعَهُ أَسِيرٌ فَلْيَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَأَمَّا بَنُو سُلَيْمٍ، فَقَتَلُوا مَنْ كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَأَمَّا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ فَأَرْسَلُوا أَسْرَاهُمْ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا صَنَعَ خالد فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خالد "، وَبَعَثَ عليا يُودِي لَهُمْ قَتْلَاهُمْ وَمَا ذَهَبَ مِنْهُمْ»(زاد المعاد)یعنی جب حضرت خالد بن ولید ؓ عزی کو ختم کر کے لوٹے اس وقت رسول کریم ﷺ مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ نے ان کو بنی جذیمہ کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا اور لڑائی کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ حضرت خالد ؓ ساڑھے تین سو مہاجر اور انصار صحا بیوں کے ساتھ نکلے۔ کچھ بنو سلیم کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ بنو جذیمہ کے یہا ں پہنچے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم مسلمان ہیں، نمازی ہیں، ہم نے حضرت محمد ﷺ کاکلمہ پڑھا ہوا ہے اور ہم نے اپنے والانوں میں مساجد بھی بنا رکھی ہیں اور ہم وہاں اذان بھی دیتے ہیں، وہ سب ہتھیار بند تھے۔ حضرت خالد نے پوچھا کہ تمہارے جسموں پر یہ ہتھیار کیوں ہیں؟ وہ بولے کہ ایک عرب قوم کے اور ہما رے درمیان عداوت چل رہی ہے۔ ہما را گمان ہوا کہ شاید تم وہی لوگ ہو۔ یہ بھی منقول ہے کہ ان لوگوں نے بجائے أسلمنا کے صبانا صبانا کہا کہ ہم اپنے پرانے دین سے ہٹ گئے ہیں۔ حضرت خالد ؓ نے حکم دیا کہ ہتھیا ر اتاردو۔ انہوں نے ہتھیار اتار دئے اور خالد ؓ نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پس حضرت خالد ؓ کے ساتھیوں نے ان سب کو قید کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئے۔ حضرت خالد ؓ نے ان کو اپنے ساتھیوں میںحفاظت کے لیے تقسیم کر دیا۔ صبح کے وقت انہوں نے پکارا کہ جن کے پاس جس قدر بھی قیدی ہوں وہ ان کو قتل کر دیں۔ بنوسلیم نے تو اپنے قیدی قتل کردئے مگر انصار اور مہاجرین نے حضرت خالد ؓ کے اس حکم کونہیں مانا اور ان قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ جب اس واقعہ کی خبر رسول کریم ﷺ کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد ؓ کے اس فعل سے اظہاربیزاری فرمایا اور حضرت علی ؓ کو وہا ں بھیجا تاکہ جو لوگ قتل ہوے ہیں ان کا فدیہ ادا کیا جائے اور ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim's father (RA) : The Prophet (ﷺ) sent Khalid bin Al-Walid to the tribe of Jadhima and Khalid invited them to Islam but they could not express themselves by saying, "Aslamna (i.e. we have embraced Islam)," but they started saying "Saba'na! Saba'na (i.e. we have come out of one religion to another)." Khalid kept on killing (some of) them and taking (some of) them as captives and gave every one of us his Captive. When there came the day then Khalid ordered that each man (i.e. Muslim soldier) should kill his captive, I said, "By Allah, I will not kill my captive, and none of my companions will kill his captive." When we reached the Prophet, we mentioned to him the whole story. On that, the Prophet (ﷺ) raised both his hands and said twice, "O Allah! I am free from what Khalid has done."