Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa Dhul-Khalasa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4356.
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم ذوالخلصہ کو اجاڑ کر مجھے سکون نہیں پہنچاتے؟‘‘ ذوالخلصہ، قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا جسے وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سوار لے کر چل پڑا۔ وہ لوگ گھوڑوں والے تھے اور میں گھوڑے پر نہی ٹھہر سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے۔ آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اسے گھوڑے پر ثابت رکھ، نیز اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے وہاں جا کر ذوالخلصہ کو توڑا اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کیا۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے! میں آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اس وقت بت خانہ کو توڑ کر خارشی اونٹ کی طرح بالکل سیاہ بنا دیا گیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور ان کے شہسواروں کے لیے پانچ مرتبہ خیروبرکت کی دعا فرمائی۔
تشریح:
1۔ حضرت جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ وہ گھوڑے پرٹھہر نہیں سکتے توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے قریب آؤ۔‘‘ وہ آپ کے قریب ہوئے تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کے سرپررکھا پھر اس کے چہرے اور سینے پر اسے پھیرتے ہوئے ناف تک لے گئے، پھردوبارہ اپنا ہاتھ ان کے سرپررکھا اور ان کی کمر پر اسے پھیرتے ہوئے ان کی سرین تک لے گئے، پھرفرمایا: ’’اے اللہ! جریر کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔‘‘ چنانچہ حضرت جریر ؓ نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے اس بت خانے کو جلا کرراکھ کردیا اور اسے خارشی اونٹ کی طرح بنادیا، یعنی وہ اس اونٹ کی طرح سیاہ ہوگیا جسے خارش کی وجہ سے گندھک ملی گئی ہو اور اس کے بال اُتر گئے ہوں اور اس کا چمڑا خارش اور گندھک ملنے کی وجہ سے خراب اور سیاہ ہوگیا ہو۔ (فتح الباري:91/8) 2۔ رسول اللہ ﷺ نےحضرت جریر ؓ کو قبیلہ خشعم کی طرف بھیجنا اورانھیں ہدایت کی کہ وہ تین دن تک عقیدہ توحید کی دعوت دیں، اگروہ قبول کرلیں تو ان کا بت خانہ گرادیں اگروہ مسلمان نہ ہوں تو پھر انھیں بھی قتل کردیں۔ (فتح الباري:90/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4172
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4356
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4356
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4356
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
یمن کے علاقے میں قبیلہ خشعم کی سرزمین پر ایک بت خانے کو ذوالخلصہ کہاجاتا تھا جس میں بہت بڑا بت تھا۔اب اس مقام پر ایک جامع مسجد ہے جوشہر عبلات میں واقع ہے۔ایک ذوالخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کے متعلق حدیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتی کہ دوس کی عورتوں کے سرین ذوالخلصہ کے اردگرد حرکت کریں گے۔( صحیح البخاری الفتن حدیث 7116۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ذوالخلصہ قبیلہ دوس کا ایک بت تھا جس کی وہ زمانہ جاہلیت میں عبادت کرتے تھے۔یہ ایک دوسرا بت خانہ تھا اس بت کو عمروبن لحی نے مکہ کے نشیبی علاقے میں نصب کیا تھا ،لوگ اسے ہارپہناتے اور اس کے نزدیک ذبح کرتے تھے اور جوقبیلہ خشعم کا بت خانہ تھا اگرچہ اس کا نام بھی ذوالخلصہ تھا لیکن وہ بیت اللہ کی شکل میں انھوں نےتعمیر کررکھا تھا۔( فتح الباری 89۔90/8۔)
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم ذوالخلصہ کو اجاڑ کر مجھے سکون نہیں پہنچاتے؟‘‘ ذوالخلصہ، قبیلہ خثعم میں ایک بت خانہ تھا جسے وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سوار لے کر چل پڑا۔ وہ لوگ گھوڑوں والے تھے اور میں گھوڑے پر نہی ٹھہر سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے۔ آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اسے گھوڑے پر ثابت رکھ، نیز اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے وہاں جا کر ذوالخلصہ کو توڑا اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کیا۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے! میں آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اس وقت بت خانہ کو توڑ کر خارشی اونٹ کی طرح بالکل سیاہ بنا دیا گیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور ان کے شہسواروں کے لیے پانچ مرتبہ خیروبرکت کی دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ وہ گھوڑے پرٹھہر نہیں سکتے توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے قریب آؤ۔‘‘ وہ آپ کے قریب ہوئے تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کے سرپررکھا پھر اس کے چہرے اور سینے پر اسے پھیرتے ہوئے ناف تک لے گئے، پھردوبارہ اپنا ہاتھ ان کے سرپررکھا اور ان کی کمر پر اسے پھیرتے ہوئے ان کی سرین تک لے گئے، پھرفرمایا: ’’اے اللہ! جریر کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔‘‘ چنانچہ حضرت جریر ؓ نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے اس بت خانے کو جلا کرراکھ کردیا اور اسے خارشی اونٹ کی طرح بنادیا، یعنی وہ اس اونٹ کی طرح سیاہ ہوگیا جسے خارش کی وجہ سے گندھک ملی گئی ہو اور اس کے بال اُتر گئے ہوں اور اس کا چمڑا خارش اور گندھک ملنے کی وجہ سے خراب اور سیاہ ہوگیا ہو۔ (فتح الباري:91/8) 2۔ رسول اللہ ﷺ نےحضرت جریر ؓ کو قبیلہ خشعم کی طرف بھیجنا اورانھیں ہدایت کی کہ وہ تین دن تک عقیدہ توحید کی دعوت دیں، اگروہ قبول کرلیں تو ان کا بت خانہ گرادیں اگروہ مسلمان نہ ہوں تو پھر انھیں بھی قتل کردیں۔ (فتح الباري:90/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحیٰ بن سعد قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریربن عبد اللہ بجلی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تم مجھے ذو الخلصہ سے کیوں نہیں بے فکر کرتے؟ یہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا۔ اسے کعبہ یمانیہ بھی کہتے تھے۔ چنانچہ میں ڈیڑھ سو قبیلہ احمس کے سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ یہ سب اچھے شہسوا ر تھے۔ مگر میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کرسکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا یہاں تک کہ میں نے آپ کی انگلیوں کا اثر اپنے سینے میں پایا، پھر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! اسے گھوڑے کا اچھا سوار بنادے اور اسے راستہ بتلانے والا اور خود راستہ پایا ہوا بنا دے، پھر وہ اس بت خانے کی طرف روانہ ہوئے اور اسے ڈھا کر اس میں آگ لگادی پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اطلاع بھیجی۔ جریر کے ایلچی نے آکر عرض کیا، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں اس وقت تک آپ کی خدمت میںحا ضر ہونے کے لیے نہیں چلاجب تک وہ خارش زدہ اونٹ کی طرح جل کر (سیاہ) نہیں ہوگیا۔ بیان کیا کہ پھر آنحضر ت ﷺ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ بر کت کی دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
خارش زدہ اونٹ پر ڈامر وغیرہ ملتے ہیں تو اس پر کالے کالے دھبے پڑجاتے ہیں۔ جل بھن کر، بالکل یہی حال ذی الخلصہ کا ہوگیا۔ ذی الخلصہ والے اسلام کے حریف بن کر ہر وقت مخالفانہ سازشیں کرتے رہتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais (RA) : Jarir said to me, The Prophet (ﷺ) said to me, "Won't you relieve me from Dhu-l-Khalasa?" And that was a house (in Yemem belonging to the tribe of) Khatham called Al-Kaba Al Yamaniya. I proceeded with one-hundred and-fifty cavalry from Ahmas (tribe) who were horse riders. I used not to sit firm on horses, so the Prophet (ﷺ) stroke me over my chest till I saw the mark of his fingers over my chest, and then he said, 'O Allah! Make him (i.e. Jarir) firm and one who guides others and is guided on the right path." So Jarir proceeded to it dismantled and burnt it, and then sent a messenger to Allah's Apostle. The messenger of Jarir said (to the Prophet), "By Him Who sent you with the Truth, I did not leave that place till it was like a scabby camel." The Prophet (ﷺ) blessed the horses of Ahmas and their men five times.