Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The story of the people of Najran (Christians))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4380.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ’’ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’یہ شخص اس امت کا امین ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ سید کا نام ابہم تھا شرجیل بھی کہا جاتا تھا۔ اور عاقب کا نام عبدالمسیح تھا یہ ان کا مشیر تھا۔ وہ اسی کے مشورے سے تمام امور سر انجام دیتے تھےابو حارث بن علقمہ بہت بڑا عالم، امام، صاحب مدراس تھا اور سیدان کا نگران اور حضر و سفر کا ذمہ دار تھا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم میری باتوں کا انکار کرتے ہو تو میں تم سے مباہلہ کرتا ہوں۔‘‘ ان میں سے سید اور عاقب نے کہا: ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے البتہ آپ ہم سے جو طلب کریں ہم دینے کے لیے حاضر ہیں اور آپ سے صلح کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے ہزار جوڑے ماہ رجب میں اور ہزار جوڑے ماہ صفر میں ادا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گےجب وہ صلح کر کے اپنے وطن روانہ ہو گئے تو تھوڑے ہی دنوں بعد سید اور عاقب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:357/1۔ وفتح الباري:118/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4194
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4380
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4380
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4380
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
نجران ایک بہت بڑا شہر ہے جو مکہ مکرمہ سے سات کلو میڑ اور صنعاء سے250 کلو میڑ پر واقع ہے۔ یہاں کے باشندے عیسائی ہو گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران کے نام خط لکھا تو ان کے سرداروں میں سے چودہ افراد پر مشتمل وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ہے۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ’’ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’یہ شخص اس امت کا امین ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سید کا نام ابہم تھا شرجیل بھی کہا جاتا تھا۔ اور عاقب کا نام عبدالمسیح تھا یہ ان کا مشیر تھا۔ وہ اسی کے مشورے سے تمام امور سر انجام دیتے تھےابو حارث بن علقمہ بہت بڑا عالم، امام، صاحب مدراس تھا اور سیدان کا نگران اور حضر و سفر کا ذمہ دار تھا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم میری باتوں کا انکار کرتے ہو تو میں تم سے مباہلہ کرتا ہوں۔‘‘ ان میں سے سید اور عاقب نے کہا: ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے البتہ آپ ہم سے جو طلب کریں ہم دینے کے لیے حاضر ہیں اور آپ سے صلح کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے ہزار جوڑے ماہ رجب میں اور ہزار جوڑے ماہ صفر میں ادا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گےجب وہ صلح کر کے اپنے وطن روانہ ہو گئے تو تھوڑے ہی دنوں بعد سید اور عاقب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:357/1۔ وفتح الباري:118/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابو اسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید، رسو ل اللہ ﷺ سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کروکیونکہ خدا کی قسم! اگر یہ نبی ہوئے اور پھر بھی ہم نے ان سے مباہلہ کیا توہم پنپ نہیں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں رہ سکیں گی، پھر ان دونوں نے آنحضور ﷺ سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگیں ہم جزیہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کوئی امین بھیج دیجئے، جو بھی آدمی ہمارے ساتھ بھیجیں وہ امین ہو نا ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہوگا بلکہ پورا پورا امانت دار ہوگا۔ صحابہ ؓ آنحضرت ﷺ کے منتظر تھے، آپ نے فرمایا ابو عبیدہ بن الجراح! اٹھو، جب وہ کھڑے ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وَفِي قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ مِنَ الْفَوَائِدِ أَنَّ إِقْرَارَ الْكَافِرِ بِالنُّبُوَّةِ لَا يُدْخِلُهُ فِي الْإِسْلَامِ حَتَّى يَلْتَزِمَ أَحْكَامَ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا جَوَازُ مُجَادَلَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَدْ تَجِبُ إِذَا تَعَيَّنَتْ مَصْلَحَتُهُ وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَمِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَا تَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ وَوَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ وَفِيهَا مُصَالَحَةُ أَهْلِ الذِّمَّةِ عَلَى مَا يَرَاهُ الْإِمَامُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ وَيَجْرِي ذَلِكَ مَجْرَى ضَرْبِ الْجِزْيَةِ عَلَيْهِمْ فَإِنَّ كُلًّا مِنْهُمَا مَالٌ يُؤْخَذُ مِنَ الْكُفَّارِ عَلَى وَجْهِ الصَّغَارِ فِي كُلِّ عَامٍ وَفِيهَا بَعْثُ الْإِمَامِ الرَّجُلَ الْعَالِمَ الْأَمِينَ إِلَى أَهْلِ الْهُدْنَةِ فِي مَصْلَحَةِ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا مَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقد ذكر بن إِسْحَاقَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِيًّا إِلَى أَهْلِ نَجْرَانَ لِيَأْتِيَهُ بِصَدَقَاتِهِمْ وَجِزْيَتِهِمْ وَهَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ قِصَّةِ أَبِي عُبَيْدَةَ لِأَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ تَوَجَّهَ مَعَهُمْ فَقَبَضَ مَالَ الصُّلْحِ وَرَجَعَ وَعَلِيٌّ أَرْسَلَهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ يَقْبِضُ مِنْهُمْ مَا اسْتُحِقَّ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ وَيَأْخُذُ مِمَّنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ مَا وَجَبَ عَلَيْهِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَاللَّهُ أعلم(فتح الباري)حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب، جب اس مین کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماء کے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والا باطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے (علامہ ابن حجر کے)ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہو اور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیہ کے لیے حضرت علی ؓ کو بھیجاتھا۔ یہ موقع دوسراہے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی ؓ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے۔ ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔ یہی نجرانی تھے جن کے لیے آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی کا آدھا حصہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے خالی فرمادیا تھا۔ رسول کریم ﷺ کی اہل مذاہب کے ساتھ یہ رواداری ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جاتی رہے گی، (صلی اللہ علیہ وسلم) صدافسوس کہ آج خود اسلامی فرقوں میں یہ رواداری مفقود ہے۔ ایک سنی شیعہ مسجد میں اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے۔ ایک وہابی کو دیکھ کر ایک بریلوی کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔ فلبیك علی الإسلام من کان باکیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa (RA) : Al-'Aqib and Saiyid, the rulers of Najran, came to Allah's Apostle (ﷺ) with the intention of doing Lian one of them said to the other, "Do not do (this Lian) for, by Allah, if he is a Prophet (ﷺ) and we do this Lian, neither we, nor our offspring after us will be successful." Then both of them said (to the Prophet (ﷺ) ), "We will give what you should ask but you should send a trustworthy man with us, and do not send any person with us but an honest one." The Prophet (ﷺ) said, "I will send an honest man who Is really trustworthy." Then every one of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) wished to be that one. Then the Prophet (ﷺ) said, "Get up, O Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah." When he got up, Allah's Apostle (ﷺ) said, "This is the Trustworthy man of this (Muslim) nation."