Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: (What is said about) reciting poetry in the mosque?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
453.
حضرت حسان بن ثابت ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے گواہی طلب کر رہے تھے: تمہیں اللہ کی قسم! بتاؤ کیاتم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’اے حسان! رسول اللہ ﷺ کی طرف کافروں کو جواب دو۔ اے اللہ! تو حسان کی روح القدس سے تائیدفرما؟‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا:ہاں، میں نے سنا ہے۔
تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:322) اس کی سند صحیح ہے۔ اس حکم امتناعی پر دیگر احادیث بی مشتمل ہیں۔ لیکن ان کی صحت کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے، تاہم اس قسم کی متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے منع ہیں جواسلام اوراہل اسلام کے خلاف ہوں یا دور جاہلیت کی یادگار، عشقیہ مضامین اور فحش گوئی پر مشتمل ہوں۔ البتہ ایسے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے جو درج بالا عیوب سے پاک ہوں اور ان میں اسلام کی خوبیوں یا ان میں مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیاگیا ہو۔ بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ مسجد کوغزل خانہ بنادیا جائے یا تمام اہل مسجد شعر گوئی میں مصروف ہوجائیں۔ (فتح الباري:710/1) بہرحال امام بخاری ؒ جمہور کی تائید کرتے ہوئے تفصیل کے قائل ہیں، کیونکہ اشعارکلام کا حصہ ہیں۔ جس طرح کلام اچھا بُرا ہوتا ہے اسی طرح اشعار بھی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ بُرے اشعار کا مسجد کے باہر پڑھنا بھی درست نہیں، ایسے اشعار کومسجد میں پڑھنا ان کی قباحت میں مزید اضافے کا باعث ہے، البتہ اچھے اشعار جو اسلامی مضامین پر مشتمل ہوں، مسجد کے باہر اور اندر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ حضرت حسان ؓ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشعار پڑھتے تھے، لیکن صحیح بخاری میں ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کو فرمایا تھا:’’اے حسان!میری طرف سے ان مشرکین کو جواب دو۔‘‘ (صحیح البخاری، الأدب، حدیث:6152) چنانچہ حضرت حسان ؓ نے مسجد میں ہی مشرکین کے ہجویہ کلام کا جواب دیاتھا۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان قائم کرتے وقت روایت کے دوسرے طرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حضرت حسان کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے شہادت لینے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ ایک دن حضرت حسان ؓ مسجد نبوی میں اشعار پڑھ رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا وہاں سے گزرہوا تو انھوں نےآپ کو گھور کردیکھا اورناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت حسان ؓ نےفوراً کہا کہ میں تو مسجد نبوی میں آپ سے زیادہ مرتنےوالی شخصیت کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا۔ پھر آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف التفات کرکے ان سے شہادت طلب کی۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3212) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد نبوی میں خود منبر رکھتے جس پر کھڑے ہوکر وہ مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2846) ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے مندرجہ ذیل ارشاد نبوی ہو:’’تم میں سے کس کے پیٹ میں پیپ بھری ہوتو(یہ) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے پیٹ میں اشعار بھرے ہوں۔‘‘( صحیح البخاری الادب حدیث 6154۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بڑا محتاط عنوان قائم کیا ہے:‘’’مکروہ ہے کہ انسان کی طبیعت پر اشعار کا اس حد تک غلبہ ہوکر وہ اللہ کے ذکر، حصول علم اور تلاوت قرآن سے بھی غافل رہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
449
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
453
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
453
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
453
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت حسان بن ثابت ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے گواہی طلب کر رہے تھے: تمہیں اللہ کی قسم! بتاؤ کیاتم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’اے حسان! رسول اللہ ﷺ کی طرف کافروں کو جواب دو۔ اے اللہ! تو حسان کی روح القدس سے تائیدفرما؟‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا:ہاں، میں نے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:322) اس کی سند صحیح ہے۔ اس حکم امتناعی پر دیگر احادیث بی مشتمل ہیں۔ لیکن ان کی صحت کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے، تاہم اس قسم کی متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے منع ہیں جواسلام اوراہل اسلام کے خلاف ہوں یا دور جاہلیت کی یادگار، عشقیہ مضامین اور فحش گوئی پر مشتمل ہوں۔ البتہ ایسے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے جو درج بالا عیوب سے پاک ہوں اور ان میں اسلام کی خوبیوں یا ان میں مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیاگیا ہو۔ بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ مسجد کوغزل خانہ بنادیا جائے یا تمام اہل مسجد شعر گوئی میں مصروف ہوجائیں۔ (فتح الباري:710/1) بہرحال امام بخاری ؒ جمہور کی تائید کرتے ہوئے تفصیل کے قائل ہیں، کیونکہ اشعارکلام کا حصہ ہیں۔ جس طرح کلام اچھا بُرا ہوتا ہے اسی طرح اشعار بھی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ بُرے اشعار کا مسجد کے باہر پڑھنا بھی درست نہیں، ایسے اشعار کومسجد میں پڑھنا ان کی قباحت میں مزید اضافے کا باعث ہے، البتہ اچھے اشعار جو اسلامی مضامین پر مشتمل ہوں، مسجد کے باہر اور اندر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ حضرت حسان ؓ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشعار پڑھتے تھے، لیکن صحیح بخاری میں ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کو فرمایا تھا:’’اے حسان!میری طرف سے ان مشرکین کو جواب دو۔‘‘ (صحیح البخاری، الأدب، حدیث:6152) چنانچہ حضرت حسان ؓ نے مسجد میں ہی مشرکین کے ہجویہ کلام کا جواب دیاتھا۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان قائم کرتے وقت روایت کے دوسرے طرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حضرت حسان کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے شہادت لینے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ ایک دن حضرت حسان ؓ مسجد نبوی میں اشعار پڑھ رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا وہاں سے گزرہوا تو انھوں نےآپ کو گھور کردیکھا اورناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت حسان ؓ نےفوراً کہا کہ میں تو مسجد نبوی میں آپ سے زیادہ مرتنےوالی شخصیت کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا۔ پھر آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف التفات کرکے ان سے شہادت طلب کی۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3212) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد نبوی میں خود منبر رکھتے جس پر کھڑے ہوکر وہ مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2846) ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے مندرجہ ذیل ارشاد نبوی ہو:’’تم میں سے کس کے پیٹ میں پیپ بھری ہوتو(یہ) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے پیٹ میں اشعار بھرے ہوں۔‘‘( صحیح البخاری الادب حدیث 6154۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بڑا محتاط عنوان قائم کیا ہے:‘’’مکروہ ہے کہ انسان کی طبیعت پر اشعار کا اس حد تک غلبہ ہوکر وہ اللہ کے ذکر، حصول علم اور تلاوت قرآن سے بھی غافل رہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری کے واسطے سے کہا کہ مجھے ابوسلمہ ( اسماعیل یا عبداللہ ) ا بن عبدالرحمن بن عوف نے، انھوں نے حسان بن ثابت انصاری ؓ سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے ( مشرکوں کو اشعار میں ) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا، ہاں ( میں گواہ ہوں۔ بے شک میں نے حضور ﷺ سے یہ سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
خلافت فاروقی کے دورمیں ایک روز حضرت حسان ؓ مسجد نبوی میں دینی اشعار سنارہے تھے جس پر حضرت عمر ؓ نے ان کو روکنا چاہا توحسان ؓ نے اپنے فعل کے جواز میں یہ حدیث بیان کی۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ دربارِ رسالت کے خصوصی شاعر تھے اورآنحضرت ﷺ کی طرف سے کافروں کے غلط اشعار کا جواب اشعارہی میں دیا کرتے تھے۔ اس پر آپ نے ان کے حق میں ترقی کی دعا فرمائی۔ معلوہواکہ دینی اشعار، نظمیں مساجد میں سنانا درست ہے۔ ہاں لغو اورعشقیہ اشعار کا مسجد میں سنانا بالکل منع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hassan bin Thabit Al-Ansari (RA): I asked Abu Hurairah (RA) "By Allah! Tell me the truth whether you heard the Prophet (ﷺ) saying, 'O Hassan! Reply on behalf of Allah's Apostle. O Allah! Help him with the Holy Spirit." Abu Hurairah (RA) said, "Yes.”