قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: {وَإِذْ قَالَ اللَّهُ} [المائدة: 116]: " يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ، وَإِذْ هَا هُنَا صِلَةٌ. الْمَائِدَةُ: أَصْلُهَا مَفْعُولَةٌ، كَعِيشَةٍ رَاضِيَةٍ، وَتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ، وَالمَعْنَى: مِيدَ بِهَا صَاحِبُهَا مِنْ خَيْرٍ، يُقَالُ: مَادَنِي يَمِيدُنِي " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {مُتَوَفِّيكَ} [آل عمران: 55]: «مُمِيتُكَ»

4624 .   حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْكَرْمَانِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَرَأَيْتُ عَمْرًا يَجُرُّ قُصْبَهُ وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( ما جعل اللہ من بحیرۃ )) کی تفسیر ”اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو“۔

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «وإذ قال الله» (میں «قال») معنی میں «يقول» کے ہے اور «إذ» یہاں زائد ہے۔ «المائدة» اصل میں «مفعولة» ( «ميمودة») کے معنی میں ہے گو صیغہ فاعل کا ہے، جیسے «عيشة»، «راضية» اور «تطليقة»، «بائنة» میں ہے۔ تو «مائدة» کا معنی «مميده» یعنی خیر اور بھلائی جو کسی کو دی گئی ہے۔ اسی سے «مادني يميدني» ہے۔ ابن عباس ؓنے کہا: «متوفيك» کے معنی میں تجھ کو وفات دینے والا ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں اپنے وقت مقررہ پر موت آئے گی وہ مراد ہو سکتی ہے۔

4624.   حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ جہنم کی آگ کا کچھ حصہ دوسرے حصے کو کھا رہا تھا۔ اس دوران میں میں نے عمرو بن خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔ اور وہ پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے دیوتاؤں کے نام اونٹنیاں چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔‘‘