Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Al-Khaukhah (a small door) and a path in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
467.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں ایک پٹی سے اپنے سر کو باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر فروکش ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا:’’اپنی جان اور مال کو مجھ پر ابوبکر سے زیادہ اور کوئی خرچ کرنے والا نہیں ہے۔ اور میں لوگوں میں سے اگر کوئی دلی دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی دوستی سب سے بڑھ کر ہے۔ دیکھو! میری طرف سے ہر وہ کھڑکی جو اس مسجد میں کھلتی ہے بند کر دو، صرف ابوبکر کی کھڑکی رہنے دو۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسجد سےمتصل مکان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھول دی جائے تاکہ مسجد میں آنے کی سہولت ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟مذکورہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کے لیے یہ خصوصی اجازت ہے کہ وہ مسجد میں حاضری کی سہولت کے پیش نظر مکان کے عقبی جانب کوئی کھڑکی وغیرہ نکالیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اور اس کا اصل دروازہ مغربی جانب تھا، لیکن اس کے عقبی جانب مسجد نبوی میں آنے کے لیے ایک کھڑی تھی جس سے بوقت ضرورت مسجد میں آتے جاتے تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اپنے اپنے مکانات سے مسجد نبوی کی جانب کھڑکیاں کھول رکھی تھیں ۔ نبی ﷺ نے مرض وفات میں اللہ کے حکم سے ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کردینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ا بو بکر کی کھڑکی کے علاوہ تمام دروازے بند کردیے جائیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ انھیں خلافت کے زمانے میں نماز پڑھانے کے لیے آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ چنانچہ ابن حبان ؒ نے اس روایت کی بایں الفاظ تشریح کی ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ آپ نے یہ کہہ کر کہ مسجد میں سے ابو بکر ؓ کے علاوہ تمام صحابہ کی کھڑکیاں بند کردی جائیں تمام لوگوں کی خلافت سے متعلق دلچسپی کو یکسر ختم کردیا۔ (فتح الباري:19/7) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں طبع سلیم رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بالکل واضح استدلال ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی تو آپ نے اسے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا:اس نے عرض کیا:اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو کس کے پاس جاؤں؟ آپ نے فرمایا:’’اگر تم مجھے نہ پاؤں تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنا۔‘‘(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3659) 3۔ مسجد نبوی کی طرف دروازہ باقی رکھنے کی فضیلت حضرت علی ؓ کے متعلق بھی منقول ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جائیں، لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔‘‘ (مسند أحمد:331/1) حضرت علی ؓ کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت سے معارضے کے لیے اس روایت کو وضع کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت سے متعلق یہ روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اور کچھ روایات درجہ حسن کی ہیں اس لیے اسے موضوع قراردینا درست نہیں۔ البتہ ان کے مابین تعارض کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت کی بات نہیں دوبار الگ الگ اوقات میں دروازے بند کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں ۔ حضرت علی ؓ کے دروازے کا کھلا رہنا بہت پہلے کی بات ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے گھر کا دروازہ ہی ایک تھا اور وہ مسجد میں کھلتا تھا اس مجبوری کے پیش نظر جب پہلی بار دروازے بند کرائے تو حضرت علی ؓ کا دروازہ کھلا رہا دیگر دروازے بندے کردیے گئے۔ لیکن مسجد نبوی میں آتے وقت فاصلہ کم کرنے کے لیے کھڑکیاں باقی رکھی گئیں۔ پھر جب آپ وفات سے چند یوم پہلے مسجد میں تشریف لائے تو ان تمام کھڑکیوں کو بھی بند کردیا گیا صرف حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی کھڑکی کو کھلا رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نماز پڑھانے کی خدمت بجا لانے میں سہولت رہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بھی واضح ہدایت ہوجائے ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تطبیق کو ابو بکر کلا بازی ؒ اور امام طحاوی ؒ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:20/7) 4۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے علوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض وفات میں پیش آیا، چنانچہ آپ کی وفات سے چار دن پہلے جو جمعرات تھی اس کی صبح واقعہ قرطاس پیش آیا کہ آپ کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے لیکن لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور و شغب درست نہیں ۔’’اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا : پھر ظہر کے وقت جب بیماری میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے سر پر ڈالوشاید کچھ سکون ہواوربعض لوگوں کو کچھ وصیت کر سکوں۔ حکم کی تعمیل کی گئی تو قدرے سکون ہوا۔ پھر آپ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر فروکش ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا واقعہ قرطاس صبح کو پیش آیا اور اسی دن ظہر کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے میں وہی مضمون تھا جو آپ تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ 5۔ خلت سے مراد تعلق ہے جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر اور آپ کے درمیان یہ تعلق ممکن ہی نہیں، البتہ اسلامی اخوت اور دینی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجہ ہو سکتا ہے وہ ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے درمیان قائم ہے ان کے برابر نہ کسی کی مودت ہے اور نہ اخوت ان الفاظ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی جو منقبت بیان ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پوری امت میں ان کے درجے کا کوئی نہیں ہے۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ واضح رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ مکان مسجد نبوی سے متصل اور باب السلام اور باب الرحمة کے درمیان واقع تھا پھر آپ نے اس مکان کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت پر صرف کردی لیکن اس کے بعد بھی وہ مکان حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور رہا۔ اب وہاں مسجد نبوی کا ایک مستقل دروازہ ’’باب ابی بکر‘‘ کے نام سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس کھڑکی کی جگہ:(هذه خوخة أبي بكر(الصديق رضي الله عنه) لکھ دیا گیا ہے۔
نوٹ:۔ ان دوں احادیث کے بقیہ فوائد "کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم "میں تحریر کیے جائیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
463
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
467
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
467
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
467
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں ایک پٹی سے اپنے سر کو باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر فروکش ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا:’’اپنی جان اور مال کو مجھ پر ابوبکر سے زیادہ اور کوئی خرچ کرنے والا نہیں ہے۔ اور میں لوگوں میں سے اگر کوئی دلی دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی دوستی سب سے بڑھ کر ہے۔ دیکھو! میری طرف سے ہر وہ کھڑکی جو اس مسجد میں کھلتی ہے بند کر دو، صرف ابوبکر کی کھڑکی رہنے دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسجد سےمتصل مکان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھول دی جائے تاکہ مسجد میں آنے کی سہولت ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟مذکورہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کے لیے یہ خصوصی اجازت ہے کہ وہ مسجد میں حاضری کی سہولت کے پیش نظر مکان کے عقبی جانب کوئی کھڑکی وغیرہ نکالیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اور اس کا اصل دروازہ مغربی جانب تھا، لیکن اس کے عقبی جانب مسجد نبوی میں آنے کے لیے ایک کھڑی تھی جس سے بوقت ضرورت مسجد میں آتے جاتے تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اپنے اپنے مکانات سے مسجد نبوی کی جانب کھڑکیاں کھول رکھی تھیں ۔ نبی ﷺ نے مرض وفات میں اللہ کے حکم سے ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کردینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ا بو بکر کی کھڑکی کے علاوہ تمام دروازے بند کردیے جائیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ انھیں خلافت کے زمانے میں نماز پڑھانے کے لیے آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ چنانچہ ابن حبان ؒ نے اس روایت کی بایں الفاظ تشریح کی ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ آپ نے یہ کہہ کر کہ مسجد میں سے ابو بکر ؓ کے علاوہ تمام صحابہ کی کھڑکیاں بند کردی جائیں تمام لوگوں کی خلافت سے متعلق دلچسپی کو یکسر ختم کردیا۔ (فتح الباري:19/7) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں طبع سلیم رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بالکل واضح استدلال ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی تو آپ نے اسے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا:اس نے عرض کیا:اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو کس کے پاس جاؤں؟ آپ نے فرمایا:’’اگر تم مجھے نہ پاؤں تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنا۔‘‘(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3659) 3۔ مسجد نبوی کی طرف دروازہ باقی رکھنے کی فضیلت حضرت علی ؓ کے متعلق بھی منقول ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جائیں، لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔‘‘ (مسند أحمد:331/1) حضرت علی ؓ کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت سے معارضے کے لیے اس روایت کو وضع کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت سے متعلق یہ روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اور کچھ روایات درجہ حسن کی ہیں اس لیے اسے موضوع قراردینا درست نہیں۔ البتہ ان کے مابین تعارض کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت کی بات نہیں دوبار الگ الگ اوقات میں دروازے بند کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں ۔ حضرت علی ؓ کے دروازے کا کھلا رہنا بہت پہلے کی بات ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے گھر کا دروازہ ہی ایک تھا اور وہ مسجد میں کھلتا تھا اس مجبوری کے پیش نظر جب پہلی بار دروازے بند کرائے تو حضرت علی ؓ کا دروازہ کھلا رہا دیگر دروازے بندے کردیے گئے۔ لیکن مسجد نبوی میں آتے وقت فاصلہ کم کرنے کے لیے کھڑکیاں باقی رکھی گئیں۔ پھر جب آپ وفات سے چند یوم پہلے مسجد میں تشریف لائے تو ان تمام کھڑکیوں کو بھی بند کردیا گیا صرف حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی کھڑکی کو کھلا رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نماز پڑھانے کی خدمت بجا لانے میں سہولت رہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بھی واضح ہدایت ہوجائے ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تطبیق کو ابو بکر کلا بازی ؒ اور امام طحاوی ؒ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:20/7) 4۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے علوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض وفات میں پیش آیا، چنانچہ آپ کی وفات سے چار دن پہلے جو جمعرات تھی اس کی صبح واقعہ قرطاس پیش آیا کہ آپ کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے لیکن لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور و شغب درست نہیں ۔’’اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا : پھر ظہر کے وقت جب بیماری میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے سر پر ڈالوشاید کچھ سکون ہواوربعض لوگوں کو کچھ وصیت کر سکوں۔ حکم کی تعمیل کی گئی تو قدرے سکون ہوا۔ پھر آپ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر فروکش ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا واقعہ قرطاس صبح کو پیش آیا اور اسی دن ظہر کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے میں وہی مضمون تھا جو آپ تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ 5۔ خلت سے مراد تعلق ہے جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر اور آپ کے درمیان یہ تعلق ممکن ہی نہیں، البتہ اسلامی اخوت اور دینی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجہ ہو سکتا ہے وہ ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے درمیان قائم ہے ان کے برابر نہ کسی کی مودت ہے اور نہ اخوت ان الفاظ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی جو منقبت بیان ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پوری امت میں ان کے درجے کا کوئی نہیں ہے۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ واضح رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ مکان مسجد نبوی سے متصل اور باب السلام اور باب الرحمة کے درمیان واقع تھا پھر آپ نے اس مکان کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت پر صرف کردی لیکن اس کے بعد بھی وہ مکان حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور رہا۔ اب وہاں مسجد نبوی کا ایک مستقل دروازہ ’’باب ابی بکر‘‘ کے نام سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس کھڑکی کی جگہ:(هذه خوخة أبي بكر(الصديق رضي الله عنه) لکھ دیا گیا ہے۔
نوٹ:۔ ان دوں احادیث کے بقیہ فوائد "کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم "میں تحریر کیے جائیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے باپ جریر بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے یعلی بن حکیم سے سنا، وہ عکرمہ سے نقل کرتے تھے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے۔ سر سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ منبر پر بیٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں جانی دوست بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے۔ دیکھو ابوبکر ؓ کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔
حدیث حاشیہ:
مسجدنبوی کی ابتدائی تعمیر کے وقت اہل اسلام کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ بعد میں قبلہ بدلا گیا اورکعبہ مقدس قبلہ قرارپایا۔ جو مدینہ سے جانب جنوب تھا۔ چونکہ صحابہ کرام کے مکانات کی طرف کھڑکیاں بنادی گئی تھیں۔ بعد میں آپ ﷺ نے مشرق و مغرب کے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ صرف شمالی صدردروازہ باقی رکھا گیا اوران تمام کھڑکیوں کو بھی بند کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مکان کی جانب والی کھڑکی باقی رکھی گئی۔ اس میں آپ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ خلافت کے زمانہ میں نماز پڑھاتے وقت ان کو آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ خلیل سے مراد محبت کا وہ آخری درجہ ہے جو صرف بندہ مومن اللہ ہی کے ساتھ قائم کرسکتاہے۔ اسی لیے آپ نے ایسا فرمایا۔ اس کے بعد اسلامی اخوت ومحبت کا آخری درجہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ قراردیا۔ آج بھی مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی اس کھڑکی کی جگہ پر بطور یادگار کتبہ لگا ہواہے۔ جس کو دیکھ کر یہ سارے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ ان احادیث سے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): "Allah's Apostle (ﷺ) in his fatal illness came out with a piece of cloth tied round his head and sat on the pulpit. After thanking and praising Allah he said, "There is no one who had done more favor to me with life and property than Abu Bakr (RA) bin Abi Quhafa. If I were to take a Khalil, I would certainly have taken Abu- Bakr but the Islamic brotherhood is superior. Close all the small doors in this mosque except that of Abu Bakr."