قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {تَلَقَّوْنَهُ} [النور: 15]: «يَرْوِيهِ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ» {تُفِيضُونَ} [يونس: 61]: «تَقُولُونَ»

4751 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( ولولا فضل اللہ علیکم....الایۃ )) کی تفسیر یعنی”اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جس شغل (تہمت) میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب نازل ہوتا“۔

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «تلقونه» کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے سے منہ در منہ اس بات کو نقل کرنے لگے۔ لفظ «تفيضون» (جو سورۃ یونس میں ہے) بمعنی «تقولون» کے ہے، اس کا معنی تم کہتے تھے۔

4751.   حضرت ام رومان ؓ جو حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ ماجدہ ہیں، بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ عائشہ ؓ پر تہمت لگائی گئی تو وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی تھیں۔