Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The collection of the Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4988.
سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کررہے تھے تو مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی، حالانکہ میں وہ آیت رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت فرمایا کرتے تھے پھرہم نے اسے تلاش کیا تو وہ سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس سے ملی وہ آیت یہ تھی ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ چنانچہ ہم نے اس آیت کو مصحف میں سورہ احزاب کے ساتھ ملا دیا۔
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کے متعلق بیان کیا ہے کہ اسے اوراق میں کیونکر جمع کیا گیا؟ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کریم کو سینوں اور تحریری شکل میں جمع کرلیاگیاتھا لیکن تحریری طور پر یکجا نہیں تھا بلکہ کھجور کی شاخوں،باریک پتھروں ،کاغذ کے ٹکڑوں ،چمڑے کی جھلیوں ،شانے کی ہڈیوں اور پسلیوں پر لکھا گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مصحف میں اس جمع نہ کیا تھا کہ زمانہ نزول کے وقت کچھ آیات منسوخ ہوجاتی تھیں،اگرانھیں ایک مصحف میں جمع کرتے پھر نسخ کی وجہ سے بعض آیات کی تلاوت اٹھائی جاتی تو اختلاف پیدا ہوجاتا اور منسوخ آیات کا ناسخ آیات کے ساتھ اختلاط رہتا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے نسخ کے زمانے میں قرآن کریم کو سینوں میں محفوظ رکھا،اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حفظ قرآن کااہتمام کیا،لکھنے کی طرف اتنی توجہ نہ دی،لیکن متفرق طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کریم کو لکھ لیا گیا تھا،البتہ ایک جگہ پر جمع نہ تھا اور نہ اس کی سورتیں ہی مرتب تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نسخ کااندیشہ نہ رہا اور نہ مزید آیات کے نازل ہونے کی امید ہی تھی۔اس لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعاون سے قرآن کریم کو جمع فرمایا۔ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتب کردہ مصحف کو ازسر نومرتب کیا اور اس انداز سے جمع کیا کہ ثابت شدہ احرف سبعہ کو بھی اس میں سمودیاگیا،نیزمنسوخ آیات کو خارج کردیا گیا۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔وہ اس ترتیب کے مطابق ہوتا تھا جو آج ہمارے مصاحف میں موجود ہے۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کررہے تھے تو مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی، حالانکہ میں وہ آیت رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت فرمایا کرتے تھے پھرہم نے اسے تلاش کیا تو وہ سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس سے ملی وہ آیت یہ تھی ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ چنانچہ ہم نے اس آیت کو مصحف میں سورہ احزاب کے ساتھ ملا دیا۔
ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم (عثمان ؓ کے زمانہ میں) مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے، تو مجھے سورۃ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی، حالانکہ میں اس آیت کو بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے، پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ چنانچہ ہم نے اس آیت کو سورۃ احزاب میں لگا دیا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اپنے ٹھکانے پر تو صرف صورتوں کی ترتیب اور وجوہ قراءت وغیرہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تصرف کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہ ترتیب سورتوں کی نہ تھی اور اسی لئے نمازی کو جائز ہے کہ جس سورت کو چاہے پہلے پڑھے جسے چاہے بعد میں پڑھے ان میں ترتیب کا خیال رکھنا کچھ فرض نہیں ہے۔ ہاں اس قدر مناسب ہے کہ پہلی رکعت میں زیادہ آیات پڑھی جائیں دوسری میں کم آیات والی سورت پڑھی جائے۔ تشریح: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں اور پوری جانچ پڑتال کے بعد ان کو اطراف مملکت اسلامیہ میں بایں طور تقسیم کرا دیا کہ ایک نسخہ کوفہ میں، ایک بصرے میں، ایک شام میں اور ایک مدینہ میں اپنے پاس رہنے دیا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ سات مصحف تیار کرائے اور مکہ اور شام اور یمن اور بحرین اوربصرہ اور کوفہ کو ایک ایک بھیجا اور ایک مدینہ میں رکھا۔ یہ جلانا عین مناسب اور مقتضائے مصلحت تھا۔ یہ حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کے سامنے دیا۔ انہوں نے اس پر انکار نہیں کیا۔ بعضوں نے کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو جمع کرایا پھر جلوا دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جن کاغذوں میں خدا کے نام ہوں ان کو جلا ڈالنا درست ہے۔ اب جو مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا وہ زندگی بھر انہیں کے پاس رہا۔ مروان نے مانگا توبھی انہوں نے نہیں دیا، ان کی وفات کے بعد مروان نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ مستعار منگوایا اور جلوا ڈالا اب کسی کے پاس کوئی مصحف نہ رہا۔ البتہ کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنا نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مانگنے پر بھی نہیں دیا تھا۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد معلوم نہیں وہ مصحف کہاں گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مصحف بہ ترتیب نزول تیار کیا تھا لیکن اس کا بھی پتہ نہیں چلتا اللہ کو جو منظور تھا وہی ہوا، یہی مصحف عثمانی دنیا میں باقی رہ گیا۔ موافق مخالف ہر ملک اور ہر فرقہ میں جہاں دیکھو وہاں یہی مصحف ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Said bin Thabit added, "A Verse from Surat Ahzab was missed by me when we copied the Qur'an and I used to hear Allah's Apostle (ﷺ) reciting it. So we searched for it and found it with Khuzaima bin Thabit Al-Ansari. (That Verse was): 'Among the Believers are men who have been true in their covenant with Allah.' (33.23)