Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The Qur'an was revealed to be recited in seven different ways)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4991.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے سیدنا جبریل ؑ نے ایک قراءت کے مطابق قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے درخواست کی۔ اور زیادہ محاوروں سی پڑھنے کا مطالبہ کرتا رہا وہ پڑھاتے رہے حتیٰ کہ وہ سات حروف پر پہنچے۔“
تشریح:
1۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ اس سلسلے میں میری امت پر آسانی کریں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1904(820)) ایک دوسری روایت میں ہے کہ میری امت اس امر کی طاقت نہیں رکھتی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1906(821) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ مجھے ایک فرشتے نے کہا کہ ایک حرف سے زیادہ پڑھنے کی درخواست کریں، چنانچہ مجھے سات حروف کے مطابق پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1477) یہ حدیث محدثین کے ہاں "سبعة أحرف" کے نام سے مشہور ہے اور ائمہ حدیث نے اس حدیث کو اپنی اپنی تالیفات میں ذکر کر کے اسے متواتر کا درجہ دیا ہے، چنانچہ اس حدیث کو بائیس(22) سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیان کرتے ہیں۔ اس متواتر حدیث کے کسی بھی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبادت موجود نہیں جو سبعۃ احرف کی مراد کو متعین کرے جبکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخر نہیں کرتے۔ اس کی غالباً یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک سبعۃ احرف کا مفہوم متعین اور اس قدر واضح تھا کہ کسی کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور نہ وہ اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی کے محتاج ہی تھے۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال پیدا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مشکل کا حل معلوم کرتے۔ حالانکہ یہ حضرات قرآن کریم کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعۃ احرف کے متعلق اگر کسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراءت سنی تو قرآن کریم میں اختلاف کے واقع ہونے کے خوف سے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام وجوہ قراءت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہیں۔ ان میں کسی انسانی کوشش و کاوش کا کوئی دخل نہیں ہے، پھر ان وجوہ کا اختلاف تناقض و تضاد کا نہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کا ہے۔ اس تنوع کے بےشمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراءت میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علمائے امت نے ان قراءت کو یاد کرنے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ علم القراءت ایک مستقل فن کا شکل اختیار کر گیا ہے۔ 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق متواتر قراءات وحی الٰہی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔
سبعۃ احرف سے مراد سات قراءتیں یا سات طریقے ہیں،جن کے مطابق قرآن کریم پڑھنے کی اجازت ہے،جیسے مٰالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کو مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھنا جائزہے۔اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے اس دور میں جہاں آزادی تحقیق کے نام سے صحیح احادیث کا انکار بلکہ استخفاف کیا جاتا ہے وہاں قراءت متواترہ کو بھی تختہ مشق بنایا جاتا ہے،حالانکہ برصغیر میں جو روایت حفص پڑھی پڑھائی جاتی ہے وہ قراءت متواتر ہی کا ایک حصہ ہے اسے تسلیم کرنا اورباقی قراءات کا انکار کرنا علم وعقل سے کورزوقی کی بدترین مثال ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی زبان مختلف علاقوں اورقبیلوں میں استعمال ہوتو اس کے بعض الفاظ کے استعمال میں اتنا فرق آجاتاہے کہ ایک قبیلے والا دوسرے قبیلے والوں کے لب ولہجے اور ان کے ہاں مستعمل الفاظ کو سمجھنے سے قاصرہوتا ہے ۔نزول قرآن کے وقت عربی زبان قریش ،ہذیل ،تمیم،ربیعہ،ہوازن اور سعد بن بکر جیسے بڑے بڑے قبائل میں بولی جاتی تھی لیکن بعض قبائل کئی عربی الفاظ سمجھنے سے بالکل قاصر رہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان پر آسانی کرتے ہوئے قرآن کریم کو سات حروف میں نازل فرمایا تاکہ قرآن کریم کے اول مخاطبین تکلف کا شکار نہ ہوں،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"قرآن کریم کو سات حروف میں نازل کیا گیا ہے،لہذاجوتمھیں آسان معلوم ہو اس کے مطابق تلاوت کرلو۔"(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی رقم 1287)جیسا کہ آئندہ احادیث میں ہم اس کی وضاحت کریں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے سیدنا جبریل ؑ نے ایک قراءت کے مطابق قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے درخواست کی۔ اور زیادہ محاوروں سی پڑھنے کا مطالبہ کرتا رہا وہ پڑھاتے رہے حتیٰ کہ وہ سات حروف پر پہنچے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ اس سلسلے میں میری امت پر آسانی کریں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1904(820)) ایک دوسری روایت میں ہے کہ میری امت اس امر کی طاقت نہیں رکھتی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1906(821) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ مجھے ایک فرشتے نے کہا کہ ایک حرف سے زیادہ پڑھنے کی درخواست کریں، چنانچہ مجھے سات حروف کے مطابق پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1477) یہ حدیث محدثین کے ہاں "سبعة أحرف" کے نام سے مشہور ہے اور ائمہ حدیث نے اس حدیث کو اپنی اپنی تالیفات میں ذکر کر کے اسے متواتر کا درجہ دیا ہے، چنانچہ اس حدیث کو بائیس(22) سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیان کرتے ہیں۔ اس متواتر حدیث کے کسی بھی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبادت موجود نہیں جو سبعۃ احرف کی مراد کو متعین کرے جبکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخر نہیں کرتے۔ اس کی غالباً یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک سبعۃ احرف کا مفہوم متعین اور اس قدر واضح تھا کہ کسی کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور نہ وہ اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی کے محتاج ہی تھے۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال پیدا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مشکل کا حل معلوم کرتے۔ حالانکہ یہ حضرات قرآن کریم کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعۃ احرف کے متعلق اگر کسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراءت سنی تو قرآن کریم میں اختلاف کے واقع ہونے کے خوف سے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام وجوہ قراءت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہیں۔ ان میں کسی انسانی کوشش و کاوش کا کوئی دخل نہیں ہے، پھر ان وجوہ کا اختلاف تناقض و تضاد کا نہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کا ہے۔ اس تنوع کے بےشمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراءت میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علمائے امت نے ان قراءت کو یاد کرنے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ علم القراءت ایک مستقل فن کا شکل اختیار کر گیا ہے۔ 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق متواتر قراءات وحی الٰہی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبید اللہ بن عبد اللہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبریل علیہ الصلاۃ و السلام نے مجھ کو (پہلے) عرب کے ایک ہی محاور ے پر قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے کہا (اس میں بہت سختی ہو گی) میں برابر ان سے کہتا رہا کہ اور محاوروں میں بھی پڑھنے کی اجازت دو۔ یہاں تک کہ سات محاوروں کی اجازت ملی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, " Gabriel (ؑ) recited the Qur'an to me in one way. Then I requested him (to read it in another way), and continued asking him to recite it in other ways, and he recited it in several ways till he ultimately recited it in seven different ways."