مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5.
حضرت ابن عباس ؓ فرمان الہٰی: ’’(اے پیغمبر!) آپ وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نزول وحی کے وقت بہت مشقت برداشت کرتے تھے۔ اور آپ (اکثر) اپنے لب مبارک کو حرکت دیا کرتے تھے.... حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں آپ کے سامنے اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہلاتے تھے۔ (آپ کے شاگرد) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو ہلاتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے.... (حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ’’(اے نبی!) اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔‘‘ یعنی آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور پڑھانا ہمارا کام ہے۔ پھر ارشاد الہٰی: ’’چنانچہ جب ہم پڑھ چکیں تو ہمارے پڑھنے کی پیروی کرو۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خاموشی سے کان لگا کر سنتے رہو۔ پھر فرمان الہٰی: ’’اس کا بیان کرنا بھی ہمارا کام ہے۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب جبریل آپ کے پاس آ کر قرآن سناتے تو آپ کان لگا کر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو آپ (وعدہ الٰہی کے مطابق) اس طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبریل نے پڑھا ہوتا۔
تشریح:
1۔ یہ روایت پہلی روایت کا تتمہ ہے جسے ایک دوسری سند سے بیان کیاگیا ہے۔ پہلی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک حضرت عروہ کے واسطے سے پہنچتی ہے جبکہ اس روایت کی سند حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتی ہے۔ پہلی روایت میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ عروہ بن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بندش وحی تک کا واقعہ بیان کیاتھا اور اس روایت میں بواسطہ ابوسلمہ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کانتیجہ ذکر کیاہے۔3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جہاں تفرد وخفا کی وجہ سے حدیث میں شک وشبہ یاتردد کا اندیشہ ہو وہاں الفاظ حدیث کی تائید میں مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں متابعت کہا جاتاہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:ایک متابعت نامہ اوردوسری متابعت ناقصہ یا قاصرہ۔جب راوی کسی دوسرے کی موافقت کرتے وقت اسی استاد سے بیان کرے جس سے پہلا راوی بیان کررہا ہے تو یہ متابعت تامہ ہوگی۔قور اگر دوران سند میں دادا استاد یا اس سے اوپر موافقت ہوتو وہ متابعت قاصرہ ہوگی۔یہاں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح عبداللہ بن صالح کا اس روایت کو بیان کرنا متابعت تامہ ہے اور ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیل کے علاوہ ہلال بن رداد کا اس روایت کی تخریج کرنا متابعت ناقصہ ہے۔پھر آپ نے یونس اور معمر کے حوالے سے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے کہ ان دونوں نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے فؤاده كے بجائے بوادره بيان كيا ہے۔بوادر،بادرہ کی جمع ہے۔اس سے مراد گردن اور کندھے کا درمیانی حصہ ہے جو شدت خوف کے وقت اسی طرح پھڑکنے لگتا ہے جیسے دل کانپتا ہے۔گویا دونوں روایتیں اصل معنی کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ دونوں ہی گھبراہٹ پر دلالت کرتی ہیں۔3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔) ہے جبکہ حدیث سابق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ۔۔۔۔۔)ہے۔دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔)اس اعتبار سے پہلی وحی ہے کہ بندش وحی کے بعد دوبارہ وحی کے نزول کا آغاز سورہ مدثر سے ہوا،یعنی پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ)کے بعد وحی کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاتھا۔4۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمبل اوڑھانے کا مطالبہ کیا۔اس کی وجہ شاید آپ کی گھبراہٹ تھی جس کی وجہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور آپ نے اہل خانہ سے کپڑا اوڑھادینے کی فرمائش کی کیونکہ بسا اوقات گھبراہٹ سے بھی کپڑا اوڑھا جاتا ہے۔ اور ایسا صرف پہلی بار ہوا۔بعد ازاں جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو بوجھ پڑنے سے آپ کو سخت پسینہ آجاتا لیکن گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کپڑا اوڑھانے ہی کا مطالبہ کرتے تھے۔ 5۔(حَمِيَّ الوَحيُ) کے لغوی معنی ہیں:"وحی گرم ہوگئی۔"جب کوئی چیز گرم ہوجائے تو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔تو(تَوَاتَرَا) کے لفظ سے یہ اشتباہ ختم ہوگیا،یعنی وحی کامعاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اس کا آغاز ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5
تمہید کتاب
وحی کے لغوی معنی پوشیدہ طور پر کسی کو بات بتانا ہیں اور اصطلاح شرع میں اس کلام وپیغام کو وحی کہاجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے حضرات انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز وحی کے بیان سے فرمایا کیونکہ انسانی رشدوہدایت کے لیے جو ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کاتمام ترانحصار وحی پر ہے،نیز اس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کی صداقت بھی وحی پر موقوف ہے۔لہذا جب تک وحی کی عظمت سامنے نہ آئے اس وقت تک اسلام کی حقانیت اور حضرات انبیاء علیہ السلام کی صداقت مشکوک رہے گی۔مزیدبرآں یہ بتانا مقصود ہے کہ دین حنیف لوگوں کے جذبات وقیاسات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی مرضیات پر مبنی شرعی احکام کا نام ہے اور اس عالم رنگ وبو میں منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے انسانوں کو جس قطعی اور یقینی چیز کی ضرورت ہے وہ وحی الٰہی ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور لائق ووثوق ہے جس کے اندر نہ توتغیر کا امکان ہے اور نہ سہو ونسیان ہی کاشائبہ ہے۔اس وحی کی عظمت وشوکت کا کیاحال ہوگا جس کا بھیجنے والامالک ارض وسما لانے والے قدسی صفات کے حامل حضرت جبرئیل علیہ السلام اور وصول کرنے والے جامع الکمالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر وحی کہاں سے،کس طرح،کس کے پاس،کون لایا؟کن حالات میں،کس مقام پر اس کا آغاز ہوا؟اس کتاب (بدء الوحي) میں انھی سوالات کا جواب دیاگیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص تالیفی اسلوب کے اعتبار سے اس مضمون کو دیگر مضامین میں سے پہلے بیان کرکے غالباً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوگا وہ عقائد ہوں یا عبادات ،معاملات ہوں یا اخلاقیات ،اصول ہوں یا فروع،ان سب کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرمان الہٰی: ’’(اے پیغمبر!) آپ وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نزول وحی کے وقت بہت مشقت برداشت کرتے تھے۔ اور آپ (اکثر) اپنے لب مبارک کو حرکت دیا کرتے تھے.... حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں آپ کے سامنے اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہلاتے تھے۔ (آپ کے شاگرد) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو ہلاتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے.... (حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ’’(اے نبی!) اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔‘‘ یعنی آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور پڑھانا ہمارا کام ہے۔ پھر ارشاد الہٰی: ’’چنانچہ جب ہم پڑھ چکیں تو ہمارے پڑھنے کی پیروی کرو۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خاموشی سے کان لگا کر سنتے رہو۔ پھر فرمان الہٰی: ’’اس کا بیان کرنا بھی ہمارا کام ہے۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب جبریل آپ کے پاس آ کر قرآن سناتے تو آپ کان لگا کر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو آپ (وعدہ الٰہی کے مطابق) اس طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبریل نے پڑھا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ روایت پہلی روایت کا تتمہ ہے جسے ایک دوسری سند سے بیان کیاگیا ہے۔ پہلی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک حضرت عروہ کے واسطے سے پہنچتی ہے جبکہ اس روایت کی سند حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتی ہے۔ پہلی روایت میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ عروہ بن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بندش وحی تک کا واقعہ بیان کیاتھا اور اس روایت میں بواسطہ ابوسلمہ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کانتیجہ ذکر کیاہے۔3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جہاں تفرد وخفا کی وجہ سے حدیث میں شک وشبہ یاتردد کا اندیشہ ہو وہاں الفاظ حدیث کی تائید میں مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں متابعت کہا جاتاہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:ایک متابعت نامہ اوردوسری متابعت ناقصہ یا قاصرہ۔جب راوی کسی دوسرے کی موافقت کرتے وقت اسی استاد سے بیان کرے جس سے پہلا راوی بیان کررہا ہے تو یہ متابعت تامہ ہوگی۔قور اگر دوران سند میں دادا استاد یا اس سے اوپر موافقت ہوتو وہ متابعت قاصرہ ہوگی۔یہاں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح عبداللہ بن صالح کا اس روایت کو بیان کرنا متابعت تامہ ہے اور ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیل کے علاوہ ہلال بن رداد کا اس روایت کی تخریج کرنا متابعت ناقصہ ہے۔پھر آپ نے یونس اور معمر کے حوالے سے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے کہ ان دونوں نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے فؤاده كے بجائے بوادره بيان كيا ہے۔بوادر،بادرہ کی جمع ہے۔اس سے مراد گردن اور کندھے کا درمیانی حصہ ہے جو شدت خوف کے وقت اسی طرح پھڑکنے لگتا ہے جیسے دل کانپتا ہے۔گویا دونوں روایتیں اصل معنی کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ دونوں ہی گھبراہٹ پر دلالت کرتی ہیں۔3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔) ہے جبکہ حدیث سابق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ۔۔۔۔۔)ہے۔دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔)اس اعتبار سے پہلی وحی ہے کہ بندش وحی کے بعد دوبارہ وحی کے نزول کا آغاز سورہ مدثر سے ہوا،یعنی پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ)کے بعد وحی کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاتھا۔4۔اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمبل اوڑھانے کا مطالبہ کیا۔اس کی وجہ شاید آپ کی گھبراہٹ تھی جس کی وجہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور آپ نے اہل خانہ سے کپڑا اوڑھادینے کی فرمائش کی کیونکہ بسا اوقات گھبراہٹ سے بھی کپڑا اوڑھا جاتا ہے۔ اور ایسا صرف پہلی بار ہوا۔بعد ازاں جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو بوجھ پڑنے سے آپ کو سخت پسینہ آجاتا لیکن گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کپڑا اوڑھانے ہی کا مطالبہ کرتے تھے۔ 5۔(حَمِيَّ الوَحيُ) کے لغوی معنی ہیں:"وحی گرم ہوگئی۔"جب کوئی چیز گرم ہوجائے تو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔تو(تَوَاتَرَا) کے لفظ سے یہ اشتباہ ختم ہوگیا،یعنی وحی کامعاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اس کا آغاز ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انھوں نے ابن عباس ؓ سے کلام الٰہی لا تحرك الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس ؓ نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس ؓ کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انھوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ نے کہا) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓکہتے ہیں یعنی قرآن آپ ﷺ کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو (یعنی اس کو محفوظ کر سکو) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس حضرت جبرئیل (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ ﷺ اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبرئیل نے اسے پڑھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے وحی کی ابتدائی کیفیت کے بیان میں اس حدیث کا نقل کرنا بھی مناسب سمجھا جس سے وحی کی عظمت اور صداقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اس لیے کہ اللہ پاک نے ان آیاتِ کریمہ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ ( القیامۃ: 16) میں آپ کو پورے طور پر تسلی دلائی کہ وحی کا نازل کرنا، پھر اسے آپ کے دل میں جما دینا، اس کی پوری تفسیر آپ کو سمجھا دینا، اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا یہ جملہ ذمہ داریاں صرف ہماری ہیں۔ ابتداءمیں آپ کو یہ کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں حضرت جبریل ؑ کے جانے کے بعد میں نازل شدہ کلام کو بھول نہ جاؤں۔ اس لیے آپ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے اپنی زبانِ مبارک ہلاتے رہتے تھے، اس سے آپ کو روکا گیا اور بغور وتوجہ ِ کامل سننے کے لیے ہدایتیں کی گئیں، جس کے بعد آپ کا یہی معمول ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ آیت ِ کریمہ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ﴾ الخ کے نزول کے وقت عالم وجود میں نہ تھے۔ مگر بعد کے زمانوں میں جب بھی آنحضرت ﷺ وحی کے ابتدائی حالات بیان فرماتے تب ابتدائے نبوت کی پوری تفصیل بیان فرمایا کرتے تھے، ہونٹ ہلانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اپنے عہد میں دیکھا اور فعل نبوی کی اقتدا میں اپنے ہونٹ ہلاکر اس حدیث کونقل فرمایا۔ پھر حضرت سعید بن جبیر نے بھی اپنے عہد میں اسے روایت کرتے وقت اپنے ہونٹ ہلائے۔ اسی لیے اس حدیث کو ’’مسلسل بتحریک الشفتین‘‘ کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی حدیث جس کے راویوں میں ہونٹ ہلانے کا تسلسل پایا جائے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وحی کی حفاظت کے لیے اس کے نزول کے وقت کی حرکات وسکنات نبویہ تک کو بذریعہ نقل در نقل محفوظ رکھا گیا۔ آیتِ شریفہ ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ میں حضرت امام بخاری کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر جو آنحضرت ﷺ نے بیا ن فرمائی اور اپنے عمل سے دکھلائی یہ بھی سب اللہ پاک کی وحی کے تحت ہے، اس سے حدیث نبوی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی میں شکوک وشبہات پیدا کرتے اور ان کو غلط قرار دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ان کے خیالاتِ باطلہ کی بھی یہاں پوری تردید موجود ہے۔ صحیح مرفوع حدیث یقیناً وحی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنی وحی کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیرمتلو قرار دیا گیا ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلم ومتعلّم کے آداب پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک متعلّم کی حیثیت میں استماع اور انصات کی ہدایت فرمائی گئی۔ استماع کانوں کا فعل ہے اور انصات بقول حضرت ابن عباس ؓ آنکھوں سے ہوتا ہے۔ پس متعلّم کے لیے ضروری ہے کہ درس کے وقت اپنے کانوں اور آنکھوں سے معلّم پر پوری توجہ سے کام لے۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھے، لب ولہجہ کے اشارات سمجھنے کے لیے نگاہ استاد کی طرف اٹھی ہوئی ہو۔ قرآن مجید و حدیث شریف کی عظمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان ہر دو کا درس لیتے وقت متعلّم ہمہ تن گوش ہوجائے اور پورے طور پر استماع اور انصات سے کام لے۔ حالتِ خطبہ میں بھی سامعین کے لیے اسی استماع وانصات کی ہدایت ہے۔ نزول وحی کے وقت آپ پر سختی اور شدت کا طاری ہونا اس لیے تھا کہ خود اللہ پاک نے فرمایا ہے : ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا﴾ بے شک ہم آپ پر بھاری باعظمت کلام نازل کرنے والے ہیں۔ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے۔ وہی کیفیت یہاں بیان کی گئی ہے۔ آیت شریفہ میں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ہذا میں آپ کے ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے۔ یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کتاب التفسیر میں حضرت جریرنے موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس واقعہ کی تفصیل میں ہونٹوں کے ساتھ زبان ہلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے: «کان رسول الله ﷺ إذا نزل جبرئیل بالوحي فکان مما یحرك بلسانه و شفتیه» اس صورت میں آیت وحدیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔
راویانِ حدیث: حضرت موسیٰ بن اسماعیل منقری۔ منقر بن عبید الحافظ کی طرف منسوب ہیں۔ جنھوں نے بصرہ میں 223 ھ ماہِ رجب میں انتقال فرمایا۔ غفر الله له۔ ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ ہیں جن کا 196 ھ میں انتقال ہوا۔ موسیٰ بن ابی عائشہ ( الکوفی الہمدانی ) ہیں۔ سعید بن جبیربن ہشام الکوفی الاسدی ہیں۔ جن کو 96 ھ میں مظلومانہ حالت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ جن کی بددُعا سے حجاج پھر جلد ہی غارت ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو ترجمان القرآن کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ان کے لیے فہم قرآن کی دعا فرمائی تھی۔68ھ میں طائف میں ان کا انتقال ہوا۔ صحیح بخاری شریف میں ان کی روایت سے 217احادیث نقل کی گئی ہیں۔ ( قسطلانی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA) : Ibn 'Abbas (RA) in the explanation of the Statement of Allah. 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith." (75:16) Said "Allah's Apostle (ﷺ) used to bear the revelation with great trouble and used to move his lips (quickly) with the Inspiration." Ibn 'Abbas (RA) moved his lips saying, "I am moving my lips in front of you as Allah's Apostle (ﷺ) used to move his." Said moved his lips saying: "I am moving my lips, as I saw Ibn 'Abbas (RA) moving his." Ibn 'Abbas (RA) added, "So Allah revealed 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith. It is for us to collect it and to give you (O Muhammad (ﷺ) ) the ability to recite it (the Qur'an) (75:16-17) which means that Allah will make him (the Prophet) remember the portion of the Qur'an which was revealed at that time by heart and recite it. The Statement of Allah: And 'When we have recited it to you (O Muhammad (ﷺ) through Gabriel (ؑ) ) then you follow its (Qur'an) recital' (75:18) means 'listen to it and be silent.' Then it is for us (Allah) to make It clear to you' (75:19) means 'Then it is (for Allah) to make you recite it (and its meaning will be clear by itself through your tongue). Afterwards, Allah's Apostle (ﷺ) used to listen to Gabriel (ؑ) whenever he came and after his departure he used to recite it as Gabriel (ؑ) had recited it."