باب:قرآن مجید کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر کس قدر ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The superiority of the Qur'an above other kinds of speech)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5021.
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مسلمانو! گزشتہ امتوں کی عمر کے مقابلے میں تمہاری عمر ایسے ہے جیسے عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہوتا ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا : ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ جو دوپہر سے عصر تک ایک قیراط مزدوری پر میرا کام کرے؟ تو یہ کام ںصاری نے کہا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو، قیراط مزدوری پر کام کیا، یہود و نصارٰی نے کہا: ہم نے کام زیادہ کیا ہے لیکن اجرت کم ملی ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا کچھ حق مارا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں (اللہ نے) فرمایا: یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔“
تشریح:
1۔ اس حدیث میں امت مرحومہ کی فضیلت میں بیان ہوئی ہے یہ فضیلت قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے جب قرآن کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل ہے تو اس میں قرآن کی بھی فضیلت ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی فضیلت نہیں۔ 2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کی عمریں بہت طویل تھیں اور ان کے مقابلے میں اس امت کی عمر بہت کم ہے گویا طلوع آفتاب سے عصر تک گزشتہ امتوں کی عمر ہے اور عصر سے مغرب تک کا وقت اس امت کی عمر ہے جو گزشتہ وقت کی ایک چوتھائی ہے۔ کام زیادہ کرنے سے یہود و نصاری کا مجموعی وقت مراد ہے یعنی صبح سے لے کر عصر تک۔ یہ اس وقت سے کہیں زیادہ ہے جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے۔ (فتح الباري:85/9)
یہ عنوان ایک حدیث کا حصہ ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے ہر قسم کے کلام پر اس طرح ہے جیسے خود اللہ تعالیٰ کی برتری اس کی مخلوق پر ہے۔"(جامع الترمذی فضائل القرآن حدیث:2926)یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح نہیں لیکن اس کے معنی درست ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عنوان میں رکھا اور اس کے معنی کو ثابت کرنے کے لیے دیگر احادیث پیش کی ہیں۔ عربوں کا ایک محاورہ ہے کہ بادشاہوں کا کلام بھی کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مسلمانو! گزشتہ امتوں کی عمر کے مقابلے میں تمہاری عمر ایسے ہے جیسے عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہوتا ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا : ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ جو دوپہر سے عصر تک ایک قیراط مزدوری پر میرا کام کرے؟ تو یہ کام ںصاری نے کہا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو، قیراط مزدوری پر کام کیا، یہود و نصارٰی نے کہا: ہم نے کام زیادہ کیا ہے لیکن اجرت کم ملی ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا کچھ حق مارا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں (اللہ نے) فرمایا: یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں امت مرحومہ کی فضیلت میں بیان ہوئی ہے یہ فضیلت قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے جب قرآن کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل ہے تو اس میں قرآن کی بھی فضیلت ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی فضیلت نہیں۔ 2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کی عمریں بہت طویل تھیں اور ان کے مقابلے میں اس امت کی عمر بہت کم ہے گویا طلوع آفتاب سے عصر تک گزشتہ امتوں کی عمر ہے اور عصر سے مغرب تک کا وقت اس امت کی عمر ہے جو گزشتہ وقت کی ایک چوتھائی ہے۔ کام زیادہ کرنے سے یہود و نصاری کا مجموعی وقت مراد ہے یعنی صبح سے لے کر عصر تک۔ یہ اس وقت سے کہیں زیادہ ہے جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے۔ (فتح الباري:85/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمانو! گزری امتوں کی عمروں کے مقابلہ میں تمہاری عمر ایسی ہے جیسے عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے اور تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثا ل ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا کہ ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا ؟ یہ کام یہودیوں نے کیا۔ پھر اس نے کہا کہ اب میرا کام آدھے دن سے عصر تک (ایک ہی قیراط مزدوری پر) کون کرے گا؟ یہ کام نصاریٰ نے کیا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط مزدوری پر کام کیا۔ یہود و نصاریٰ قیامت کے دن کہیں گے ہم نے کام زیادہ کیا لیکن مزدوری کم پائی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تمہارا کچھ حق مارا گیا، وہ کہیں گے کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر یہ میر افضل ہے، میں جسے چاہوں اور جتنا چاہوں عطا کروں۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ان امتوں کی عمریں طویل تھیں اور تمہاری عمریں چھوٹی ہیں۔ اگلی امتوں کی عمر گویا طلوع آفتاب سے عصر تک ٹھہری اور تمہاری عصر سے لے کر مغرب تک جو اگلے وقت کی ایک چوتھائی ہے کام زیادہ کرنے سے یہود و نصاریٰ کا مجموعی وقت مراد ہے یعنی صبح سے لے کر عصر تک یہ اس وقت سے کہیں زائد ہے جو عصر سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے۔ اب اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال کہ عصر کی نمازکا وقت دو مثل سے شروع ہوتا ہے پورا نہ ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Your life in comparison to the lifetime of the past nations is like the period between the time of 'Asr prayer and sunset. Your example and the example of the Jews and Christians is that of person who employed laborers and said to them, "Who will work for me till the middle of the day for one Qirat (a special weight)?' The Jews did. He then said, "Who will work for me from the middle of the day till the 'Asr prayer for one Qirat each?" The Christians worked accordingly. Then you (Muslims) are working from the bar prayer till the Maghrib prayer for two Qirats each. They (the Jews and the Christians) said, 'We did more labor but took less wages.' He (Allah) said, 'Have I wronged you in your rights?' They replied, 'No.' Then He said, 'This is My Blessing which I give to whom I wish."