Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The recitation of Qur'an in Tartil)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں فرمایا ”اور قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھ۔“ (یعنی ہر ایک حرف اچھی طرح نکال کر اطمینان کے ساتھ) اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا ”اور ہم نے قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے بھیجا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائے“ اور شعر و سخن کی طرح اس کا جلدی جلدی پڑھنا مکروہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس سورت میں جو لفظ «فرقناه» کا لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے کئی حصے کر کے اتارا۔
5044.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔“ جب جبریل ؑ وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ آپ پر یہ معاملہ گراں تھا اور یہ گرانی واضح طور ہر معلوم ہوتی تھی تو اللہ تعالٰی نے سورہ قیامہ والی مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ آپ یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس قرآن کو آپ کے دل میں ج دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں، جب ہم قرآن نازل کریں تو آپ خاموشی سے سنیں، ہمارے ذمے اس کا بیان کرنا بھی ہے یعنی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے اس کی وضاحت کریں، اس کے بعد جب جبرئیل ؑ آتے تو آپ گردن جھکا کر اسے سنتے جب وہ چلے جاتے تو آپ ﷺ قرآن اسی طرح پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتلاوت کے وقت جلدی کرنے سے منع کیاگیاہے،اس کا تقاضا ہے قرآن کریم کوخوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ترتیل قرآن کا یہی حق ہے۔حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کو اس قدر ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ سورت بہت طویل ہوجاتی۔(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث :1712(733)اسی طرح حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ جب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرآن سناتا تو فرماتے:"قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو کیونکہ ایسا کرنا قرآن کی زینت ہے۔"(السنن الکبری للبیہقی 54/2 وفتح الباری 113/9)2۔قرآن مجید کے ہم پر کئی ایک حقوق ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے آہستہ آہستہ خوب ٹھہر ٹھہر کرپڑھا جائے اور پڑھتے وقت حروف کے مخارج اور صفات کا خیال رکھاجائے۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں فرمایا ”اور قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھ۔“ (یعنی ہر ایک حرف اچھی طرح نکال کر اطمینان کے ساتھ) اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا ”اور ہم نے قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے بھیجا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائے“ اور شعر و سخن کی طرح اس کا جلدی جلدی پڑھنا مکروہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس سورت میں جو لفظ «فرقناه» کا لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے کئی حصے کر کے اتارا۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا درج زیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کی خاطر اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔“ جب جبریل ؑ وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ آپ پر یہ معاملہ گراں تھا اور یہ گرانی واضح طور ہر معلوم ہوتی تھی تو اللہ تعالٰی نے سورہ قیامہ والی مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ آپ یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس قرآن کو آپ کے دل میں ج دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں، جب ہم قرآن نازل کریں تو آپ خاموشی سے سنیں، ہمارے ذمے اس کا بیان کرنا بھی ہے یعنی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے اس کی وضاحت کریں، اس کے بعد جب جبرئیل ؑ آتے تو آپ گردن جھکا کر اسے سنتے جب وہ چلے جاتے تو آپ ﷺ قرآن اسی طرح پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتلاوت کے وقت جلدی کرنے سے منع کیاگیاہے،اس کا تقاضا ہے قرآن کریم کوخوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ترتیل قرآن کا یہی حق ہے۔حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کو اس قدر ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ سورت بہت طویل ہوجاتی۔(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث :1712(733)اسی طرح حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ جب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرآن سناتا تو فرماتے:"قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو کیونکہ ایسا کرنا قرآن کی زینت ہے۔"(السنن الکبری للبیہقی 54/2 وفتح الباری 113/9)2۔قرآن مجید کے ہم پر کئی ایک حقوق ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے آہستہ آہستہ خوب ٹھہر ٹھہر کرپڑھا جائے اور پڑھتے وقت حروف کے مخارج اور صفات کا خیال رکھاجائے۔واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔“ نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”ہم نے قرآن کو موقع نہ موقع الگ الگ کرکے نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے وقفے وقفے سے لوگوں کو پڑھ کر سنائیں۔“ اور مکروہ ہے کہ قرآن کریم کو شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا جائے۔ یفرق کے معنی ہیں: یفصل یعنی الگ الگ بیان کرنا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرقناہ کے معنیٰ ہیں: ہم نے اس کے کئی حصے کرکے اتارا ہے
وضاحت: ترتیل کا معنیٰ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہے اور اس کے ادا کرنے میں آہستگی کرنا ہے اس کے معانی سمجھنے میں آسانی ہو اس میں درج ذیل امور داخل ہیں: کسی کلمے کو سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ ادا کرنا۔ خوش الحانی اور ادائیگی میں مخارج حروف کا خیال رکھنا۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ اس طرح پڑھنے کا فائدہ ہوتا ہے کہ الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ انسان ان کے معانی پر بھی غور کرسکتا ہے اور یہ معانی ساتھ کے ساتھ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبد الحمید نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے۔ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ”آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لئے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں۔“ بیان کیا کہ جب جبریل ؑ وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول کریم ﷺ اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کے لئے وحی یاد کرنے میں بہت بار پڑتا تھا اور یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو سورۃ ﴿لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ میں ہے، نازل کی ’’کہ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لئے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا تو جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے پیچھے پڑھا کریں پھر آپ کی زبان سے اس کی تفسیر بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔“ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب جبریل ؑ آتے تو آپ سر جھکا لیتے اورجب واپس جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ نے آپ سے یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ کہ تیرے دل میں جما دینا اس کو پڑھا دینا ہمارا کا م ہے پھر آپ اس کے موافق پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
آیت ثم ان علینا بیانہ ( القیا مہ: 19 ) سے ثابت ہواکہ سلسلہ تفسیرقرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا جسے لفظ حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ سارا ذخیرہ بھی اللہ پاک ہی کا تعلیم فر مودہ ہے۔ اسی سے احادیث کووحی غیر متلوسے تعبیرکیا گیا ہے جولوگ احادیث صحیحہ کے منکر ہیں وہ قرآن پاک کی اس آیت کا انکار کر تے ہیں اس لئے وہ صرف منکر حدیث ہی نہیں بلکہ منکر قرآن بھی ہیں ھداھم اللہ الی صراط مستقیم آیت۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : Regarding His (Allah's) Statement:-- 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith.' (75.16) And whenever Gabriel (ؑ) descended to Allah's Apostle (ﷺ) with the Divine Inspiration, Allah's Apostle (ﷺ) used to move his tongue and lips, and that used to be hard for him, and one could easily recognize that he was being inspired Divinely. So Allah revealed the Verse which occurs in the Surah starting with "I do swear by the Day of Resurrection.' (75.1) i.e. 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste then with. It is for Us to collect it (in your mind) ( O Muhammad (ﷺ) ) an give you the ability to recite it 'by heart.' (75.16-17) which means: It is for us to collect it (in your mind) and give you the ability to recite it by heart. And when We have recited it to you ( O Muhammad (ﷺ) ) through Gabriel (ؑ) then follow you its recital. (75.18) means: 'When We reveal it (the Qur'an) to you, Listen to it.' for then: It is for Us to explain it and make it clear to you' (75.19) i.e. It is up to Us to explain it through your tongue. So, when Gabriel (ؑ) came to him, Allah's Apostle (ﷺ) would listen to him attentively, and as soon as Gabriel (ؑ) left, he would recite the Revelations, as Allah had promised him.