Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: What is the proper period for reciting the whole Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“
5054.
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”ہر مہینے میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کی: مجھ سے تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم سات راتوں میں قرآن مجید ختم کیا کرو، اس سے زیادہ نہ پڑھو۔“
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تقاضا ہے کہ سات دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے حالانکہ اسلاف سے کم مدت میں ختم کرنا منقول ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ حکم مخاطب کے ضعف اور عجز کے اعتبار سے ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ نہی تحریم کے لیے نہ ہو جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یہ بات حدیث کے تمام طرق اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے۔ 2۔ اہل ظاہر کا موقف محل نظر ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا حرام ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علمائے کے نزدیک اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی قوت و نشاط پر موقوف ہے اور یہ حالات واشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري:122/9)
بعض حضرات کا خیال ہے قرآن کریم کو کم ازکم چالیس دنوں میں ضرور پڑھنا چاہیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں مدت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ جس قدر آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو۔ اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ جز معین کی کوئی تحدید نہیں اور نہ اس کے وقت ہی کا تعین ہے۔واللہ اعلم۔(فتح الباری:9/119)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”ہر مہینے میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کی: مجھ سے تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم سات راتوں میں قرآن مجید ختم کیا کرو، اس سے زیادہ نہ پڑھو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تقاضا ہے کہ سات دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے حالانکہ اسلاف سے کم مدت میں ختم کرنا منقول ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ حکم مخاطب کے ضعف اور عجز کے اعتبار سے ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ نہی تحریم کے لیے نہ ہو جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یہ بات حدیث کے تمام طرق اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے۔ 2۔ اہل ظاہر کا موقف محل نظر ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا حرام ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علمائے کے نزدیک اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی قوت و نشاط پر موقوف ہے اور یہ حالات واشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري:122/9)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے ”: قرآن سے جو آسان ہو اسے پڑھو“۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبید اللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں شیبان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں بنی زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبد الرحمن نے، انہیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے، یحییٰ نے کہا اور میں خیال کرتا ہوں شاید میں نے یہ حدیث خود ابو سلمہ سے سنی ہے۔ بلا واسطہ (محمد بن عبدالرحمن کے) خیر ابوسلمہ نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہر مہینے میں قرآن کا ایک ختم کیا کرو میں نے عرض کیا مجھ کو تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا سات راتوں میں ختم کیا کر اس سے زیادہ مت پڑھ۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی ختم قرآن کی مدت معین کی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated `Abdullah bin `Amr (RA): Allah's Messenger (ﷺ) said to me, "Recite the whole Qur'an in one month's time." I said, "But I have power (to do more than that)." Allah's Messenger (ﷺ) said, "Then finish the recitation of the Qur'an in seven days, and do not finish it in less than this period".