باب:اس شخص کی دلیل جس نے کہا کہ دو سال کے بعد پھر رضاعت سے حرمت نہ ہو گی۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "No suckling is to be carried on after the baby is two years old.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”پورے دو سال اس شخص کے لیے جو چاہتا ہو کہ رضاعت پوری کرے اور رضاعت کم ہو جب بھی حرمت ثابت ہوتی ہے اور زیادہ ہو جب بھی۔“تشریح:یہ ضروری نہیں کہ پانچ بار چوسے آیت کریمہ (حولین کاملین) (البقرۃ:233)لاکر حضرت امام بخاری نے حنفیوں کا رد کیا ہے جو رضاعت کی مدت اڑھائی برس تک بتلاتے ہیں۔حنفی حضرات کہتے ہیں کہ دوسری آیت میں (حملہ و فصالہ ثلاثوں شھر) (الاحقاف:15)آیا ہے (اس کا حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہیں)اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں حمل کی اقل مدت چھ مہینے اور فصال کی چوبیس مہینے دونوں کی مدت تیس مہینے مذکور ہے یہ نہیں کہ حمل کی مدت تیس مہینے ہوئے فصال کی تیس مہینے جیسا تم نے سمجھا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری آیت میں(لمن ارادان یتم الرضاعۃ) (البقرہ:233) آیا ہے تو رضاعت کی اکثر سے اکثر مدت دو برس ہوگی اور کم مدت پونے دو برس ہیں حمل کی مدت نو مہینے جملہ تیس مہینے ہوئے اور رضاعت قلیل ہو یا کثیر اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی یہ ضروری نہیں ہے پانچ بار دودھ چوسے امام حنیفہ اور امام مالک ؓاور اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن امام شافعی اور امام احمد اور اسحاق اور ابن حزم اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ حرمت کے لئے کم سے کم پانچ بار دودھ چوسنا ضروری ہے ان کی دلیل حضرت عائشہؓ کی صحیح حدیث ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ قرآن میں اخیر حکم پانچ بار دودھ چوسنے کا تھا دوسری حدیث میں ہے کہ ایک بار یا دو بار چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
5102.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کے پاس ایک آدمی تھا۔ یہ دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر سا ہو گیا، گویا آپ نے اس کی موجودگی کو برا محسوس کیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”خوب غور کیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں؟ رضاعت تو بھوک سے ثابت ہوتی ہے۔“
تشریح:
(1) دودھ کا رشتہ اس وقت قائم ہوتا ہے جب صغر بچپن، یعنی بالکل ہی چھوٹی عمر میں دودھ پیا جائے اس کی مدت قرآن کریم نے دوسال بیان کی ہے، یعنی اس رضاعت کا اعتبار کیا جائے گا جو بچے کو دوسرے ہر قسم کے کھانے سے بے نیاز کر دے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رضاعت وہ ہے جو ہڈی کو مضبوط کرے اور گوشت پیدا کرے۔(سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2059) یعنی وہ دودھ رضاعت کی حرمت کا باعث ہوگا جو گوشت پیدا کرے، اس سے ہڈیاں مضبوط ہوں اور وہ جسم کا حصہ بنے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مدتِ رضاعت دو سال ہے اور وہ اس سے وقت معتبر ہوگی جب بھوک کو مٹائے اور گوشت کو پیدا کرے، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ رضاعت حرمت کا سبب ہوگی جو بچے کی انتڑیوں کے کھلنے کا باعث ہو اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے پہلے ہو۔‘‘(جامع الترمذي، الرضاع، حديث: 1152)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4905
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5102
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5102
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5102
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
یہ عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے جو حسب ذیل ہیں:٭ مدت رضاعت دوسال ہے اس کے بعد رضاعت کا اعتبار نہیں۔٭ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ قران کریم نے تین مقام پر مدت رضاعت کا ذکر کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا بچہ پوری مدت دودھ پیے تو مائیں بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں۔"(البقرة: 2/233) اس آیت میں وضاحت ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت رضاعت دوسال ہے،اس سے کم مدت کی رضاعت بھی ہوسکتی ہے۔دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اور دوسال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے۔"(لقمان: 31/14) اس میں بھی مدت رضاعت کا بیان ہے کہ وہ دوسال ہے۔ تیسرے مقام پر فرمایا: " اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔"(الاحقاف: 46/15) سورۂ بقرہ میں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال بیان ہوئی تھی،یہاں حمل اور رضاعت کی مدت30 ماہ فرمائی، گویا حمل کی کم ازکم مدت چھ ماہ ہوئی،اس سے کم کا حمل نہیں ہوتا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: کسی رضاعت کا اعتبار نہیں سوائے اس رضاعت کے جو دوسال کے دوران میں ہو۔(السنن الكبريٰ للبيهقي: 7/442) اس عنوان کا دوسرا جز یہ ہے کہ رضاعت تھوڑی ہویا زیادہ اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن کریم نے مطلق رضاعت کا اعتبار کیا ہے۔لیکن یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دودفعہ دودھ چوسنے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔"(صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3590 (1450))دیگر احادیث میں وضاحت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قرآن میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ کم ازکم یقینی طور پر دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ہوتی تھی،یہ حکم یقینی طور پر پانچ مرتبہ پینے سے منسوخ ہوگیا۔(صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3597 (1452))نیز حضرت سہلہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ اس نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو پانچ مرتبہ دودھ پلایا تو وہ اس کے بچے کی جگہ ہوگیا۔(سنن ابي داود، النكاح، حديث: 2061)واضح رہے کہ ایک دفعہ دودھ پینے سے مراد یہ ہے کہ جب بچہ اپنی ماں کا پستان منہ میں لے کر چوسنا شروع کردے اور پھر کسی عارضے کے بغیر اپنی مرضی سے چھوڑدے تو یہ ایک دفعہ دودھ پینا ہے۔رضاعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دودھ موجود ہو اور بچے کا اسے پینا بھی یقینی ہو،خالی پستان منہ میں ڈالنے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”پورے دو سال اس شخص کے لیے جو چاہتا ہو کہ رضاعت پوری کرے اور رضاعت کم ہو جب بھی حرمت ثابت ہوتی ہے اور زیادہ ہو جب بھی۔“تشریح:یہ ضروری نہیں کہ پانچ بار چوسے آیت کریمہ (حولین کاملین) (البقرۃ:233)لاکر حضرت امام بخاری نے حنفیوں کا رد کیا ہے جو رضاعت کی مدت اڑھائی برس تک بتلاتے ہیں۔حنفی حضرات کہتے ہیں کہ دوسری آیت میں (حملہ و فصالہ ثلاثوں شھر) (الاحقاف:15)آیا ہے (اس کا حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہیں)اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں حمل کی اقل مدت چھ مہینے اور فصال کی چوبیس مہینے دونوں کی مدت تیس مہینے مذکور ہے یہ نہیں کہ حمل کی مدت تیس مہینے ہوئے فصال کی تیس مہینے جیسا تم نے سمجھا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری آیت میں(لمن ارادان یتم الرضاعۃ) (البقرہ:233) آیا ہے تو رضاعت کی اکثر سے اکثر مدت دو برس ہوگی اور کم مدت پونے دو برس ہیں حمل کی مدت نو مہینے جملہ تیس مہینے ہوئے اور رضاعت قلیل ہو یا کثیر اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی یہ ضروری نہیں ہے پانچ بار دودھ چوسے امام حنیفہ اور امام مالک ؓاور اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن امام شافعی اور امام احمد اور اسحاق اور ابن حزم اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ حرمت کے لئے کم سے کم پانچ بار دودھ چوسنا ضروری ہے ان کی دلیل حضرت عائشہؓ کی صحیح حدیث ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ قرآن میں اخیر حکم پانچ بار دودھ چوسنے کا تھا دوسری حدیث میں ہے کہ ایک بار یا دو بار چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کے پاس ایک آدمی تھا۔ یہ دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر سا ہو گیا، گویا آپ نے اس کی موجودگی کو برا محسوس کیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”خوب غور کیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں؟ رضاعت تو بھوک سے ثابت ہوتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دودھ کا رشتہ اس وقت قائم ہوتا ہے جب صغر بچپن، یعنی بالکل ہی چھوٹی عمر میں دودھ پیا جائے اس کی مدت قرآن کریم نے دوسال بیان کی ہے، یعنی اس رضاعت کا اعتبار کیا جائے گا جو بچے کو دوسرے ہر قسم کے کھانے سے بے نیاز کر دے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رضاعت وہ ہے جو ہڈی کو مضبوط کرے اور گوشت پیدا کرے۔(سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2059) یعنی وہ دودھ رضاعت کی حرمت کا باعث ہوگا جو گوشت پیدا کرے، اس سے ہڈیاں مضبوط ہوں اور وہ جسم کا حصہ بنے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مدتِ رضاعت دو سال ہے اور وہ اس سے وقت معتبر ہوگی جب بھوک کو مٹائے اور گوشت کو پیدا کرے، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ رضاعت حرمت کا سبب ہوگی جو بچے کی انتڑیوں کے کھلنے کا باعث ہو اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے پہلے ہو۔‘‘(جامع الترمذي، الرضاع، حديث: 1152)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”پورے دو سال کی مدت اس شخص کے لیے ہے جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہتا ہو۔“ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث نے، ان سے اس کے دادا نے، ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے یہا ں ایک مرد بیٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ کے چہر ے کا رنگ بدل گیا گویا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے دودھ والے بھائی ہیں آپ نے فرمایا دیکھوسوچ سمجھ کر کہو کون تمہارا بھائی ہے۔
حدیث حاشیہ:
شاید وہ ابو قعیس کا کوئی بیٹا ہو جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضائی باپ تھا اور جس نے یہ مرد عبید اللہ بن یزید بتلایا ہے، اس نے غلط کہا۔ وہ بالاتفاق تابعین میں سے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : that the Prophet (ﷺ) entered upon her while a man was sitting with her. Signs of anger seemed to appear on his face as if he disliked that. She said, "Here is my (foster) brother." He said, "Be sure as to who is your foster brother, for foster suckling relationship is established only when milk is the only food of the child."