باب: عورت کا اپنے آپ کو کسی صالح مرد کے نکاح کے لیے پیش کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: A woman can present herself to a righteous man (for marriage))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5121.
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ کو اپنے نفس کی پیش کش کی۔ ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اللہ کے رسول! مجھ سے اس کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟“ اس نے کہا : میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کی: اللہ کی قسم! مجھے تو کچھ نہیں ملا اور نہ لوہے کی انگوٹھی ہی دستیاب ہوئی ہے، البتہ یہ میرا تہبند ہے، اس میں سے نصف دے دیں۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس تہبند کو کیا کرے گی؟“ اگر تو نے اسے پہنا تو اس پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر اس نے پہنا تو تیرے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا اور تادیر بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگا تو نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا یا اسے بلایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے آپ ﷺ سے کہا: مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ اس نے چند سورتوں کو شمار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم نے تجھے اس کا مالک بنا دیا اس وجہ سے جو تجھے قرآن یاد ہے، یعنی اسے سورتوں کی تعلیم دو۔“
تشریح:
(1) امام بخاري رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بھی عورت کا خود کو نیک مرد پر پیش کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ وہ اس سے نکاح کرے جبکہ وہ اس کی بزرگی اور صلاحیت میں رغبت رکھتی ہو۔ اس میں کوئی عار والی بات نہیں ہے۔ (2) دنیوی غرض کی وجہ سے ایسا کرنا بے حیائی اور بے شرمی ہے۔ اگرچہ کسی عورت کا خود کو بطور ہبہ پیش کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے لیکن اس حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی نیک آدمی اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ بہرحال ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر بزرگ آدمی نکاح میں دلچسپی رکھے تو اس سے نکاح کرے۔ اگر نکاح کی رغبت نہ ہو تو خاموش رہے۔ صراحت کے ساتھ جواب دے کر عورت کی حوصلہ شکنی نہ کرے۔ (فتح الباری)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4922
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5121
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5121
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5121
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ کو اپنے نفس کی پیش کش کی۔ ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اللہ کے رسول! مجھ سے اس کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟“ اس نے کہا : میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کی: اللہ کی قسم! مجھے تو کچھ نہیں ملا اور نہ لوہے کی انگوٹھی ہی دستیاب ہوئی ہے، البتہ یہ میرا تہبند ہے، اس میں سے نصف دے دیں۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس تہبند کو کیا کرے گی؟“ اگر تو نے اسے پہنا تو اس پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر اس نے پہنا تو تیرے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا اور تادیر بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگا تو نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا یا اسے بلایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے آپ ﷺ سے کہا: مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ اس نے چند سورتوں کو شمار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم نے تجھے اس کا مالک بنا دیا اس وجہ سے جو تجھے قرآن یاد ہے، یعنی اسے سورتوں کی تعلیم دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاري رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بھی عورت کا خود کو نیک مرد پر پیش کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ وہ اس سے نکاح کرے جبکہ وہ اس کی بزرگی اور صلاحیت میں رغبت رکھتی ہو۔ اس میں کوئی عار والی بات نہیں ہے۔ (2) دنیوی غرض کی وجہ سے ایسا کرنا بے حیائی اور بے شرمی ہے۔ اگرچہ کسی عورت کا خود کو بطور ہبہ پیش کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے لیکن اس حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی نیک آدمی اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ بہرحال ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر بزرگ آدمی نکاح میں دلچسپی رکھے تو اس سے نکاح کرے۔ اگر نکاح کی رغبت نہ ہو تو خاموش رہے۔ صراحت کے ساتھ جواب دے کر عورت کی حوصلہ شکنی نہ کرے۔ (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ سے نکاح کے لئے پیش کیا۔ پھر ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ! ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس (مہر کے لئے) کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور تلاش کرو، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم، میں نے کوئی چیز نہیں پائی۔ مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ یہ میرا تہمد میرے پاس ہے اس کا آدھا انہیں دے دیجئے۔ حضرت سہل ؓ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ مگر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہبند کا کیا کرے گی، اگر یہ اسے پہن لے گی تو یہ اس قدر چھوٹا کپڑا ہے کہ پھر تو تمہارے لئے اس میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا اور اگر تم پہنو گے تو اس کے لئے کچھ نہیں رہے گا۔ پھر وہ صاحب بیٹھ گئے، دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد اٹھے (اور جانے لگے) تو آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھا اور بلایا، یا انہیں بلایا گیا (راوی کو ان الفاظ میں شک تھا) پھر آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں چند سورتیں انہوں نے گنائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے نکاح میں اس کو اس قرآن کے بدلے دے دیا جو تمہیں یاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
جو سورتیں تم کو یاد ہیں ان کو بھی یاد کرا دینا۔ تمہارا یہی مہر ہے۔ حنفیہ نے کہا ہے کہ قرآن کی سورتوں کا یاد کرا دینا مہر نہیں قرار پا سکتا مگر یہ قول سراسر حدیث ہذا کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA) : A woman presented herself to the Prophet (ﷺ) (for marriage). A man said to him, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (If you are not in need of her) marry her to me." The Prophet (ﷺ) said, "What have you got?" The man said, "I have nothing." The Prophet (ﷺ) said (to him), "Go and search for something) even if it were an iron ring." The man went and returned saying, "No, I have not found anything, not even an iron ring; but this is my (Izar) waist sheet, and half of it is for her." He had no Rida' (upper garment). The Prophet (ﷺ) said, "What will she do with your waist sheet? If you wear it, she will have nothing over her; and if she wears it, you will have nothing over you." So the man sat down and when he had sat a long time, he got up (to leave). When the Prophet (ﷺ) saw him (leaving), he called him back, or the man was called (for him), and he said to the man, "How much of the Qur'an do you know (by heart)?" The man replied I know such Sura and such Sura (by heart)," naming the Suras The Prophet (ﷺ) said, "I have married her to you for what you know of the Qur'an "