Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: (It is permissible) to look at a woman before marrying.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5126.
سیدنا سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں خود کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اپنی نظر کو اس کی طرف اونچا کیا، پھر اسے نیچا کرلیا پھر سر مبارک جھکا لہا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ نےاس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ شاید کوئی چیز مل جائے۔“ وہ دوبارہ گیا اور وآپس آکر کہا: اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میرا تہبند حاضر ہے۔ ۔ ۔ سیدنا سہل ؓ کہتے ہیں کہ اس کے پاس اوڑھنے کی چارد بھی نہ تھی۔ ۔ ۔ اس آدمی نے کہا: اس خاتون کو اس تہبند سے نصف دے دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”وہ تیرے تہبند کو کیا کرے گی؟ اگر تو اسے پہنے گا تو اس کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ اسے پہنے گی تو اس سے تجھ پر کچھ نہیں ہوگا“ اس کے بعد وہ بیٹھ گیا اور دیر تک وہاں براجمان رہا، پھر اٹھ کر چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے وآپس جاتے ہوئے دیکھا۔ آخر کا آپ نے حکم دیا اور اسے بلالیا گیا۔ جب وہ حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟اس نے عرض کی: فلاں فلاں اور فلاں سورت مجھے یاد ہے، اس نے ان سورتوں کو شمار کیا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لیتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں آپنے فرمایا: ”جاؤ، میں نے اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے اس خاتون کا عقد تجھ سے کر دیا ہے۔“
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل اخذ کیے ہیں۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب اس خاتون نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا تو آپ نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اپنی نظر مبارک اٹھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے پیش نظر اجنبی عورت کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن بلا وجہ اجنبی عورت کو دیکھنے کی سخت ممانعت ہے۔ (2) ایک دوسرے انداز سے بھی عنوان کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شخص نے اس عورت کو دیکھا اور پسند کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ حضرات نکاح سے پہلے اپنی منگیتر کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ وہ اجنبی ہے اور اجنبی کو دیکھنا جائز نہیں لیکن مذکورہ احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 228/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4927
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5126
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5126
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5126
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
جس عورت سے نکاح کرنا ہو اسے نکاح سے پہلے ایک نظر دیکھ لینا جائز ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: "کیا تونے اسے دیکھا ہے؟"انھوں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا:" اسے دیکھ لو،امید ہے کہ ایسا کرنے سے تمہارے درمیان الفت پیدا ہو۔"(مسند احمد: 4/245)٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح بھیجے اگر ممکن ہوتو اس سے وہ کچھ دیکھ لے جو اس کے لیے نکاح کا باعث ہو۔"(سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2082) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کے دل میں کسی عورت کو پیغام نکاح دینے کے متعلق کوئی بات ڈال دے تو پھر اس امر میں کوئی حرج نہیں کہ وہ شخص اسے دیکھ لے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1864)اگر کسی وجہ سے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا ممکن نہ ہوتو کسی قابل اعتماد عورت کو بھیج کر اس کے متعلق معلومات لی جاسکتی ہیں جیسا کہ ہمارے برصغیر میں یہی طریقہ رائج ہے۔والله اعلم
سیدنا سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں خود کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اپنی نظر کو اس کی طرف اونچا کیا، پھر اسے نیچا کرلیا پھر سر مبارک جھکا لہا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ نےاس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ شاید کوئی چیز مل جائے۔“ وہ دوبارہ گیا اور وآپس آکر کہا: اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میرا تہبند حاضر ہے۔ ۔ ۔ سیدنا سہل ؓ کہتے ہیں کہ اس کے پاس اوڑھنے کی چارد بھی نہ تھی۔ ۔ ۔ اس آدمی نے کہا: اس خاتون کو اس تہبند سے نصف دے دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”وہ تیرے تہبند کو کیا کرے گی؟ اگر تو اسے پہنے گا تو اس کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ اسے پہنے گی تو اس سے تجھ پر کچھ نہیں ہوگا“ اس کے بعد وہ بیٹھ گیا اور دیر تک وہاں براجمان رہا، پھر اٹھ کر چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے وآپس جاتے ہوئے دیکھا۔ آخر کا آپ نے حکم دیا اور اسے بلالیا گیا۔ جب وہ حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟اس نے عرض کی: فلاں فلاں اور فلاں سورت مجھے یاد ہے، اس نے ان سورتوں کو شمار کیا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لیتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں آپنے فرمایا: ”جاؤ، میں نے اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے اس خاتون کا عقد تجھ سے کر دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل اخذ کیے ہیں۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب اس خاتون نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا تو آپ نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اپنی نظر مبارک اٹھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے پیش نظر اجنبی عورت کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن بلا وجہ اجنبی عورت کو دیکھنے کی سخت ممانعت ہے۔ (2) ایک دوسرے انداز سے بھی عنوان کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شخص نے اس عورت کو دیکھا اور پسند کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ حضرات نکاح سے پہلے اپنی منگیتر کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ وہ اجنبی ہے اور اجنبی کو دیکھنا جائز نہیں لیکن مذکورہ احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 228/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نظر نیچی کرلی اورسر کو جھکا لیا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد آپ کے صحابہ میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں تو ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ نہیں یارسول اللہ! اللہ کی قسم، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو شاید کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! میں نے کوئی چیز نہیں پائی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور دیکھ لو، اگر ایک لوہے کی انگو ٹھی بھی مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا یارسول اللہ! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ یہ میرا تہبند ہے۔ سہل ؓ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی (ان صحابی نے کہا کہ) ان خاتون کو اس تہمند میں سے آدھا عنایت فرما دیجئے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے تہمد کا کیا کرے گی اگر تم اسے پہنو گے تو اس کے لئے اس میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صاحب بیٹھ گئے اور دیر تک بیٹھے رہے پھر کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس جاتے ہوئے دیکھا اور انہیں بلانے کے لئے فرمایا، انہیں بلایا گیا۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے پاس قرآن مجید کتنا ہے۔ انہوں نے عرض کیا فلاں فلاں سورتیں۔ انہوں نے ان سورتوں کو گنایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لےتے ہو۔ انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا جاؤ میں نے اس خاتون کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کی وجہ سے دیا جو تمہارے پاس ہے۔ ان سورتوں کو اس سے یاد کرا دو۔
حدیث حاشیہ:
ان سورتوں کو اسے یاد کرا دو۔ تشریح : اس شخص نے اس عورت کو دیکھ کر اور پسند کر کے نکاح کی خواہش ظاہر کی تھی باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA) : A woman came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have come to you to present myself to you (for marriage)." Allah's Apostle (ﷺ) glanced at her. He looked at her carefully and fixed his glance on her and then lowered his head. When the lady saw that he did not say anything, she sat down. A man from his companions got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If you are not in need of her, then marry her to me." The Prophet (ﷺ) said, "Have you got anything to offer." The man said, 'No, by Allah, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said (to him), "Go to your family and try to find something." So the man went and returned, saying, "No, by Allah, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have not found anything." The Prophet (ﷺ) said, "Go again and look for something, even if it were an iron ring." He went and returned, saying, "No, by Allah, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I could not find even an iron ring, but this is my Izar (waist sheet).' He had no Rida (upper garment). He added, "I give half of it to her." Allah's Apostle (ﷺ) said "What will she do with your Izar? If you wear it, she will have nothing over herself thereof (will be naked); and if she wears it, then you will have nothing over yourself thereof ' So the man sat for a long period and then got up (to leave). When Allah's Apostle (ﷺ) saw him leaving, he ordered that he e called back. When he came, the Prophet (ﷺ) asked (him), "How much of the Qur'an do you know (by heart)?" The man replied, I know such Sura and such Sura and such Sura," naming the suras. The Prophet (ﷺ) said, "Can you recite it by heart?" He said, 'Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Go I let you marry her for what you know of the Qur'an (as her Mahr).