Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Whoever said, "A marriage is not valid except through the Wali.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن» ”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا» ”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم» ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“تشریح:روک رکھنے کا مطلب نکاح نہ کرنے دینا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روک رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتاان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے بعض علماء نے حدیث لا نکاح الا بولی کو بالغہ اور مجنون عورت کے ساتھ خاص کیا ہے اور ثیبہ یعنی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ میں حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسھا من ولیھا یعنی بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار ہے ۔اہلحدیث اور امام شافعی اور امام م احمد بن حمبل اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی شرط پر ہونے کی وجہ سے نہ لا سکے ہیں ایک ابوموسیٰ کی حدیث کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے ان کو صحیح کہا ابن ماجہ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا آپ نکاح کرے اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے اسی کا نکاح باطل ہے باطل ہے (وحیدی)
5128.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کریمہ ”وہ آیات جو کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت ایسی لڑکی کے متعلق نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کے زیر پرورش ہوتی شاید وہ اس کے مال و جائیداد میں شریک ہوتی اور وہی آدمی لڑکی کا زیادہ حقدار ہوتا جبکہ وہ اس سے رو گردانی کرتا، چنانچہ اس کے مال کے باعث کسی اور اس کا نکاح کرنے سے بھی پہلو تہی کرتا، مبادا کوئی دوسرا اس کے مال میں شریک ہو جائے، اس لیے وہ کسی مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے.
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح منعقد ہونے کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے، اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق زیر پرورش لڑکی کا ولی نہ خود اس کا نکاح کرتا اور نہ کسی دوسرے ہی سے نکاح کرنے دیتا۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے۔ اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو ولی اسے کیونکر روک سکتا تھا، لہٰذا نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے، البتہ ایک حدیث میں ہے: ’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3476 (1421)) یہ حدیث مذکورہ احادیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق شوہر دیدہ کو اپنے خاوند کے متعلق انتخاب کا زیادہ حق دیا گیا ہے، انتخاب کے بعد ولی کی اجازت سے نکاح ہو سکے گا۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4929
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5128
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5128
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5128
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ دراصل ایک حدیث ہے جسے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے،آپ نے فرمایا: "ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔"(سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2085) چونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں تھی،اس لیے حسب عادت اسے عنوان میں بیان کردیا۔اس کے معنی صحیح اور شریعت کی منشا کے مطابق تھے،اس لیے اسے ثابت کرنے کے لیے تین آیات پیش کیں۔پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے سرپرست کو روکا ہے کہ وہ عورتوں کے نکاح میں رکاوٹ نہ بنیں۔اگر عورتیں خود بخود نکاح کرنے کی مجاز ہیں تو سرپرستوں کو اس سے منع کرنے کا کیا مطلب؟اسی طرح دوسری اور تیسری آیت میں نکاح کی نسبت مردوں کی طرف کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے نکاح کا حق ان کے سرپرستوں کو ہے،عورت کو خود اپنا نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔پھر دیگر احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ " آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ استعمال فرمائے۔(سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2083)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی عورت کسی دوسر ی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ وہ اپنا نکاح خود ہی کرے، بلاشبہ وہ عورت بدکار ہے جو اپنا نکاح خود کرلیتی ہے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1882)
کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن» ”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا» ”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم» ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“تشریح:روک رکھنے کا مطلب نکاح نہ کرنے دینا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روک رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتاان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے بعض علماء نے حدیث لا نکاح الا بولی کو بالغہ اور مجنون عورت کے ساتھ خاص کیا ہے اور ثیبہ یعنی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ میں حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسھا من ولیھا یعنی بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار ہے ۔اہلحدیث اور امام شافعی اور امام م احمد بن حمبل اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی شرط پر ہونے کی وجہ سے نہ لا سکے ہیں ایک ابوموسیٰ کی حدیث کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے ان کو صحیح کہا ابن ماجہ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا آپ نکاح کرے اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے اسی کا نکاح باطل ہے باطل ہے (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کریمہ ”وہ آیات جو کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت ایسی لڑکی کے متعلق نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کے زیر پرورش ہوتی شاید وہ اس کے مال و جائیداد میں شریک ہوتی اور وہی آدمی لڑکی کا زیادہ حقدار ہوتا جبکہ وہ اس سے رو گردانی کرتا، چنانچہ اس کے مال کے باعث کسی اور اس کا نکاح کرنے سے بھی پہلو تہی کرتا، مبادا کوئی دوسرا اس کے مال میں شریک ہو جائے، اس لیے وہ کسی مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے.
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح منعقد ہونے کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے، اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق زیر پرورش لڑکی کا ولی نہ خود اس کا نکاح کرتا اور نہ کسی دوسرے ہی سے نکاح کرنے دیتا۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے۔ اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو ولی اسے کیونکر روک سکتا تھا، لہٰذا نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے، البتہ ایک حدیث میں ہے: ’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3476 (1421)) یہ حدیث مذکورہ احادیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق شوہر دیدہ کو اپنے خاوند کے متعلق انتخاب کا زیادہ حق دیا گیا ہے، انتخاب کے بعد ولی کی اجازت سے نکاح ہو سکے گا۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں (اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے) مت روکو۔“ اس حکم میں شوہر دیدہ اور کنواریاں سب شامل ہیں۔ نیز اللہ کا فرمان ہے: تم (اپنی عورتوں کا)مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو حتی کہ وہ (مشرک مرد) ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ہے: ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں تم ان کا نکاح کردو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عر وہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ آیت ﴿وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ﴾ الخ یعنی وہ (آیات بھی) جو تمہیں کتاب کے اندر ان یتیم لڑکوں کے باب میں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ نہیں دیتے ہو جو ان کے لئے مقرر ہو چکا ہے اور اس سے بیزار ہو کہ ان کا کسی سے نکاح کرو ۔ ، ، ایسی یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کی پرورش میں ہو۔ ممکن ہے کہ اس کے مال و جائداد میں بھی شریک ہو، وہی لڑکی کا زیادہ حق دار ہے لیکن وہ اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا البتہ اس کے مال کی وجہ سے اسے روکے رکھتا ہے اور کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیو نکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فر مایا کہ دوسرے سے بھی نکاح نہ کرنے دے تو معلوم ہوا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے، اگر عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی تو ولی اس کو کیونکر روک سکتا پس نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (as regards the Verse): 'And about what is recited unto you in the Book, concerning orphan girls to whom you give not the prescribed portions and yet, whom you desire to marry.' (4.127) This Verse is about the female orphan who is under the guardianship of a man with whom she shares her property and he has more right over her (than anybody else) but does not like to marry her, so he prevents her, from marrying somebody else, lest he should share the property with him.