Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The giving of an orphan girl in marriage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ”اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو“۔ اگر کسی شخص نے یتیم لڑکی کے ولی سے کہا میرا نکاح اس لڑکی سے کر دو پھر ولی ایک گھڑی تک خاموش رہا یا ولی نے یہ پوچھا تیرے پاس کیا کیا جائداد ہے۔ وہ کہنے لگا فلاں فلاں جائیداد یا دونوں خاموش ہو رہے۔ اس کے بعد ولی نے کہا میں نے اس کا نکاح تجھ سے کر دیا تو نکاح جائز ہو جائے گا اس باب میں سہل کی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔تشریح:حضرت سہلؓ کی حدیث اس سے قبل کئی بار گزر چکی ہے اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس مرد کے ایجاب کے بعد دوسری بہت گفتگو کی اور اس کے بعد فرمایا زوجینا کھا بما معک من القرآن باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
5140.
سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا اور عرض کی: اے اماں جان! اس آیت کریمہ کی تفسیر کیا ہے : ”اور تمہں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں نکاح کرلو۔ ۔ ۔ “ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! یہ وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہوتی وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی میں دلچسپی رکھتا۔ (اور اپنے ساتھ نکاح کرلیتا) لیکن اس کے حق مہر میں کمی کر دیتا، اس لیے یتیم بچیوں سے انہیں نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر یہ کہ انہیں پورا پورا حق مہر دیں، نیز بصورت دیگر انہیں نکاح کرنے سے حکم دیا گیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے) فرمایا: اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو اللہ تعالٰی نے ان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: ”لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اللہ تعالٰی تمہیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے اور اس کے بارے میں جو یتیم عورتوں سے متعلق اس کتاب میں پہلے سے سنایا جا چکا ہے۔ جن کے مقررہ حقوق تو تم دیتے نہیں ہو لیکن ان سے نکاح کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہو۔“ اللہ تعالٰی نے انہیں اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ یتیم لڑکی جب خوبصورت اور مالدار ہو تو تم اس کے نکاح، نسب اور حق مہر میں دلچسپی رکھتے ہو اور جب وہ خوبصورت نہ ہو اور کم مالداری کی وجہ سے اس کے متعلق کوئی رغبت نہ ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہو، اور ان کے علاوہ دوسری عورتیں اپنے حبالہ عقد میں لے آتے ہو۔ سیدہ عائشہ نے فرمایا: جیسے وہ عدم رغبت کی صورت میں چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان میں دلچسپی رکھیں توا ن سے نکاح کریں الا یہ کہ ان سے انصاف کریں اور انہیں پورا پورا مہر ادا کریں۔
تشریح:
یتیم لڑکیوں کے سرپرست ان سے نکاح کرنے کے سلسلے میں کئی طرح کی بے انصافیوں کا ارتکاب کرتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء، آیت: 3 میں نوٹس لیا، پھر ان بے انصافیوں سے بچنے کے لیے ایسی یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں نے یہ محتاط رویہ اختیار کیا کہ ان سے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا لیکن یہ رویہ بھی کئی طرح سے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ جس قدر اخوت اور بہتر سلوک انھیں سرپرستوں سے نکاح کرنے میں میسر آسکتا تھا غیروں کے ساتھ نکاح کرنے میں وہ میسر آہی نہ سکتا تھا، بعض دفعہ ان کی زندگی انتہائی تلخ ہو جاتی، اس آخری آیت کے ذریعے سے سرپرستوں کو ان کے زیر کفالت یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کے حق مہر میں کمی نہ کی جائے اور ان سے طے کردہ معاملات بھی ضرور پورے کیے جائیں، پھر دوسرے حقوق جو وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں انھیں بھی ضرور پورا کیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4941
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5140
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5140
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5140
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی کی سرپرستی میں خوبصورت اور مال دار یتیم لڑکی پرورش پاتی تو سرپرست خود اس سے نکاح کرلیتا لیکن حق مہر کے سلسلے میں عدل وانصاف سے کام نہ لیتا۔مذکورہ آیت میں اس قسم کے سرپرستوں کو خطاب کیا گیا ہے کہ اگر تمھیں ڈر ہوکہ تم ان کے حقوق پورے نہیں کرسکو گے تو ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جن کے حقوق تم پورے کر سکتے ہو۔اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے علاوہ دوسرے کو بھی کسی لڑکی کا نکاح کرنے کا حق ہے۔آیت کریمہ میں یتیم لڑکیوں سے عاقلہ بالغہ مراد ہیں اور زمانۂ ماضی کے اعتبار سے انھیں یتیم کہا گیا ہے۔واضح رہے کہ اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دومسئلے بیان کیے ہیں:٭ یتیم لڑکیوں کا نکاح کرنا،اسے آیت کریمہ سے ثابت کیا ہے۔٭ایجاب وقبول کے درمیان کچھ فاصلہ ہوجائے تو یہ نقصان دہ نہیں بشرطیکہ مجلس ایک ہو اور ان میں ولی اور طالب کسی ایسے کام میں مصروف نہ ہو جو اس کی روگردانی پر دلالت کرتا ہو۔ایجاب وقبول کے درمیان فاصلے کی تین صورتیں ہیں:٭طالب کہے کہ میرا فلاں لڑکی سے نکاح کردو لیکن ولی جواب میں کچھ وقت تاخیر کردے۔٭نکاح سے متعلق گفتگو میں مصروف ہوجائے،مثلاً:حق مہر کے متعلق اس سے معلومات حاصل کرنے لگے۔٭ولی اور طالب دونوں کچھ دیر کے لیے خاموش رہیں۔آخرکار ولی کہہ دے کہ میں نے تیرے ساتھ اس کا نکاح کردیا تو ان تینوں صورتوں میں نکاح جائز ہے کیونکہ مجلس ایک ہے اور دونوں میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا جو نکاح کے منافی ہویا ان کی روگردانی پر دلالت کرتا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام مسائل کو حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے ثابت کیا ہے جو پہلے کئی مرتبہ گزرچکی ہے۔
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ”اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو“۔ اگر کسی شخص نے یتیم لڑکی کے ولی سے کہا میرا نکاح اس لڑکی سے کر دو پھر ولی ایک گھڑی تک خاموش رہا یا ولی نے یہ پوچھا تیرے پاس کیا کیا جائداد ہے۔ وہ کہنے لگا فلاں فلاں جائیداد یا دونوں خاموش ہو رہے۔ اس کے بعد ولی نے کہا میں نے اس کا نکاح تجھ سے کر دیا تو نکاح جائز ہو جائے گا اس باب میں سہل کی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔تشریح:حضرت سہلؓ کی حدیث اس سے قبل کئی بار گزر چکی ہے اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس مرد کے ایجاب کے بعد دوسری بہت گفتگو کی اور اس کے بعد فرمایا زوجینا کھا بما معک من القرآن باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا اور عرض کی: اے اماں جان! اس آیت کریمہ کی تفسیر کیا ہے : ”اور تمہں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں نکاح کرلو۔ ۔ ۔ “ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! یہ وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہوتی وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی میں دلچسپی رکھتا۔ (اور اپنے ساتھ نکاح کرلیتا) لیکن اس کے حق مہر میں کمی کر دیتا، اس لیے یتیم بچیوں سے انہیں نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر یہ کہ انہیں پورا پورا حق مہر دیں، نیز بصورت دیگر انہیں نکاح کرنے سے حکم دیا گیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے) فرمایا: اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو اللہ تعالٰی نے ان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: ”لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اللہ تعالٰی تمہیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے اور اس کے بارے میں جو یتیم عورتوں سے متعلق اس کتاب میں پہلے سے سنایا جا چکا ہے۔ جن کے مقررہ حقوق تو تم دیتے نہیں ہو لیکن ان سے نکاح کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہو۔“ اللہ تعالٰی نے انہیں اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ یتیم لڑکی جب خوبصورت اور مالدار ہو تو تم اس کے نکاح، نسب اور حق مہر میں دلچسپی رکھتے ہو اور جب وہ خوبصورت نہ ہو اور کم مالداری کی وجہ سے اس کے متعلق کوئی رغبت نہ ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہو، اور ان کے علاوہ دوسری عورتیں اپنے حبالہ عقد میں لے آتے ہو۔ سیدہ عائشہ نے فرمایا: جیسے وہ عدم رغبت کی صورت میں چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان میں دلچسپی رکھیں توا ن سے نکاح کریں الا یہ کہ ان سے انصاف کریں اور انہیں پورا پورا مہر ادا کریں۔
حدیث حاشیہ:
یتیم لڑکیوں کے سرپرست ان سے نکاح کرنے کے سلسلے میں کئی طرح کی بے انصافیوں کا ارتکاب کرتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء، آیت: 3 میں نوٹس لیا، پھر ان بے انصافیوں سے بچنے کے لیے ایسی یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں نے یہ محتاط رویہ اختیار کیا کہ ان سے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا لیکن یہ رویہ بھی کئی طرح سے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ جس قدر اخوت اور بہتر سلوک انھیں سرپرستوں سے نکاح کرنے میں میسر آسکتا تھا غیروں کے ساتھ نکاح کرنے میں وہ میسر آہی نہ سکتا تھا، بعض دفعہ ان کی زندگی انتہائی تلخ ہو جاتی، اس آخری آیت کے ذریعے سے سرپرستوں کو ان کے زیر کفالت یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کے حق مہر میں کمی نہ کی جائے اور ان سے طے کردہ معاملات بھی ضرور پورے کیے جائیں، پھر دوسرے حقوق جو وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں انھیں بھی ضرور پورا کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہیں کرسکو گے؟ تو (دوسری عورتوں سے) نکاح کرلو“ اور اگر کسی نے سر پرست سے کہا کہ میرا نکاح اس لڑکی سے کردو لڑکی سے کردہ تو ولی کچھ دیر خاموش رہا، یا کہا: تیرے پاس کیا ہۓ؟ اس نے جواب دیا: میرے پاس اتنا اتنا ہے، یا دونوں خاموش رہے پھر اس (سر پرست) نے کہا: میں نے اس سے تیرا نکاح کردیا تو ایسا کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی ﷺ سے مروی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور (دوسری سند) اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ اے ام المؤمنین! اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اسے ﴿مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ﴾ تک کہ اس آیت میں کیا حکم بیان ہوا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا میرے بھانجے! اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم یبان ہوا ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ولی کو اس کے حسن اور اس کے مال کی وجہ سے اس کی طرف توجہ ہو اور وہ اس کا مہر کم کر کے اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح سے ممانعت کی گئی ہے سوائے اس صورت کے کہ وہ ان کے مہر کے بارے میں انصاف کریں (اور اگر انصاف نہیں کر سکتے تو انہیں ان کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ”اور آپ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، سے“ وترغبون تک نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ حکم نازل کیا کہ یتیم لڑکیاں جب صاحب مال اور صاحب جمال ہوتی ہیں تب تو مہر میں کمی کر کے اس سے نکاح کرنا رشتہ لگانا پسند کرتے ہیں اور جب دولت مند ی یا خوبصورتی نہیں رکھتی اس وقت اس کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کر دیتے ہیں (یہ کیا بات) ان کو چاہئے کہ جیسے مال و دولت اور حسن و جمال نہ ہونے کی صورت میں اس کو چھوڑ دیتے ہیں ایسے ہی اس وقت بھی چھوڑ دیں جب وہ مالدا ر اور خوبصورت ہو البتہ اگر انصاف سے چلیں اور اس کا پورا مہر مقرر کریں تو خیر نکاح کر لیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ursa bin Az-Zubair (RA) : that he asked 'Aisha (RA), saying to her, "O Mother! (In what connection was this Verse revealed): 'If you fear that you shall not be able to deal justly with orphan girls (to the end of the verse) that your right hands possess?" (4.3) Aisha (RA) said, "O my nephew! It was about the female orphan under the protection of her guardian who was interested in her beauty and wealth and wanted to marry her with a little or reduced Mahr. So such guardians were forbidden to marry female orphans unless they deal with them justly and give their full Mahr; and they were ordered to marry women other than them." 'Aisha (RA) added, "(Later) the people asked Allah's Apostle, for instructions, and then Allah revealed: 'They ask your instruction concerning the women . . . And yet whom you desire to marry.' (4.127) So Allah revealed to them in this Verse that-if a female orphan had wealth and beauty, they desired to marry her and were interested in her noble descent and the reduction of her Mahr; but if she was not desired by them because of her lack in fortune and beauty they left her and married some other woman. So, as they used to leave her when they had no interest in her, they had no right to marry her if they had the desire to do so, unless they deal justly with her and gave her a full amount of Mahr."