Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: To treat the family in a polite and kind manner)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5189.
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ اپنے شوہروں کے متعلق کوئی چیز مخفی نہ رکھیں گی، چنانچہ پہلی نہ کہا: میرا شوہر ایک دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو، نہ تو وہاں جانے کا راستہ ہموار ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اسے لایا جائے اور نہ وہ گوشت ایسا عمدہ ہے کہ اسے ضرور لایا جائےدوسری نہ کہا: میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک کروں! میں ڈرتی ہوں کہ سب کچھ بیان نہ کرسکوں گی، اس کے باوجود اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے عیب بیان کر سکتی ہوں تیسری نے کہا: میرا شوہر دراز قد کمزور ہے، اگر عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اور اگر خاموش رہوں تو معلق رہوں گی چوتھی نے کہا: میرا خاوند شب تہامہ کی طرح معتدل ہے نہ گرم اور نہ ٹھنڈا۔ اس سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ اکتاہٹ کا اندیشہ پانچویں نہ کہا: میرا شوہر اگر گھر میں آئے تو چیتے کی طرح کا ہے اور اگر باہر جائے تو مثل شیر ہے گھر میں جو چیز چھوڑ جاتا ہے اس کے متعلق باز پرس نہیں کرتا چھٹی نے کہا: میرا شوہر اگر کھانا شروع کرے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے لگتا ہے تو ایک بوند بھی نہیں چھوڑتا۔ اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے میرے کپڑے میں بھی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد معلوم کرے ساتویں نے کہا: میرا خاوند جاہل یا مست ہے، صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے لگا کر اوندھا پڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی ہر بیماری اس میں موجود ہے۔ اگر تو بات کرے تو سر پھوڑ دے یا جسم زخمی کر دے یا دونوں ہی کر گزرے آٹھویں نے کہا: میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے۔ اس کی خوشبو زعفران کی خوشبو ہے نویں نے کہا: میرا خاوند اونچے گھر والا، اس کا شمشیر بند بڑا دراز، بہت راکھ والا اور اس کا گھر محفل خانے کے قریب ہے دسویں نے کہا: میرا خاوند مالک ہے اور مالک کے کیا ہی کہنے! اس سے بہتر کوئی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے اونٹ باڑوں میں جانے والے زیادہ ہیں اور چرا گاہوں میں جانے والے بہت کم ہیں اور چرا گاہوں میں جانے والے بہت کم ہیں۔ جب وہ باجے کی آواز سنتے ہیں تو انہیں اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ گیارھویں نے کہا: میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کے کیا کہنے! اس نے زیورات سے میرے کان بھر دیے۔ مجھے کھلا کھلا کر میرے دونوں بازو چربی سے بھر دیے۔ مجھے اس نے ایسا خوش و خرم رکھا کہ میں خود پسندی اور عجب میں مبتلا ہوں۔ مجھے اس نے ایک ایسے (غریب) گھرانے میں پایا تھا جو بڑی تنگی کے ساتھ چند بکریوں پر گزارا کرتے تھے، وہاں سے مجھے ایسے خوشحال خاندان میں لے آیا کہ مجھے گھوڑوں، اونٹوں اور کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا۔ وہ خوش اخلاق اس قدر ہے کہ میری کسی بات ہر مجھے برا بھلا نہیں کہتا۔ اس کے ہاں میں جب سوتی ہوں تو صبح کر دیتی ہوں جب میں پیتی ہوں تو خوب اطمینان سے سیراب ہو کر پیتی ہوں ابو زرع کی ماں! تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں۔ اس کے بڑے بڑے برتن ہمیشہ بھر پور رہتے ہیں۔ اس کا گھر بھی بہت وسیع ہے۔ ابو زرع کا بیٹا، وہ کیسی شان والا ہے! وہ چھریرے بدن والا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ہے، چھوٹی بکری کے ایک بچے کی دستی سے اس کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ ابو زرع کی بیٹی، اس کے کیا کہنے! وہ اپنے باپ کی فرمانبردار، ماں کی اطاعت گزار، موٹی تازی بھرپور کپڑے زیب تن کرنے والی کہ سوکن کے لیے جلن کا باعث ہے ابو زرع کی لونڈی! وہ بھی بہت شان و شوکت والی ہے۔ گھر کی بات باہر جا کر نہیں کرتی۔ کھانے تک کی چیز بلا اجازت نہیں لیتی اور ہمارا گھر خس و خاشاک سے نہیں بھرتی اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ابو زرع باہر گیا جبکہ دودھ سے برتن بھرئے ہوئے تھے اور ان سے مکھن نکالا جا رہا تھا اس دوران میں اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح تھے اور اس کی کمر کے نیچے دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے کر اس سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک دوسرے شریف مال دار سے نکاح جو عربی گھوڑے پر سواری کرتا اور ہاتھ میں نیزہ پکڑتا تھا۔ اس نے مجھے بہت سی نعمتیں اور ہر قسم کے جانور دیے۔ نیز مال و اسباب میں سے ہر قسم کا جوڑا، جوڑا عطا کیا۔ اس نے یہ بھی کہا: اے ام زرع! تم خود بھی کھاؤ پیو اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی خوب کھلاو پلاؤ۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی تمام عطاؤں کو جمع کروں تو ابو زرع کا چھوٹے سے چھوٹا برتن بھی نہ بھر سکے سیده عائشہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عائشہ! میں بھی تیرے لیے ایسا ہی ہوں جیسا کہ ام زرع کے لیے ابو زرع تھا۔“ (ایک روایت کے مطابق راؤی حدیث) سیدنا ہشام نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”وہ لونڈی ہمارے گھر میں کوڑا کچرا جمع کر کے اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں : کچھ راویوں نے فاتفنح کو نون کے بجائے میم کے ساتھ یعنی فانقمح پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
تشریح:
(1) عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے سلسلے میں حدیث ام زرع بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی افسانوی آمیزش نہیں بلکہ ایک حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، بلکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے، چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’میری تیرے ساتھ وہی حیثیت ہے جو ابو زرع کی ام زرع کے ساتھ تھی۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:اللہ کے رسول!ابو زرع کون تھا؟ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ (السنن الکبریٰ للنسائي: 385/5، رقم: 9139، و فتح البار۱: 318/9) (2) اس واقعے میں دور جاہلیت میں اندرون خانہ کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد تو ابو زرع کے کردار کو نمایاں کرنا ہے کیونکہ عورتوں سے حسن معاشرت کو اسی کردار سے ثابت کیا گیا ہے۔ دراصل عورت ذات اپنے خاوند کے سلسلے میں کچھ بخیل ثابت ہوئی ہے۔ وہ اس کی فدا کاری، جاں نثاری اور وفاداری کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کرتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ اکثر عورتیں جو جہنم کا ایندھن بنیں گی، ان میں یہی ’’ناشکری‘‘ ہوگی لیکن اس حدیث کے مطابق ام زرع نے تو کمال کر دکھایا ہے۔ اس نے ابو زرع کی ہی تعریف نہیں کی بلکہ اس نے ابو زرع کی ماں، ابو زرع کے بیٹے، اس کی بیٹی اور اس کی لونڈی کی بھی خوب خوب تعریف کی ہے۔ ابوزرع کی محبت تو اس کے دل کے نہاں خانے میں اس طرح پیوست ہو چکی تھی کہ طلاق ملنے کے بعد بھی وہ اسے فراموش نہیں کر پائی بلکہ اس کی مہر و وفا کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’محبت تو پہلے حبیب کے لیے ہی ہوتی ہے۔‘‘ (فتح الباري: 341/9) (3) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’اے عائشہ! میں بھی تیرے لیے اسی طرح ہوں جس طرح ام زرع کے لیے ابو زرع تھا،بلکہ میں تو اس سے بڑھ کر ہوں کیونکہ اس نے زندگی کے آخری حصے میں ام زرع کو طلاق دےدی تھی لیکن میں تجھے طلاق نہیں دوں گا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی: اللہ کے رسول!میرے ماں باپ آپ پر فداہوں! میرے لیے آپ کی حیثیت ابو زرع سے بھی بڑھ کر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 164/23، 171، 173، و فتح الباري: 341/9) (4) دل چاہتا ہے کہ اس حدیث کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کروں اور اس میں بیان کردہ بیویوں کے اپنے خاوندوں کے متعلق جذبات کی تشریح کروں لیکن اس وضاحت و تشریح میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے ہم نے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمين
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4988
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5189
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5189
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5189
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ اپنے شوہروں کے متعلق کوئی چیز مخفی نہ رکھیں گی، چنانچہ پہلی نہ کہا: میرا شوہر ایک دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو، نہ تو وہاں جانے کا راستہ ہموار ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اسے لایا جائے اور نہ وہ گوشت ایسا عمدہ ہے کہ اسے ضرور لایا جائےدوسری نہ کہا: میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک کروں! میں ڈرتی ہوں کہ سب کچھ بیان نہ کرسکوں گی، اس کے باوجود اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے عیب بیان کر سکتی ہوں تیسری نے کہا: میرا شوہر دراز قد کمزور ہے، اگر عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اور اگر خاموش رہوں تو معلق رہوں گی چوتھی نے کہا: میرا خاوند شب تہامہ کی طرح معتدل ہے نہ گرم اور نہ ٹھنڈا۔ اس سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ اکتاہٹ کا اندیشہ پانچویں نہ کہا: میرا شوہر اگر گھر میں آئے تو چیتے کی طرح کا ہے اور اگر باہر جائے تو مثل شیر ہے گھر میں جو چیز چھوڑ جاتا ہے اس کے متعلق باز پرس نہیں کرتا چھٹی نے کہا: میرا شوہر اگر کھانا شروع کرے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے لگتا ہے تو ایک بوند بھی نہیں چھوڑتا۔ اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے میرے کپڑے میں بھی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد معلوم کرے ساتویں نے کہا: میرا خاوند جاہل یا مست ہے، صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے لگا کر اوندھا پڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی ہر بیماری اس میں موجود ہے۔ اگر تو بات کرے تو سر پھوڑ دے یا جسم زخمی کر دے یا دونوں ہی کر گزرے آٹھویں نے کہا: میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے۔ اس کی خوشبو زعفران کی خوشبو ہے نویں نے کہا: میرا خاوند اونچے گھر والا، اس کا شمشیر بند بڑا دراز، بہت راکھ والا اور اس کا گھر محفل خانے کے قریب ہے دسویں نے کہا: میرا خاوند مالک ہے اور مالک کے کیا ہی کہنے! اس سے بہتر کوئی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے اونٹ باڑوں میں جانے والے زیادہ ہیں اور چرا گاہوں میں جانے والے بہت کم ہیں اور چرا گاہوں میں جانے والے بہت کم ہیں۔ جب وہ باجے کی آواز سنتے ہیں تو انہیں اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ گیارھویں نے کہا: میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کے کیا کہنے! اس نے زیورات سے میرے کان بھر دیے۔ مجھے کھلا کھلا کر میرے دونوں بازو چربی سے بھر دیے۔ مجھے اس نے ایسا خوش و خرم رکھا کہ میں خود پسندی اور عجب میں مبتلا ہوں۔ مجھے اس نے ایک ایسے (غریب) گھرانے میں پایا تھا جو بڑی تنگی کے ساتھ چند بکریوں پر گزارا کرتے تھے، وہاں سے مجھے ایسے خوشحال خاندان میں لے آیا کہ مجھے گھوڑوں، اونٹوں اور کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا۔ وہ خوش اخلاق اس قدر ہے کہ میری کسی بات ہر مجھے برا بھلا نہیں کہتا۔ اس کے ہاں میں جب سوتی ہوں تو صبح کر دیتی ہوں جب میں پیتی ہوں تو خوب اطمینان سے سیراب ہو کر پیتی ہوں ابو زرع کی ماں! تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں۔ اس کے بڑے بڑے برتن ہمیشہ بھر پور رہتے ہیں۔ اس کا گھر بھی بہت وسیع ہے۔ ابو زرع کا بیٹا، وہ کیسی شان والا ہے! وہ چھریرے بدن والا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ہے، چھوٹی بکری کے ایک بچے کی دستی سے اس کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ ابو زرع کی بیٹی، اس کے کیا کہنے! وہ اپنے باپ کی فرمانبردار، ماں کی اطاعت گزار، موٹی تازی بھرپور کپڑے زیب تن کرنے والی کہ سوکن کے لیے جلن کا باعث ہے ابو زرع کی لونڈی! وہ بھی بہت شان و شوکت والی ہے۔ گھر کی بات باہر جا کر نہیں کرتی۔ کھانے تک کی چیز بلا اجازت نہیں لیتی اور ہمارا گھر خس و خاشاک سے نہیں بھرتی اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ابو زرع باہر گیا جبکہ دودھ سے برتن بھرئے ہوئے تھے اور ان سے مکھن نکالا جا رہا تھا اس دوران میں اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح تھے اور اس کی کمر کے نیچے دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے کر اس سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک دوسرے شریف مال دار سے نکاح جو عربی گھوڑے پر سواری کرتا اور ہاتھ میں نیزہ پکڑتا تھا۔ اس نے مجھے بہت سی نعمتیں اور ہر قسم کے جانور دیے۔ نیز مال و اسباب میں سے ہر قسم کا جوڑا، جوڑا عطا کیا۔ اس نے یہ بھی کہا: اے ام زرع! تم خود بھی کھاؤ پیو اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی خوب کھلاو پلاؤ۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی تمام عطاؤں کو جمع کروں تو ابو زرع کا چھوٹے سے چھوٹا برتن بھی نہ بھر سکے سیده عائشہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عائشہ! میں بھی تیرے لیے ایسا ہی ہوں جیسا کہ ام زرع کے لیے ابو زرع تھا۔“ (ایک روایت کے مطابق راؤی حدیث) سیدنا ہشام نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”وہ لونڈی ہمارے گھر میں کوڑا کچرا جمع کر کے اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں : کچھ راویوں نے فاتفنح کو نون کے بجائے میم کے ساتھ یعنی فانقمح پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے سلسلے میں حدیث ام زرع بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی افسانوی آمیزش نہیں بلکہ ایک حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، بلکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے، چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’میری تیرے ساتھ وہی حیثیت ہے جو ابو زرع کی ام زرع کے ساتھ تھی۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:اللہ کے رسول!ابو زرع کون تھا؟ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ (السنن الکبریٰ للنسائي: 385/5، رقم: 9139، و فتح البار۱: 318/9) (2) اس واقعے میں دور جاہلیت میں اندرون خانہ کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد تو ابو زرع کے کردار کو نمایاں کرنا ہے کیونکہ عورتوں سے حسن معاشرت کو اسی کردار سے ثابت کیا گیا ہے۔ دراصل عورت ذات اپنے خاوند کے سلسلے میں کچھ بخیل ثابت ہوئی ہے۔ وہ اس کی فدا کاری، جاں نثاری اور وفاداری کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کرتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ اکثر عورتیں جو جہنم کا ایندھن بنیں گی، ان میں یہی ’’ناشکری‘‘ ہوگی لیکن اس حدیث کے مطابق ام زرع نے تو کمال کر دکھایا ہے۔ اس نے ابو زرع کی ہی تعریف نہیں کی بلکہ اس نے ابو زرع کی ماں، ابو زرع کے بیٹے، اس کی بیٹی اور اس کی لونڈی کی بھی خوب خوب تعریف کی ہے۔ ابوزرع کی محبت تو اس کے دل کے نہاں خانے میں اس طرح پیوست ہو چکی تھی کہ طلاق ملنے کے بعد بھی وہ اسے فراموش نہیں کر پائی بلکہ اس کی مہر و وفا کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’محبت تو پہلے حبیب کے لیے ہی ہوتی ہے۔‘‘ (فتح الباري: 341/9) (3) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’اے عائشہ! میں بھی تیرے لیے اسی طرح ہوں جس طرح ام زرع کے لیے ابو زرع تھا،بلکہ میں تو اس سے بڑھ کر ہوں کیونکہ اس نے زندگی کے آخری حصے میں ام زرع کو طلاق دےدی تھی لیکن میں تجھے طلاق نہیں دوں گا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی: اللہ کے رسول!میرے ماں باپ آپ پر فداہوں! میرے لیے آپ کی حیثیت ابو زرع سے بھی بڑھ کر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 164/23، 171، 173، و فتح الباري: 341/9) (4) دل چاہتا ہے کہ اس حدیث کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کروں اور اس میں بیان کردہ بیویوں کے اپنے خاوندوں کے متعلق جذبات کی تشریح کروں لیکن اس وضاحت و تشریح میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے ہم نے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمين
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن عبد الرحمن اور علی بن حجر نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی عبد اللہ بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ ؓ سے انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چنانچہ پہلی عورت (نام نامعلوم) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لئے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ 1 دوسری عورت (عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہا ں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی. 2 اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔ 3 تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی) کہنے لگی، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں۔ 4 چوتھی عورت (مہدو بنت ابی ہرومہ) کہنے لگی کہ میراخاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتا ہٹ ہے۔ پانچوں عورت (کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایساہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے 5 اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں (کہ وہ کہاں گئی؟) اتنا بے پرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لئے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے میرے کپڑے ميں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تومعلوم کرے۔ 6 ساتویں عورت (حیی بنت علقمہ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں (کم بخت سے بات کروں تو) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کا م کر ڈالے۔ 7 آٹھویں عورت (یاسر بنت اوس) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبو دار ہے۔ 8 نویں عورت ( نام نامعلوم ) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے وہ قد آور بہادر ہے، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں۔ (غریبوں کو خوب کھلاتا ہے) لوگ جہاں صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھتے ہیں (یعنی پنچائت گھر) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ ۹ دسویں عورت (کبشہ بنت رافع) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھناجائداد والا ہے، جائداد بھی کیسی بڑی جائداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی بہت سارے اونٹ جو جا بجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں۔ 10 جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آوازسنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہوگیا 11 گیارھویں عورت (ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ) کہنے لگی میرا خاوند ابو زرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کر دیا ہے اور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دئيے ہیں مجھے خوب کھلا کر موٹا کر دیا ہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابو زرعہ نے مجھ کو گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے، اتنی بہت جائداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں (میری ساس) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں اس کا توشہ کھانا مال و اسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت (نازک بدن دبلا پتلا) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ 12 ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے ۔ ابو زرعہ کی بيٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری، اپنی ماں کی پیاری (تابع فرمان اطاعت گزار) کپڑا بھر پور پہننے والی (موٹی تازی) سوکن کی جلن13 ابو زرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی (گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی 14 مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے۔ (صبح ہی صبح) ابو زرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دو اناروں سے کھیل رہے تھے (مراد اس کی دونو ں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں) ابو زرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کر لیا جو گھوڑے کا اچھا سوار، عمدہ نیزہ باز ہے، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دے ديے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقرباء کو بھی خوب کھلا پلا تیرے لئے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابو زرعہ نے جوتجھ کو دیا تھا، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی ابوزرعہ کے مال کے سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو ابو زرعہ کی طرح طلاق دینے والا نہیں ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سارا قصہ سنا نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) ! میں بھی تیرے لئے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حضرت سعید بن سلمہ نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے اس میں لونڈی کے ذکر میں الفاظ ولا تملا بیتنا تعشیشا کی جگہ ولاتعشش بیتنا تعشیشا کے لفظ ہیں ( معنی وہی ہیں کہ وہ لو نڈی ہمارے گھر میں کوڑ ا کچڑا رکھ کر اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔ بعضوںنے اسے لفظ عنیق سے پڑھا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوںگے کہ وہ ہم سے کبھی دغا فریب نہیں کرتی ) نیز حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہاکہ ( الفاظ واشرب فاتفخ میں ) بعض لوگوں نے فاتقمح میم کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ 1 مطلب یہ کہ اس کاخاوند بخیل ہے جس سے کچھ فائدے کی امید نہیں دوسرے یہ کہ وہ بد خلق آدمی ہے محض بیکار۔ 2 یا میں ڈرتی ہوں کہ میرے خاوند کو کہیں خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے طلاق دے دے جبکہ میں اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتی۔ 3مگر میرے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ 4نہ طلاق ملے کہ دوسرا خاوند کرلوں نہ اس خاوند سے کوئی سکھ ملنا ہے۔ 5یعنی آیا کہ سورہا گھر گر ہستی سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے۔ یا تو آتے ہی مجھ پر چڑھ بیٹھتاہے نہ کلمہ نہ کلام نہ بوس وکنار۔ 6مطلب یہ ہے کہ بڑا پیٹو ہے مگر میرے لئے نکما۔ 7یعنی اول تو شہوت کم ، عورت کا مطلب پورا نہیں کرتا اس پر بدخوکہ بات کرو تو کاٹ کھانے پر موجود ، مارنے کو ٹنے پر تیار۔ 8 زعفران کا ترجمہ ویسے بامحاورہ کردیا ورنہ زرنب ایک درخت کا چھلکا ہے جو زعفران کی طرح خوشبودار اور رنگ دار ہوتا ہے۔ اس نے اپنے خاوند کی تعریف کی کہ ظاہر ی اور باطنی اس کے دونوں اخلاق بہت اچھے ہیں۔ 9 اس لئے ایسے لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بلاتے ہیں وہاں اس کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔ 10تاکہ مہمان لوگ آئیں تو ان کا گوشت اور دودھ ان کو تیار ملے۔ 11 یہ باجا مہمانوں کے آنے پر خوشی سے بجایا جاتا تھاکہ اونٹ سمجھ جاتے کہ اب ہم مہمانوں کے لئے کاٹے جائیں گے۔ 12 یعنی چھریرے جسم والا نازک کمر والا جو سوتے وقت بستر پر ٹکتی ہے۔ 13کہ سوکن اس کی خوبصورتی اور ادب ولیاقت پر رشک کرکے جلی جاتی ہے۔ 14ہمیشہ گھر کو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا رکھتی ہے الغرض سارا گھر نور علیٰ نور ہے۔ ابو زرعہ سے لے کر اس کی ماں بیٹی بیٹا لونڈی باندی سب فرد فرید ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Eleven women sat (at a place) and promised and contracted that they would not conceal anything of the news of their husbands. The first one said, "My husband is like the meat of a lean weak camel which is kept on the top of a mountain which is neither easy to climb, nor is the meat fat, so that one might put up with the trouble of fetching it." The second one said, "I shall not relate my husband's news, for I fear that I may not be able to finish his story, for if I describe him, I will mention all his defects and bad traits." The third one said, "My husband is a tall man; if I describe him (and he hears of that) he will divorce me, and if I keep quiet, he will neither divorce me nor treat me as a wife." The fourth one said, "My husband is a moderate person like the night of Tihama which is neither hot nor cold. I am neither afraid of him, nor am I discontented with him." The fifth one said, "My husband, when entering (the house) is a leopard, and when going out, is a lion. He does not ask about whatever is in the house." The sixth one said, "If my husband eats. he eats too much (leaving the dishes empty), and if he drinks he leaves nothing, and if he sleeps he sleeps alone (away from me) covered in garments and does not stretch his hands here and there so as to know how I fare (get along)." The seventh one said, "My husband is a wrong-doer or weak and foolish. All the defects are present in him. He may injure your head or your body or may do both." The eighth one said, "My husband is soft to touch like a rabbit and smells like a Zarnab (a kind of good smelling grass)." The ninth one said, "My husband is a tall generous man wearing a long strap for carrying his sword. His ashes are abundant and his house is near to the people who would easily consult him." The tenth one said, "My husband is Malik, and what is Malik? Malik is greater than whatever I say about him. (He is beyond and above all praises which can come to my mind). Most of his camels are kept at home (ready to be slaughtered for the guests) and only a few are taken to the pastures. When the camels hear the sound of the lute (or the tambourine) they realize that they are going to be slaughtered for the guests." The eleventh one said, "My husband is Abu Zar and what is Abu Zar (i.e., what should I say about him)? He has given me many ornaments and my ears are heavily loaded with them and my arms have become fat (i.e., I have become fat). And he has pleased me, and I have become so happy that I feel proud of myself. He found me with my family who were mere owners of sheep and living in poverty, and brought me to a respected family having horses and camels and threshing and purifying grain . Whatever I say, he does not rebuke or insult me. When I sleep, I sleep till late in the morning, and when I drink water (or milk), I drink my fill. The mother of Abu Zar and what may one say in praise of the mother of Abu Zar? Her saddle bags were always full of provision and her house was spacious. As for the son of Abu Zar, what may one say of the son of Abu Zar? His bed is as narrow as an unsheathed sword and an arm of a kid (of four months) satisfies his hunger. As for the daughter of Abu Zar, she is obedient to her father and to her mother. She has a fat well-built body and that arouses the jealousy of her husband's other wife. As for the (maid) slave girl of Abu Zar, what may one say of the (maid) slavegirl of Abu Zar? She does not uncover our secrets but keeps them, and does not waste our provisions and does not leave the rubbish scattered everywhere in our house." The eleventh lady added, "One day it so happened that Abu Zar went out at the time when the milk was being milked from the animals, and he saw a woman who had two sons like two leopards playing with her two breasts. (On seeing her) he divorced me and married her. Thereafter I married a noble man who used to ride a fast tireless horse and keep a spear in his hand. He gave me many things, and also a pair of every kind of livestock and said, 'Eat (of this), O Um Zar, and give provision to your relatives." She added, "Yet, all those things which my second husband gave me could not fill the smallest utensil of Abu Zar's." 'Aisha (RA) then said: Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "I am to you as Abu Zar was to his wife Um Zar."