باب: اس بیان میں کہ گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے (یعنی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: As-Salat (the prayers) is expiation (of sins))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
525.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: تم میں سے کس کو فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بلاشبہ تم ہی اس قسم کی بات کرنے کے متعلق جراءت کر سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: (آپ نے فرمایا تھا: ) انسان کا وہ فتنہ جو اس کے گھر بار، مال و اولاد اور اس کے ہمسایوں میں ہوتا ہے، اسے تو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا مقصد اس قسم کے فتنے کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ میں اس فتنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس فتنے سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کھولا جائے یا توڑا جائے گا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: وہ توڑا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر ؓ گویا ہوئے: تو پھر کبھی بند نہ ہو گا۔ ہم لوگوں نے (حضرت حذیفہ ؓ سے) کہا: آیا حضرت عمر ؓ دروازے کو جانتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! جیسے کل آنے والے دن سے پہلے رات آتی ہے۔ میں نے ان سے ایسی حدیث بیان کی جو چیستان نہ تھی۔ ہم لوگ حضرت حذیفہ ؓ سے اس دروازے کے متعلق سوال کرنے سے مرعوب تھے، لہذا ہم نے (اپنے ساتھی) مسروق سے کہا، چنانچہ انھوں نے حذیفہ ؓ سے دروازے کی بابت پوچھا تو انھوں نے فرمایا: وہ دروازہ خود حضرت عمر ؓ تھے۔
تشریح:
(1)أغاليط، أغلوطة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے کسی دوسرے کو مغالطے میں ڈالا جا سکے۔ اس سے حضرت حذیفہ ؓ کا مقصود یہ تھا کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی سچی اور کھری باتیں سنا رہا ہوں، اپنی رائے یا اجتہاد سے کوئی بات بنا کر تمھیں کسی مغالطےمیں نہیں ڈالنا چاہتا۔ واقعی حضرات صحابۂ کرام کی یہ شان تھی رضی اللہ عنہم۔ (2) اہل وعیال کے متعلق فتنے سے یہ مراد ہے کہ اپنے اہل خانہ کی خاطر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کیا جائے جو شرعا جائز نہ ہو۔ اولاد کے فتنے سے مراد ان کی محبت میں مبتلا ہو کر کارہائے خیر سے محروم رہنا ہے۔ مال کے فتنے سے مراد حرام ذرائع سے اس کا حصول اور غلط مصرف پر اس کا استعمال کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾’’تمھاری اولاد اور تمھارے مال تمھارے لیے باعث فتنہ ہیں۔‘‘(التغابن:64: 15) (3) احادیث کی روشنی میں گناہوں کے معاف ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ وضو کرنے سے دھل جاتے ہیں، ان سے بڑے مسجد کی طرف نماز کی نیت سے آنے کی بنا پر معاف ہو جاتے ہیں، پھر پابندئ اوقات اور رعایت خشوع سے نماز پڑھنے کی بدولت گناہ ختم ہوجاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نماز سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوں گے، کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًاظ﴾’’ ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ پیش کرو۔‘‘(التحریم: 66 :8) اگر صرف نماز ادا کرنے اور دیگر اعمال خیر بجا لانے سے ہی تمام صغیرہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہوں تو توبہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے جس کی طرف باری تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
521
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
525
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
525
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
525
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
نماز اور اوقات نماز کی اہمیت و ضرورت بیان کرنے کے بعد اس کے ثمرات وفوائد سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ اس پاکیزہ عمل سے گناہ دھل جاتے ہیں۔اگر کسی کے گناہ نہیں ہیں تو نماز رفع درجات کا باعث ہو گی۔اگرچہ دوسری عبادات بھی کفارہ بننے کی شان رکھتی ہیں،تاہم دیگر عبادات کے مقابلے میں نماز کو اولیت حاصل ہے اور اس میں سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: تم میں سے کس کو فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بلاشبہ تم ہی اس قسم کی بات کرنے کے متعلق جراءت کر سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: (آپ نے فرمایا تھا: ) انسان کا وہ فتنہ جو اس کے گھر بار، مال و اولاد اور اس کے ہمسایوں میں ہوتا ہے، اسے تو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا مقصد اس قسم کے فتنے کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ میں اس فتنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس فتنے سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کھولا جائے یا توڑا جائے گا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: وہ توڑا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر ؓ گویا ہوئے: تو پھر کبھی بند نہ ہو گا۔ ہم لوگوں نے (حضرت حذیفہ ؓ سے) کہا: آیا حضرت عمر ؓ دروازے کو جانتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! جیسے کل آنے والے دن سے پہلے رات آتی ہے۔ میں نے ان سے ایسی حدیث بیان کی جو چیستان نہ تھی۔ ہم لوگ حضرت حذیفہ ؓ سے اس دروازے کے متعلق سوال کرنے سے مرعوب تھے، لہذا ہم نے (اپنے ساتھی) مسروق سے کہا، چنانچہ انھوں نے حذیفہ ؓ سے دروازے کی بابت پوچھا تو انھوں نے فرمایا: وہ دروازہ خود حضرت عمر ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1)أغاليط، أغلوطة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے کسی دوسرے کو مغالطے میں ڈالا جا سکے۔ اس سے حضرت حذیفہ ؓ کا مقصود یہ تھا کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی سچی اور کھری باتیں سنا رہا ہوں، اپنی رائے یا اجتہاد سے کوئی بات بنا کر تمھیں کسی مغالطےمیں نہیں ڈالنا چاہتا۔ واقعی حضرات صحابۂ کرام کی یہ شان تھی رضی اللہ عنہم۔ (2) اہل وعیال کے متعلق فتنے سے یہ مراد ہے کہ اپنے اہل خانہ کی خاطر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کیا جائے جو شرعا جائز نہ ہو۔ اولاد کے فتنے سے مراد ان کی محبت میں مبتلا ہو کر کارہائے خیر سے محروم رہنا ہے۔ مال کے فتنے سے مراد حرام ذرائع سے اس کا حصول اور غلط مصرف پر اس کا استعمال کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾’’تمھاری اولاد اور تمھارے مال تمھارے لیے باعث فتنہ ہیں۔‘‘(التغابن:64: 15) (3) احادیث کی روشنی میں گناہوں کے معاف ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ وضو کرنے سے دھل جاتے ہیں، ان سے بڑے مسجد کی طرف نماز کی نیت سے آنے کی بنا پر معاف ہو جاتے ہیں، پھر پابندئ اوقات اور رعایت خشوع سے نماز پڑھنے کی بدولت گناہ ختم ہوجاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نماز سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوں گے، کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًاظ﴾’’ ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ پیش کرو۔‘‘(التحریم: 66 :8) اگر صرف نماز ادا کرنے اور دیگر اعمال خیر بجا لانے سے ہی تمام صغیرہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہوں تو توبہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے جس کی طرف باری تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا، اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان ؓ سے سنا۔ حذیفہ ؓ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر ؓ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے (اسی طرح یاد رکھا ہے) جیسے آنحضور ﷺ نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ بولے، کہ تم رسول اللہ ﷺ سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین! آپ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا (صرف) کھولا جائے گا۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ بول اٹھے، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ ؓ سے پوچھا، کیا حضرت عمر ؓ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہاں! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ ؓ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا (کہ دروازہ سے کیا مراد ہے) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) انھوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر ؓ ہی تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں جس فتنہ کا ذکر ہے وہ حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد حضرت عثمان ؓ کی خلافت ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ جس کا نتیجہ شیعہ سنی کی شکل میں آج تک موجود ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ بند دروازہ توڑدیا جائے گا۔ ایک مرتبہ فتنے شروع ہونے پر پھر بڑھتے ہی جائیں گے۔ چنانچہ امت کا افتراق محتاج تفصیل نہیں اور فقہی اختلافات نے توبالکل ہی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ تقلید جامد کے نتائج ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shaqiq (RA): That he had heard Hudhaifa saying, "Once I was sitting with 'Umar and he said, 'Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle (ﷺ) about the afflictions?' I said, 'I know it as the Prophet (ﷺ) had said it.' 'Umar said, 'No doubt you are bold.' I said, 'The afflictions caused for a man by his wife, money, children and neighbor are expiated by his prayers, fasting, charity and by enjoining (what is good) and forbidding (what is evil).' 'Umar said, 'I did not mean that but I asked about that affliction which will spread like the waves of the sea.' I (Hudhaifa) said, 'O leader of the faithful believers! You need not be afraid of it as there is a closed door between you and it.' 'Umar asked, Will the door be broken or opened?' I replied, 'It will be broken.' 'Umar said, 'then it will never be closed again.' I was asked whether 'Umar knew that door. I replied that he knew it as one knows that there will be night before the tomorrow morning. I narrated a Hadith that was free from any mis-statement" The subnarrator added that they deputed Masruq to ask Hudhaifa (about the door). Hudhaifa said, "The door was 'Umar himself."