باب: اس بیان میں کہ گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے (یعنی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: As-Salat (the prayers) is expiation (of sins))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
526.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت کو بوسہ دے دیا، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کو اپنے گناہ سے مطلع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’دن کے دونوں کناروں، یعنی صبح و شام نماز پابندی سے پڑھا کرو اور رات کے کچھ حصوں میں بھی اس کا اہتمام کرو، بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ حکم خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ میری امت کے لیے ہے۔‘‘
تشریح:
نماز کی ادائیگی کفارۂ سیئات ہے۔ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے: حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے ایسا گناہ ہو گیا ہے جس سے شرعی سزا آتی ہے، آپ اسے مجھ پرقائم فرمادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے تفصیلات معلوم نہیں کیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ وہ آدمی بھی شریک جماعت ہوا۔ نماز سے فراغت کے بعد پھر اس نے کہا کہ مجھ سے ایسا گناہ ہوا ہے جس پر حد لازم ہے۔ آپ کتاب اللہ کو مجھ پر نافذ کریں۔ نبی ﷺ فرمایا: '’’کیا تونے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ عرض کیا:جی ہاں! پڑھ لی ہے۔ آپ نے فرمایا: جا! اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6823) اس روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے شارحین نے صاحب واقعہ کے متعدد نام ذکر کیے ہیں۔ علامہ عینی ؒ نے چھ نام ذکر کرنے کہ بعد لکھا ہے کہ مذکورہ واقعہ ابوالیسر ؓ کے متعلق ہے۔ (عمدة القاري:16/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
522
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
526
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
526
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
526
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
نماز اور اوقات نماز کی اہمیت و ضرورت بیان کرنے کے بعد اس کے ثمرات وفوائد سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ اس پاکیزہ عمل سے گناہ دھل جاتے ہیں۔اگر کسی کے گناہ نہیں ہیں تو نماز رفع درجات کا باعث ہو گی۔اگرچہ دوسری عبادات بھی کفارہ بننے کی شان رکھتی ہیں،تاہم دیگر عبادات کے مقابلے میں نماز کو اولیت حاصل ہے اور اس میں سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت کو بوسہ دے دیا، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کو اپنے گناہ سے مطلع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’دن کے دونوں کناروں، یعنی صبح و شام نماز پابندی سے پڑھا کرو اور رات کے کچھ حصوں میں بھی اس کا اہتمام کرو، بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ حکم خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ میری امت کے لیے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
نماز کی ادائیگی کفارۂ سیئات ہے۔ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے: حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے ایسا گناہ ہو گیا ہے جس سے شرعی سزا آتی ہے، آپ اسے مجھ پرقائم فرمادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے تفصیلات معلوم نہیں کیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ وہ آدمی بھی شریک جماعت ہوا۔ نماز سے فراغت کے بعد پھر اس نے کہا کہ مجھ سے ایسا گناہ ہوا ہے جس پر حد لازم ہے۔ آپ کتاب اللہ کو مجھ پر نافذ کریں۔ نبی ﷺ فرمایا: '’’کیا تونے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ عرض کیا:جی ہاں! پڑھ لی ہے۔ آپ نے فرمایا: جا! اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6823) اس روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے شارحین نے صاحب واقعہ کے متعدد نام ذکر کیے ہیں۔ علامہ عینی ؒ نے چھ نام ذکر کرنے کہ بعد لکھا ہے کہ مذکورہ واقعہ ابوالیسر ؓ کے متعلق ہے۔ (عمدة القاري:16/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، سلیمان تیمی کے واسطہ سے، انھوں نے ابوعثمان نہدی سے، انھوں نے ابن مسعود ؓ سے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کا بوسہ لے لیا۔ اور پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ کو اس حرکت کی خبر دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ نماز دن کے دونوں حصوں میں قائم کرو اور کچھ رات گئے بھی، اور بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ صرف میرے لیے ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میری تمام امت کے لیے یہی حکم ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس آیت میں برائیوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے کہ ایک نماز دوسری نماز تک کفارہ ہے گناہوں کا جب تک آدمی کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mas'ud (RA): A man kissed a woman (unlawfully) and then went to the Prophet (ﷺ) and informed him. Allah revealed: And offer prayers perfectly at the two ends of the day And in some hours of the night (i.e. the five compulsory prayers). Verily! Good deeds remove (annul) the evil deeds (small sins) (11.114). The man asked Allah's Apostle (ﷺ) "Is it for me?" He said, "It is for all my followers."