باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ” اے پیغمبر ! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے تو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے “
)
Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: "O Prophet! Why do you forbid that which Allah has allowed to you...?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5268.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ شہد اور میٹھی چیز بہت پسند کرتے تھے۔ اور جب نماز عصر سے فراغت کے بعد آپ واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس تشریف لے جاتے اور بعض کے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن آپ ﷺ سیدہ حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں معمول سے زیادہ کچھ وقت قیام کیا۔ مجھے اس پر غیرت آئی تو میں نے اس کے متعلق پوچھا۔ مجھے بتایا گیا کہ سیدہ حفصہ ؓ کو ان کی رشتہ دار خاتون نے شہد کا ڈبہ دیا ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس ے کچھ پلایا ہے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! ہم اس کی روک تھام کے لیے کوئی حیلہ کرتی ہیں۔ چنانچہ میں نے سیدہ سودہ بنت زمعہ ؓ سے کہا: آپ ﷺ عنقریب تمہارے پاس تشریف لائیں گے۔ جب تمہارے قریب آئیں تو آپ سے کہنا کہ آپ نے مغافیرکھا رکھا ہے؟ (ظاہر ہے کہ) آپ ﷺ اس کے جواب کا انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا: پھر یہ ناگوار سی بو کیسی ہے؟ جو آپ سے محسوس ہو رہی ہے؟ آپ فرمائیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر کہنا کہ شاید مکھی نے مغافیر کے درخت کا رس چوسا ہے۔ میں بھی آپ سے یہی عرض کروں گی۔ اے صفیہ! تم نے بھی یہی کہنا ہوگا۔ سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ سودہ ؓ کہتی تھیں: اللہ کی قسم! ابھی آپ ﷺ نے دروازے پر قدم رکھا تھا تو تمہاری ہیبت کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا میں وہ بات رسول اللہ ﷺ سے کہہ دوں جو تم نے مجھے کہی تھی، چنانچہ آپ ﷺ جب سیدہ سودہ ؓ کے قریب ہوئے تو انہوں عرض کی: پھر یہ ناگوارسی بو کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تو حفصہ نے شہد کا شربت پلایا ہے۔“ سیدہ سودہ ؓ نے پھر کہا: شاید شہد کی مکھی نےمغافیر کے درخت کا رس چوسا ہوگا۔ پھر جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی اسی طرح کہا۔ جب صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے اسی بات کو دہرایا۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ سیدہ حفصہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو وہ شہد نہ پلاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس کی ضرورت نہیں۔“ سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے ک سیدہ سودہ ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ ﷺ کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا: ابھی خاموش رہو۔“
تشریح:
(1) ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ، حضرت سودہ، حضرت حفصہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ اس گروپ کی کمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے پاس تھی۔ دوسرے گروپ میں حضرت زینب بنت جحش، حضرت ام سلمہ اور دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن تھیں۔ اس کی قیادت حضرت زینب کرتی تھیں۔ بعض اوقات رقابت اور طبعی غیرت کی وجہ سے باہمی حیلہ سازی ہوتی رہتی تھی۔ مذکورہ واقعہ بھی اس قسم کی طبعی غیرت کا نتیجہ ہے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام سب سے اعلیٰ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ان سے خائف رہتی تھیں۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ واقعہ تحریم شہد سے متعلق ہے، اپنے آپ پر عورت حرام کر لینے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کو خود پر حرام کرلینا اور نوعیت رکھتا ہے جبکہ کھانا حرام کرنا ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے۔ ان میں ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی خاوند، بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرتا ہے تو اس کی نیت کو دیکھا جائے گا اور کھانا حرام کرنے سے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ والله اعلم. (4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے شہد نوش کیا تھا لیکن یہ روایت مرسل اور شاذ ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ (فتح الباري: 467/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5066
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5268
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5268
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5268
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ شہد اور میٹھی چیز بہت پسند کرتے تھے۔ اور جب نماز عصر سے فراغت کے بعد آپ واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس تشریف لے جاتے اور بعض کے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن آپ ﷺ سیدہ حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں معمول سے زیادہ کچھ وقت قیام کیا۔ مجھے اس پر غیرت آئی تو میں نے اس کے متعلق پوچھا۔ مجھے بتایا گیا کہ سیدہ حفصہ ؓ کو ان کی رشتہ دار خاتون نے شہد کا ڈبہ دیا ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس ے کچھ پلایا ہے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! ہم اس کی روک تھام کے لیے کوئی حیلہ کرتی ہیں۔ چنانچہ میں نے سیدہ سودہ بنت زمعہ ؓ سے کہا: آپ ﷺ عنقریب تمہارے پاس تشریف لائیں گے۔ جب تمہارے قریب آئیں تو آپ سے کہنا کہ آپ نے مغافیرکھا رکھا ہے؟ (ظاہر ہے کہ) آپ ﷺ اس کے جواب کا انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا: پھر یہ ناگوار سی بو کیسی ہے؟ جو آپ سے محسوس ہو رہی ہے؟ آپ فرمائیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر کہنا کہ شاید مکھی نے مغافیر کے درخت کا رس چوسا ہے۔ میں بھی آپ سے یہی عرض کروں گی۔ اے صفیہ! تم نے بھی یہی کہنا ہوگا۔ سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ سودہ ؓ کہتی تھیں: اللہ کی قسم! ابھی آپ ﷺ نے دروازے پر قدم رکھا تھا تو تمہاری ہیبت کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا میں وہ بات رسول اللہ ﷺ سے کہہ دوں جو تم نے مجھے کہی تھی، چنانچہ آپ ﷺ جب سیدہ سودہ ؓ کے قریب ہوئے تو انہوں عرض کی: پھر یہ ناگوارسی بو کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تو حفصہ نے شہد کا شربت پلایا ہے۔“ سیدہ سودہ ؓ نے پھر کہا: شاید شہد کی مکھی نےمغافیر کے درخت کا رس چوسا ہوگا۔ پھر جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی اسی طرح کہا۔ جب صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے اسی بات کو دہرایا۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ سیدہ حفصہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو وہ شہد نہ پلاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس کی ضرورت نہیں۔“ سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے ک سیدہ سودہ ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ ﷺ کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا: ابھی خاموش رہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ، حضرت سودہ، حضرت حفصہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ اس گروپ کی کمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے پاس تھی۔ دوسرے گروپ میں حضرت زینب بنت جحش، حضرت ام سلمہ اور دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن تھیں۔ اس کی قیادت حضرت زینب کرتی تھیں۔ بعض اوقات رقابت اور طبعی غیرت کی وجہ سے باہمی حیلہ سازی ہوتی رہتی تھی۔ مذکورہ واقعہ بھی اس قسم کی طبعی غیرت کا نتیجہ ہے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام سب سے اعلیٰ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ان سے خائف رہتی تھیں۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ واقعہ تحریم شہد سے متعلق ہے، اپنے آپ پر عورت حرام کر لینے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت کو خود پر حرام کرلینا اور نوعیت رکھتا ہے جبکہ کھانا حرام کرنا ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے۔ ان میں ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی خاوند، بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرتا ہے تو اس کی نیت کو دیکھا جائے گا اور کھانا حرام کرنے سے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ والله اعلم. (4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے شہد نوش کیا تھا لیکن یہ روایت مرسل اور شاذ ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ (فتح الباري: 467/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ شہد اور میٹھی چیزیں پسند کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور بعض سے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن آنحضرت ﷺ حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر ان کے گھر ٹھہر ے۔ مجھے اس پر غیرت آئی اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ حفصہ ؓ کو ان کی قوم کی کسی خاتون نے انہیں شہد کا ایک ڈبہ دیا ہے اور انہوں نے اسی کا شربت آنحضرت ﷺ کے لیے پیش کیا ہے۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ خدا کی قسم! میں تو ایک حیلہ کروں گی، پھر میں نے سودہ بنت زمعہ ؓ سے کہا کہ آنحضرت ﷺ تمہارے پاس آئیں گے اور جب آئیں تو کہنا کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے مغافیر کھا رکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ اس کے جواب میں انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا کہ پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے معلوم کر رہی ہوں؟ اس پر آنحضرت ﷺ کہیں گے کہ حفصہ نے شہد کا شربت مجھے پلایا ہے۔ تم کہنا کہ غالباً اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہوگا۔ میں بھی آنحضرت ﷺ سے یہی کہوں گی اور صفیہ تم بھی یہی کہنا۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ سودہ ؓ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم آنحضرت ﷺ جو نہی دروازے پر آ کر کھڑے ہوئے تو تمہارے خوف سے میں نے ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ سے وہ بات کہوں جو تم نے مجھ سے کہی تھی۔ چنانچہ جب آنحضرت ﷺ سودہ ؓ کے قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا، پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے محسوس کرتی ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر سودہ ؓ بولیں اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہوگا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے بھی یہی بات کہی اس کے بعد جب صفیہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی اسی کو دہرایا۔ اس کے بعد جب پھر آنحضور ﷺ حفصہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ شہد پھر نوش فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ اس پر سودہ بولیں، واللہ! ہم آنحضرت ﷺ کو روکنے میں کامیاب ہو گئے، میں نے ان سے کہا کہ ابھی چپ رہو۔
حدیث حاشیہ:
کہیں بات کھل نہ جائے اور حفصہ رضی اللہ عنہا تک پہنچ نہ جائے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہ حالانکہ عمر میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہیں بڑی بلکہ بوڑھی تھیں مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتی رہتی تھیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت اور محبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہت تھی۔ ہر ایک بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کرنے سے ڈرتی تھی کہ کہیں آنحضرت کو ہم سے خفا نہ کر دیں۔ سوکنوں میں ایسا جلاپا فطری ہوتا ہے۔ اللہ پاک ازواج مطہرات کے ایسے حالات کو معاف کرنے والا ہے۔ واللہ ھو الغفور الرحیم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaid bin 'Umar (RA) : I heard 'Aisha (RA) saying, "The Prophet (ﷺ) used to stay for a long while with Zanab bint Jahsh and drink honey at her house. So Hafsah (RA) and I decided that if the Prophet (ﷺ) came to anyone of us, she should say him, "I detect the smell of Maghafir (a nasty smelling gum) in you. Have you eaten Maghafir?' " So the Prophet (ﷺ) visited one of them and she said to him similarly. The Prophet (ﷺ) said, "Never mind, I have taken some honey at the house of Zainab bint Jahsh, but I shall never drink of it anymore." So there was revealed: 'O Prophet (ﷺ) ! Why do you ban (for you) that which Allah has made lawful for you . . . If you two (wives of Prophet) turn in repentance to Allah,' (66.1-4) addressing Aisha (RA) and Hafsah (RA). 'When the Prophet (ﷺ) disclosed a matter in confidence to some of his wives.' (66.3) namely his saying: But I have taken some honey."