Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: A divorce given in a state of anger, under compulsion or under the effect of intoxicants or insanity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا ، اسی طرح بھول یا چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک ( بعضوں نے یہاں لفظ والشک نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے ) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کررہا تھا ۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور حضرت علی ؓ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے ( ان کے گوشت کے کباب بنائے ) آنحضرت ﷺ نے ان کو ملامت کرنے شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں ۔ انہوں نے ( نشہ کی حالت میں ) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیاکہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں ، آپ نکل کر چلے آئے ، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی ( اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا نشے اور زبر دستی کی طلاق نہیںپڑے گی ( اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کاوسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی اورعطاءبن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( انت طالق ) کہااس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی ۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیاحکم ہے ۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑجائے گی ۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا ( اسے عبدالرزاق نے نکالا ) اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں ۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہاتھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی ( یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں ) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا ( وہ جانے اس کا کام جانے ) اور ابراہیم نخعی نے کہا ( اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا ) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا اورابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہوگی اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں ۔ اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا ، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہوجائے گی اور امام حسن بصری نے کہا اگرکوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نےت کی تو طلاق پڑجائے گی اور ابن عباسؓ نے کہا طلاق تو ( مجبوری سے ) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضامندی کے لیے ہوتا ہے اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑجائے گی اور علی ؓ نے فرمایا ( جسے بغوی نے جعد یات میں وصل کیا ) عمر ! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں ( یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے ) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو ، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو ، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو ۔ اور علی ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک طلاق پڑ جائے گی مگر نادان ، بے وقوف ( جیسے دیوانہ ، نابالغ ، نشہ میں مست وغیرہ ) کی طلاق نہیں پڑے گی ۔تشریح : لفظ اغلاق کے معنی زبردست کے ہیں یعنی کوئی مرد پر جبر کرے طلاق دینے پر اوروہ دے دے تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔ بعضوں نے کہا اغلاق سے غصہ مراد ہے یعنی اگر غصے اور طیش کی حالت میں طلاق دے تو طلاق نہ پڑے گی ۔ متاخرین حنابلہ کا یہی قول ہے لیکن اکثر علماءاورائمہ اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں طلاق تو اکثر غصے ہی کے وقت دی جاتی ہے پس اگر غصے میں طلاق نہ پڑے توہر طلاق دینے والا یہی کہے گا کہ میں اس وقت غصے میں تھا۔ بعضوں نے والشرک کی جگہ لفظ والشک پڑھا ہے یعنی اگر شک ہو گیا کہ طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تھا یا نہیں تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ باب لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حنفیہ کا رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نشہ میں یا زبر دستی سے کوئی طلاق دے تو طلاق پڑ جائے گی۔ اسی طرح اگر اور کوئی کلمہ کہنا چاہتا تھا لیکن زبان سے یہ نکل گیا انت طالق تب بھی طلاق پڑجائے گی، اسی طرح اگر بھولے سے انت طالق کہہ دیا۔ لیکن اہلحدیث کے نزدیک ان میں سے کسی صورت میں طلاق نہیں پڑے گی جب تک طلاق سنت کے موافق نیت کرکے ایسے طہر میں نہ دے جس میں جماع نہ کیا ہو اور اگر ایسے طہر میں بھی نیت کرکے کسی نے تین طلاق دے دی تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ اسی طرح اہلحدیث کے نزدیک طلاق معلق باشرط مثلاً کوئی اپنی بیوی سے یوں کہے اگر تو گھر سے باہر نکلے گی تو تجھ پر طلاق ہے پھر وہ گھر سے نکلی تو طلاق نہیں پڑے گی کیونکہ ان کے نزدیک یہ طلاق خلاف سنت ہے اور خلاف سنت طلاق واقع نہیں ہوتی مگر ایک ہی صورت میں یعنی جب طہر میں تین طلاق ایک بارگی دے دی تو گو یہ طلاق نہ پڑ نے کے قائل ہوئے ہیں وہی مذہب صحیح عمدہ معلوم ہوتا ہے برخلاف ان علماءکے جو اس کے خلاف میں ہیں کیونکہ غیظ وغضب میں طلاق میں بھی انسان بے اختیار ہو جاتا ہے پس جب تک طلاق کی نیت کرکے نہ دے، اس وقت تک طلاق نہیں پڑے گی۔ اسی طرح طلاق معلق میں بھی جمہور علماءمخالف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب شرط پوری ہو تو طلاق پڑ جائے گی ۔ بڑی آسانی اہلحدیث کے مذہب میں ہے اور ہمارے زمانہ کے مناسب حال بھی ان ہی کا مذہب ہے طلاق جہاں تک واقع نہ ہو وہیں تک بہتر ہے کیونکہ وہ ابغض مباحات میں سے ہے اور تعجب ہے ان لوگوں سے جنہوں نے ہمارے امام ہمام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ پر تین طلاقوں کے مسئلہ میں بلوہ کیا، ان کو ستایا۔ ارے بے وقوفو! شیخ الاسلام نے تو وہ قول اختیار کیا جو حدیث اور اجماع صحابہ کے موافق تھا اور اس میں اس امت کے لیے آسانی تھی۔ ان کے احسان کا تو شکریہ ادا کرنا تھا نہ کہ ان پر بلوہ کرنا، ان کو ستانا، اللہ ان سے راضی ہو اور ان کو جزائے خیر دے جس مشکل میں ہم حضرت امام ابو حنیفہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بے جا تقلید کی وجہ سے پڑ گئے تھے اس سے انہوں نے مخلصی دلوائی ( وحیدی از مولانا وحید الزماں مرحوم
5271.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آتے ہی آپ کو آواز دی: اللہ کے رسول! اس کم بخت نے زنا کیا ہے، اس نے خود کو مراد لیا۔ آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا لیکن اس نے بھی رخ ادھر کرلیا جس طرح آپ ﷺ کا چہرہ انور تھا۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول اس نے زنا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ ہھر اس طرف آ گیا جدھر آپ ﷺ نے پھر اس سے اعراض فرمایا: پھر جب وہ چوتھی مرتبہ اس طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ گیا اوراپنے خلاف چار مرتبہ زنا کی شہادت دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: ”کیا تو دیوانہ ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5069
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5271
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5271
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5271
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ طلاق ایک اختیاری چیز ہے،یعنی جب بندہ اپنے اختیار سے اسے عمل میں لائے تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔جب بھی اس کا اختیار چھین لیا جائے گا تو بے اختیاری کے عالم میں طلاق وغیرہ کا اعتبار نہیں ہوگا، مثلاً: ایک آدمی سخت غصے میں اول فول بک رہا ہے،شدتِ جذبات میں اسے کچھ معلوم نہیں کہ وہ منہ سے کیا نکال رہا ہے،ایسے حالات میں اگر بیوی کو طلاق کہہ دیتا ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔امام ابو داود رحمہ اللہ نے بھی " اغلاق " کے معنی غضب کیے ہیں۔(سنن ابی داود، الطلاق، حدیث: 2193) اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طلاق اور آزادی اغلاق میں نہیں ہوتی۔"(سنن ابن ماجہ، الطلاق، حدیث: 2046) اس حدیث کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں:٭زبردستی لی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی۔٭غصے کی حالت میں بھی طلاق نہیں ہوتی جبکہ انسان کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہو۔اسی طرح مجبوری کی حالت میں بھی انسان بے بس ہوتا ہے اور بے اختیار ہو کر طلاق دیتا ہے،لہٰذا اس حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن معمولی دھمکی طلاق کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی۔جبر کا اعتبار اس وقت ہوگا جب دھمکی دینے والا اسے مار دینے یا عضو ضائع کردینے کی دھمکی دے اور وہ اپنی دھمکی کے مطابق عمل کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو تو ایسی حالت میں جبری طلاق کا اعتبار نہیں ہوگا۔معمولی مار پیٹ یا مصنوعی اسلحے کی دھمکی یا گھر سے نکال دینے کا ڈر جبروا کراہ میں کار گر نہیں ہوگا۔بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل کو جمع کیا ہے جن کی تفصیل فتح الباری میں دیکھی جاسکتی ہے،نیز طلاق کی مختلف قسمیں ذکر کی ہیں جن کا دارومدار نیت پر ہے۔ نیت وارادے کے بغیر کوئی بھی عمل معتبر نہیں ہوتا،لہٰذا طلاق بھی نیت کے بغیر معتبر نہیں ہوگی۔والله اعلم
اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا ، اسی طرح بھول یا چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک ( بعضوں نے یہاں لفظ والشک نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے ) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کررہا تھا ۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور حضرت علی ؓ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے ( ان کے گوشت کے کباب بنائے ) آنحضرت ﷺ نے ان کو ملامت کرنے شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں ۔ انہوں نے ( نشہ کی حالت میں ) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیاکہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں ، آپ نکل کر چلے آئے ، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی ( اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا نشے اور زبر دستی کی طلاق نہیںپڑے گی ( اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کاوسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی اورعطاءبن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( انت طالق ) کہااس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی ۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیاحکم ہے ۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑجائے گی ۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا ( اسے عبدالرزاق نے نکالا ) اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں ۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہاتھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی ( یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں ) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا ( وہ جانے اس کا کام جانے ) اور ابراہیم نخعی نے کہا ( اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا ) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا اورابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہوگی اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں ۔ اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا ، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہوجائے گی اور امام حسن بصری نے کہا اگرکوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نےت کی تو طلاق پڑجائے گی اور ابن عباسؓ نے کہا طلاق تو ( مجبوری سے ) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضامندی کے لیے ہوتا ہے اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑجائے گی اور علی ؓ نے فرمایا ( جسے بغوی نے جعد یات میں وصل کیا ) عمر ! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں ( یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے ) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو ، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو ، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو ۔ اور علی ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک طلاق پڑ جائے گی مگر نادان ، بے وقوف ( جیسے دیوانہ ، نابالغ ، نشہ میں مست وغیرہ ) کی طلاق نہیں پڑے گی ۔تشریح : لفظ اغلاق کے معنی زبردست کے ہیں یعنی کوئی مرد پر جبر کرے طلاق دینے پر اوروہ دے دے تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔ بعضوں نے کہا اغلاق سے غصہ مراد ہے یعنی اگر غصے اور طیش کی حالت میں طلاق دے تو طلاق نہ پڑے گی ۔ متاخرین حنابلہ کا یہی قول ہے لیکن اکثر علماءاورائمہ اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں طلاق تو اکثر غصے ہی کے وقت دی جاتی ہے پس اگر غصے میں طلاق نہ پڑے توہر طلاق دینے والا یہی کہے گا کہ میں اس وقت غصے میں تھا۔ بعضوں نے والشرک کی جگہ لفظ والشک پڑھا ہے یعنی اگر شک ہو گیا کہ طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تھا یا نہیں تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ باب لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حنفیہ کا رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نشہ میں یا زبر دستی سے کوئی طلاق دے تو طلاق پڑ جائے گی۔ اسی طرح اگر اور کوئی کلمہ کہنا چاہتا تھا لیکن زبان سے یہ نکل گیا انت طالق تب بھی طلاق پڑجائے گی، اسی طرح اگر بھولے سے انت طالق کہہ دیا۔ لیکن اہلحدیث کے نزدیک ان میں سے کسی صورت میں طلاق نہیں پڑے گی جب تک طلاق سنت کے موافق نیت کرکے ایسے طہر میں نہ دے جس میں جماع نہ کیا ہو اور اگر ایسے طہر میں بھی نیت کرکے کسی نے تین طلاق دے دی تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ اسی طرح اہلحدیث کے نزدیک طلاق معلق باشرط مثلاً کوئی اپنی بیوی سے یوں کہے اگر تو گھر سے باہر نکلے گی تو تجھ پر طلاق ہے پھر وہ گھر سے نکلی تو طلاق نہیں پڑے گی کیونکہ ان کے نزدیک یہ طلاق خلاف سنت ہے اور خلاف سنت طلاق واقع نہیں ہوتی مگر ایک ہی صورت میں یعنی جب طہر میں تین طلاق ایک بارگی دے دی تو گو یہ طلاق نہ پڑ نے کے قائل ہوئے ہیں وہی مذہب صحیح عمدہ معلوم ہوتا ہے برخلاف ان علماءکے جو اس کے خلاف میں ہیں کیونکہ غیظ وغضب میں طلاق میں بھی انسان بے اختیار ہو جاتا ہے پس جب تک طلاق کی نیت کرکے نہ دے، اس وقت تک طلاق نہیں پڑے گی۔ اسی طرح طلاق معلق میں بھی جمہور علماءمخالف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب شرط پوری ہو تو طلاق پڑ جائے گی ۔ بڑی آسانی اہلحدیث کے مذہب میں ہے اور ہمارے زمانہ کے مناسب حال بھی ان ہی کا مذہب ہے طلاق جہاں تک واقع نہ ہو وہیں تک بہتر ہے کیونکہ وہ ابغض مباحات میں سے ہے اور تعجب ہے ان لوگوں سے جنہوں نے ہمارے امام ہمام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ پر تین طلاقوں کے مسئلہ میں بلوہ کیا، ان کو ستایا۔ ارے بے وقوفو! شیخ الاسلام نے تو وہ قول اختیار کیا جو حدیث اور اجماع صحابہ کے موافق تھا اور اس میں اس امت کے لیے آسانی تھی۔ ان کے احسان کا تو شکریہ ادا کرنا تھا نہ کہ ان پر بلوہ کرنا، ان کو ستانا، اللہ ان سے راضی ہو اور ان کو جزائے خیر دے جس مشکل میں ہم حضرت امام ابو حنیفہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بے جا تقلید کی وجہ سے پڑ گئے تھے اس سے انہوں نے مخلصی دلوائی ( وحیدی از مولانا وحید الزماں مرحوم
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آتے ہی آپ کو آواز دی: اللہ کے رسول! اس کم بخت نے زنا کیا ہے، اس نے خود کو مراد لیا۔ آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا لیکن اس نے بھی رخ ادھر کرلیا جس طرح آپ ﷺ کا چہرہ انور تھا۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول اس نے زنا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ ہھر اس طرف آ گیا جدھر آپ ﷺ نے پھر اس سے اعراض فرمایا: پھر جب وہ چوتھی مرتبہ اس طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ گیا اوراپنے خلاف چار مرتبہ زنا کی شہادت دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: ”کیا تو دیوانہ ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد نبوی ہے: ”تمام کام نیت سے صحیح ہوتے ہیں اور ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے نیت کی ہو۔“ امام شعبی نے اس سلسلے میں یہ آیت تلاوت فرمائی: ”(اے ہمارے رب ! ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہوتو اس پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔“ ”نیز وسواسی اور مجنون کا اقرار بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کررہا تھا: کیا تو دیوانہ ہے؟“حضرت علی ؓ نے کہا: حضرت حمزہ ؓ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے ہیں۔ نبی ﷺ نے سیدہ حمزہ رضی اللہ عنہ کو ملامت کرنا شروع کردی۔ آپ نے دیکھا کہ وہ تو نشے کی حالت میں دھت ہے اور اسکی آنکھیں سرخ ہیں۔ اسی حالت میں حضرت حمزہ ؓ نے آپ ﷺ سے کہا: کیاتم سب میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟نبی ﷺنے انہیں بھانپ کیا کہ وہ تونشے سے چور ہیں، اس لیے آپ وہاں سے نکل کر وآپس چلے آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئےحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نشے والے اور مجبور شخص کی طلاق نہیں ہوگیحضرت عقبہ بن عامر جہبنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر طلاق کا وسوسہ دل میں آئے تو (جب تک زبان سے ادا نہ کرے) طلاق نہیں پڑے گیحضرت عطاء نے کہا کہ جب کوئی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اسی شرط سے متعلق کرسکتاہےحضرت نافع نے کہا: اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے بائن طلاق ہے، پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟اس کے جواب میں حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس صورت میں عورت پر طلاق بائن پڑ جائے گی اور اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گیابن شہاب زہری نے کہا: اگر کوئی آدمی اس طرح کہے کہ اگر میں نے ایسا ایسا نہ کیا تو میری بیوی کو تین طلاقیں ہیں، تو اس سے پوچھا جائے گا کہ جس وقت اس نے یہ بات کہی تھی اس کی نیت کیا تھی؟ اگر مدت معین کا ذکر کرے اور اس پر اس کے دل نے عقد کیا تھا تو معاملہ اس کے دین و امانت پر چھوڑ دیا جائے گاابراہیم نخعی نے کہا: اگر کوئی اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اب مجھے تیری ضرورت نہیں تو اس میں اس کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہوگیحضرت قتادہ نے کہا: جب کسی نے اپنی بہوی سے کہا کہ اگر تجھے حمل ہوجائے تو تجھے تین طلاقیں ہیں تو وہ ہر طہر میں بیوی سے ایک مرتبہ جماع کرے، اگر اس کا حمل ظاہر ہوگیا تو اسے بائن طلاق ہوجائے گی امام حسن بصری نے کہا: اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ تو اپنے میکے چلی جاتواس کی نیت کا اعتبار ہوگاحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: طلاق تو بوقت ضرورت دی جاتی ہے لیکن غلام آزاد کرنے میں اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے امام زہری نے کہا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا: تو میری بیوی نہیں ہے تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا اگر کسی نے طلاق کی نیت کی تھی تو طلاق واقع ہوجائے گیحضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تین حضرات سے قلم اٹھالیا گیا ہے۔ ایک مجنون جب تک وہ تندرست نہ ہو، دوسرا بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو، تیسرا سونے والا جب تک وہ بیدار نہ ہو، نیز حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے یہ بھی کہا کہ ہر طلاق جائز ہے مگر ناقص عقل والے کی طلاق جائز نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کر لیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے منہ موڑ لیا ہے لیکن وہ آدمی آنحضرت ﷺ کے سامنے اس رخ کی طرف مڑگیا، جدھر آپ نے چہرہ مبارک پھیر لیا تھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دوسرے (یعنی خود) نے زنا کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ پھر آنحضرت کے سامنے اس رخ کی طرف آ گیا جدھر آنحضرت ﷺ نے منہ موڑ لیا تھا اور یہی عرض کیا۔ آنحضرت ﷺ نے پھر ان سے منہ موڑ لیا، پھر جب چوتھی مرتبہ وہ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے سامنے آ گیا اور اپنے اوپر انہوں نے چار مرتبہ (زنا کی) شہادت دی تو آنحضرت ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تم پاگل تو نہیں ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور سنگسار کرو کیونکہ وہ شادی شدہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man from Bani Aslam came to Allah's Apostle (ﷺ) while he was in the mosque and called (the Prophet) saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have committed illegal sexual intercourse." On that the Prophet (ﷺ) turned his face from him to the other side, whereupon the man moved to the side towards which the Prophet (ﷺ) had turned his face, and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have committed illegal sexual intercourse." The Prophet (ﷺ) turned his face (from him) to the other side whereupon the man moved to the side towards which the Prophet (ﷺ) had turned his face, and repeated his statement. The Prophet (ﷺ) turned his face (from him) to the other side again. The man moved again (and repeated his statement) for the fourth time. So when the man had given witness four times against himself, the Prophet (ﷺ) called him and said, "Are you insane?" He replied, "No." The Prophet (ﷺ) then said (to his companions), "Go and stone him to death." The man was a married one.