باب: جو شخص گم ہوجائے اس کے گھر والوں اور جائیداد میں کیا عمل ہوگا
)
Sahi-Bukhari:
Divorce
(Chapter: The regulations concerning the property and family of a lost person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن المسیب نے کہا جب جنگ کے وقت صف سے اگر کوئی شخص گم ہواتو اس کی بیوی کو ایک سال اس کا انتظار کر نا چاہیئے ( اور پھر اس کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہے ) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کسی سے خریدی ( اصل مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہو گیا ) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا ، پھرجب وہ نہیںملا تو ( غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے ) ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ فلاں کی طرف سے ہے ( جو اس کا پہلا مالک تھا اور جو قیمت لیے بغیر کہیں گم ہو گیا تھا ) پھر اگر وہ ( آنے کے بعد ) اس صدقہ سے انکار کرے گا ( اور قیمت کا مطالبہ کرے گا تو اس کا ثواب ) مجھے ملے گا اور لونڈی کی قیمت کی ادائیگی مجھ پر واجب ہوگی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح تم لقطہ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو راستے میں پڑی ہوئی کسی کو مل جائے ۔ کے ساتھ کیا کرو ۔ زہری نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو ، کہاکہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے ، پھر اس کی خبر ملنی بند ہوجائے تو اس کا معاملہ بھی مفقود الخبر کی طرح ہوجاتا ہے ۔
5292.
یزید مولی منبعث سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گم شدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑلو کیونکہ یا تو وہ تمہارے لیے ہے تمہارے بھائی تک پہنچ جائے گی یا پھر بھیڑ یے کے سپرد ہوگی۔“ اور آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دوںوں رخسار سرخ ہو گئے آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ اس کے پاس اس کا جوتا ہے اور پانی کا مشکیزہ ہے پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے چرتا رہے گا یہاں تک اس کا مالک اسی مل جائے گا۔“ گری پڑی رقم کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور سر بندھن پہچان لو اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے ہو، اگر اس کو پہچاننے والا کوئی آ جائے تو ٹھیک ہے، یعنی اسے دو بصورت دیگر اسے مال کے ساتھ ملا لو۔“ سفیان نے کہا: میں ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے ملا مگر ان سے سوائے اس حدیث کے مجھے اور کچھ یاد نہیں رہا۔ میں نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ: یزید مولیٰ منبعث کی حدیث گم شدہ مال کے بارے میں زید بن خالد سے ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یحییٰ نے کہا: ربیعہ نے اس کو یزید سے انہوں نے زید بن خالد سے ذکر کیا ہے۔ سفیان نے کہا: پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا پتا چلتا ہے کہ زوجۂ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ گم شدہ خاوند کا حال بھی گم شدہ چیز کی طرح ہے کہ بذریعۂ عدالت سال بھر اس کا اعلان کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں، بصورت دیگر عدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کر سکتی ہے۔ اب اگر دوران مدت یا دوران عدت میں اس کا خاوند آ جائے تو اسے اس کی بیوی مل جائے گی۔ اگر نکاح ثانی کر لینے کے بعد پہلا خاوند آیا تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔ (2) یہ بھی واضح رہے کہ تفتیش کے اخراجات بھی عورت کے ذمے ہیں بشرطیکہ وہ صاحب حیثیت ہو بصورت دیگر بیت المال تفتیش کے اخراجات برداشت کرے۔ اگر بیت المال موجود نہ ہو تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس ستم زدہ عورت کے لیے تعاون کریں اور تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کا بندوبست کریں۔ اگر عدالت اس معاملے کو بلا وجہ طول دے اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے اور فیصلہ دے تو ان کا فیصلہ بھی عدالت ہی کا فیصلہ ہوگا۔ واللہ اعلم. (3) اس موقف پر ہم مولانا وحید الزمان کا موقف بھی پیش کرتے ہیں، وہ بھی قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اگر مفقود نے بلا عذر اپنے حالات مخفی رکھے اور عدالت کے لیے کسی قسم کے اخراجات کا بندوبست نہ کیا گیا تھا اور نہ کوئی جائیداد ہی چھوڑی تو قیاس کا تقاضا ہے کہ وہ واپس آنے کے بعد دوسرے خاوند سے نہیں لے سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکا اور اپنی بیوی کے لیے اخراجات کا بندوبست کر گیا تھا یا کوئی معقول جائیداد چھوڑ گیا تھا تو اسے اختیار ہونا چاہیے، خواہ اپنی عورت لے لے، خواہ دوسرے خاوند سے حق مہر وصول کرے جو اس نے اپنی بیوی کو دیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5089
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5292
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5292
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5292
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے رشتۂ نکاح قائم کرنے اور پھر اسے باقی رکھنے کے لیے جو قانونی،اخلاقی اور شرعی ہدایا ت تھیں انھیں بیان کیا تھا۔چونکہ وجود کے اعتبار سے نکاح، طلاق سے پہلے ہوتا ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے احکام ومسائل کے بیان کو بھی اسی اعتبار سے ملحوظ رکھا ہے،اس لیے اب طلاق کے متعلق شرعی ہدایات بیان کی جائیں گی۔ طلاق کے لغوی معنی بندھن کھولنا ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس گرہ اور بندھن (عقد) کے کھول دینے کو طلاق کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعے سے لگائی گئی تھی۔یہ دور جاہلیت کی اصطلاح ہے جسے اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کبھی طلاق ناجائز ہوتی ہے،جیسے دوران حیض میں طلاق دی جائے یا بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی جائیں اور کبھی مکروہ جو بلا سبب محض شہوت رانی اور نئی دلھن کی ہوس میں ہو جبکہ حالات بھی ساز گار ہوں۔بعض اوقات طلاق واجب ہوتی ہے،جب بیوی اور خاوند کے درمیان اس حد تک مخالفت ہو کہ کسی طرح بھی اتفاق ممکن نہ ہو اور فریقین کے نمائندے طلاق ہونے کو ہی مناسب خیال کریں۔کبھی مستحب بھی ہوتی ہے،جب عورت نیک چلن نہ ہو اور کبھی طلاق جواز کے درجے میں ہوتی ہے،جب بیوی کی طرف دلی آمادگی نہ ہو اور خاوند اس کا خرچہ وغیرہ ناپسند اور اسے بے فائدہ خیال کرے۔(فتح الباری: 9/430) زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ہمارے دین میں موجود نہ ہو جبکہ باقی ادیان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی،چنانچہ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریری شکل میں طلاق دینے کا حق ہے۔اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے،نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس کے برعکس عیسائی اور ہندو مذہب میں انتہائی سنگین حالات میں بھی خاوند کو طلاق دینے کا حق نہیں جبکہ دین اسلام اس قسم کی افراط وتفریط سے بالا ہوکر ایک معتدل راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔اگر ہم اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں تو زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے،پھر خاوند کو بیوی کے لیے اور بیوی کو خاوند کے لیے سکون واطمینان کا ذریعہ بنایا ہے،اس طرح دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی اور دونون میں اس قدر محبت رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر فدا ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔اسی جذبہ فدائیت کا نتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتے کو زندگی بھر نبھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔٭اس رشتے کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کو سرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آئندہ اختلاف اور علیحدگی کا باعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طرف پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: "تو نے اسے دیکھا ہے؟" میں نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: "اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہوجائے۔"(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1865)٭نکاح کے بعد خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اور رواداری سے پیش آئے اور اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔"(النساء: 4/19) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوں۔"(مسند احمد: 2/250)٭خاوند کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتا رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔"(النساء: 4/19)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہ رکھے،اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔"(مسند احمد: 2/329)٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو عورت کی فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھے جس پر وہ آئندہ نادم وپریشان ہو،آپ نے فرمایا: "عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہوتو اس ٹیڑھ کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5184)صحیح مسلم میں ہے: " اس کا توڑ دینا اسے طلاق دینا ہے۔"(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3643 (715))٭خاوند اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیز دیکھے تو طلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ ممکن حد تک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں:٭پہلا قدم یہ ہے کہ بیوی کو نرمی سے سمجھایا جائے اور اسے اس کے اختیار کیے ہوئے رویے کے انجام سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا خراب نہ کرے۔٭اگر خاوند کے سمجھانے بجھانے کا اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے اور اس سے میل جول بند کردے۔اگر بیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تو وہ اس کی سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔٭اگر خاوند کے اس اقدام پر بیوی کو ہوش نہیں آتا تو پھر آخری حربے کے طور پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭مارتے وقت اسے برا بھلا نہ کہا جائے اور گالی گلوچ نہ دی جائے۔٭اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔(مسند احمد: 2/251، و سنن ابی داود، حدیث: 2142)ایسی مار نہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یا نشان پڑجائیں۔(مسند احمد: 5/72، 73)ان حدودوقیود کے ساتھ خاوند کو بحالت مجبوری بیوی کو احتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔٭ایسے حالات میں بیوی کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنا مقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیا ہے۔خاوند اس کے لیے جنت ہے اور وہی اس کے لیے آگ بھی ہے۔(مسند احمد: 4/341)نیز جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حور کہتی ہے:اللہ تجھے برباد کردے!اسے تکلیف نہ دے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے ہاں آجائے گا۔(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 2014)٭اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگر ثابت نہ ہوں تو فریقین اپنے اپنے خاندان مین سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورت حال سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اور بروقت مداخلت کرکے حالات پر کنٹرول کریں۔اگر ان کی نیت بھلائی کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت کی ضرور کوئی راہ پیدا کردے گا۔یہ ثالث میاں بیوی کی طرف سے ایک ایک،دو،دو اور تین تین بھی ہوسکتے ہیں۔جو بات بھی میاں بیوی کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔(النساء: 4/35)٭اگر مذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہ آئے تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانے میں ہروقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور دونوں میاں بیوی کے لیے وہ گھر جہنم بنا رہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں،خواہ مرد طلاق دےدے یا عورت خلع لےلے،پھر دونوں کا اللہ مالک ہے،وہ ان کے لیے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیدا کردے گا۔(النساء: 4/130)لیکن مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ہوگا:٭ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے،لیکن شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے۔طلاق دینے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف تین اختیارات دیے ہیں۔وقفے وقفے سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کا اختیار بھی اسے دیا گیا ہے اور تیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔٭طلاق دیتے وقت اسے دیکھنا ہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اور کسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس طہر میں بیوی سے ہم بستری بھی نہ کی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: "بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دو جس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔"(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4908)٭ حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہور ہوچکی ہے کہ دوران حمل میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: "اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اور مباح ہے۔"(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659 (1471))٭ شریعت نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے،عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود طلاق دے تاکہ کم عقلی کی بنا پر فطرتی جلد بازی میں کسی معمولی سی بات پر یہ اقدام نہ کربیٹھے۔٭اگر خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا عزم کرلیا ہے تو قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے ،خواہ وہ تحریر کرکے دے یازبانی کہے۔اس کے بعد بیوی کو اس کے حال پر چھوڑے دے تاکہ سوچ بچار کے راستے بند نہ ہوں اور فریقین سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پر غوروفکر کرسکیں۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاقیں دینے سے شریعت نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی تھیں تو آپ نے فرمایا: "میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔"آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کا اظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں،(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3435)٭ ایک طلاق دینے کے بعد رشتۂ ازدواج ختم نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت میں اگر میاں بیوی سے کوئی فوت ہوجائے تو انھیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔بہرحال خاوند کو شریعت نے ہدایت کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں۔(الطلاق: 65/1)٭طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کا شمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس پر کئی ایک نازک اور قانونی مسائل کا انحصار ہے۔مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں،جس کی تفصیل یہ ہے:٭نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔(الاحزاب: 33/49)٭مطلقہ بیوی اگر حمل سے ہوتو اس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے۔(الطلاق: 65/4)٭اگر حمل کے بغیر حیض منقطع ہے،یہ انقطاع بچپن،بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو ایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طور پر گزارنے ہوں گے۔اگر مہینوں کا شمار نہ ہوسکے تو 90دن پورے کیے جائیں۔اگر عورت کو ایام آتے ہوں تو تین حیض مکمل کرنا ہوں گے۔(البقرۃ: 2/228)ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یا نوے دن پورے کرنے کی ضرورت نہیں۔٭دوران عدت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اور آباد کرنے کی نیت ہو اسے روک کر مزید تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو۔(البقرۃ: 2/231)اس رجوع کے لیے کسی قسم کے کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عدت گزرجائے تو بھی نئے سرے سے نکاح کرکے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/232) لیکن اس نکاح کے لیے عورت کی رضامندی،سرپرست کی اجازت،حق مہر کی تعیین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے،نیز رجوع کا حق پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔٭اگر رجوع کا پروگرام نہ ہوتو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود آزاد ہوجائے گی۔اس کے لیے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یا بدتمیزی سے رخصت نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلے میں اس کے جو حقوق ہیں انھیں فیاضی سے ادا کیا جائے۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو بھی معروف طریقے سے کچھ دے کر رخصت کرو۔ایسا کرنا اہل تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔(البقرۃ: 2/241)٭ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتا ہے،تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی اور آدمی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری کے بعد اسے اپنی مرضی سے طلاق دے یا فوت ہوجائے تو عدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔(البقرۃ: 2/230)٭اگر عورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کا شکار ہے اور وہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا تو ایسی حالت میں عورت کو اختیار ہے کہ وہ بذریعۂ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے یا خود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے،جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے۔(البقرۃ: 2/229)امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف طلاق کے مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ خلع،لعان اور اظہار کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں آپ نے ایک سواٹھارہ(118)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چھبیس(26) معلق اور باقی بانوے(92) متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں بانوے(92)مکرر اور باقی چھبیس(26) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ آپ نے مختلف مسائل کے استنباط کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کے نوّے(90)آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ان احادیث وآثار پر آپ نے تریپن(53)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی فقہی بصیرت اور ناقدانہ نظر کا پتا چلتا ہے۔آخر میں آپ نے عدت اور اس کی اقسا م،پھر اس کے آداب،نیز مہر کے متعلق احکام ومسائل بھی بیان کیے ہیں۔اللہ کی توفیق سے ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے اختیار کیے ہوئے موقف کو واضح کرنے کے لیے جابجا نوٹ لکھے ہیں۔اگر ان میں کوئی کام کی چیز ہے تو وہاں صرف اللہ کا فضل کار فرما ہے اور اگر کوئی غلط بات نوک قلم پر آگئی ہے تو وہ ہماری کم فہمی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن محدثین کی جماعت میں سے اٹھائے اور خدام حدیث کی فہرست میں شامل کرے۔آمين يا رب العالمين
تمہید باب
گمشدہ شوہر کو فقہی اصطلاح میں مفقود الخبر کہتے ہیں۔اس کی بیوی کے متعلق احکام کا تعلق کتاب الطلاق سے ہے اور مال کا تعلق فرائض کے احکام سے متعلق ہے۔جس عورت کا خاو ند گم ہوجائے اس کے آگے نکاح کرنے کے متعلق علمائے امت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مفقود کی بیوی اس وقت تک اس کی زوجیت سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک گم ہوجانے والے شوہر کی موت کا علم نہ ہوجائے۔کتب فقہ میں اس کی تعبیران الفاظ میں بھی کی گئی ہے کہ مفقود کے ہم عمر لوگ جب تک زندہ ہوں،اس وقت تک دوسرے مرد سے اس کا نکاح درست نہیں ہے۔مسلک احناف میں یہ روایت بھی ہے کہ ہم عمر لوگوں کی موت کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا تعین حاکم کی صوابدید پر ہے جبکہ بعض حضرات نے طبعی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے مدت انتظار کے وقت کا تعین کیا ہے۔اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں: کچھ حضرات نے نوے(90) سال اور بعض نے پھچتر (75) اور ستر (70)سال بھی کہا ہے۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک زوجۂ مفقود کی مدت انتظار چار سال ہے۔ ان کے اختیار کردہ موقف کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے۔انھوں نے فرمایا تھا کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کا علم نہ ہو کہ وہ کہاں ہے تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے،پھر چار ماہ دس دن تک عدت گزار کر چاہے تو دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔(المؤطا للامام مالک، الطلاق، رقم: 1242)ہمارے رجحان کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا موقف صحیح ہے کیونکہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے۔معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں،تاہم مدت انتظار کا تعین حالات وظروف کے تحت کیا جاسکتا ہے۔موجودہ زمانے میں اطلاعات کے ذرائع اس قدر وسیع،زیادہ اور تیز ترین ہیں جن کا تصور بھی زمانۂ قدیم میں محال تھا۔آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے سے ایک دن میں ملک کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے سے چند منٹوں میں اس کی تصویر بھی دنیا کے چپے چپے میں پہنچائی جاسکتی ہے،اس لیے اس مدت کو مزید کم کیا جاسکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف ہے،چنانچہ وہ اس عنوان کے تحت حدیث لقطہ لائے ہیں کہ کسی کا گرا پڑا سامان ملے تو اس کا سال بھر اعلان کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرنے سے بھی یہی مقصود ہے کیونکہ نکاح کوئی دھاگا نہیں جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک حق ہے جو مرد کے لیے لازم ہوچکا ہے۔اس عقدۂ نکاح (نکاح کی گرہ) کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے لیکن تکلیف اور پریشانی کے خاتمے کے لیے عدالت شوہر کے قائم مقام ہوکر نکاح فسخ کرسکتی ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے،اس لیے گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ یہ عورت عدالت کی طرف رجوع کرے۔رجوع سے پہلے جتنی مدت گزرچکی ہوگی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے پہلے نکاح کرلیتی ہیں،ان کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے،چنانچہ امام مالک سے پوچھا گیا: اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے گم ہوجانے والے شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟امام مالک نے جواب دیا: اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔(المدونۃ الکبریٰ: 2/93)لہٰذا مدت انتظار کی ابتدا اس وقت سے کی جائے گی جس وقت حاکم وقت خود بھی تفتیش کرکے گم ہونے والے کے بارے میں مایوس ہوجائے۔عدالت میں پہنچنے اور اس کی تفتیش سے پہلے خواہ کتنی مدت گزرچکی ہو اس کا اعتبار نہ ہوگا۔اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتا ہوجائے وہ عدالت کی طرف رجوع کرے،پھر اگر عدالت بعد از ثبوت اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی شوہر کی کوئی اطلاع اور خبر نہیں ہے بلکہ وہ گم ہوگیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عورت کو مزید ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے۔اگر شوہر اس مدت میں نہ آئے تو عدالت ایک سال کی مدت کے اختتام پر نکاح فسخ کردے گی،پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کرکے عدت وفات،یعنی چار ماہ دس دن گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔
اور ابن المسیب نے کہا جب جنگ کے وقت صف سے اگر کوئی شخص گم ہواتو اس کی بیوی کو ایک سال اس کا انتظار کر نا چاہیئے ( اور پھر اس کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہے ) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کسی سے خریدی ( اصل مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہو گیا ) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا ، پھرجب وہ نہیںملا تو ( غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے ) ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ فلاں کی طرف سے ہے ( جو اس کا پہلا مالک تھا اور جو قیمت لیے بغیر کہیں گم ہو گیا تھا ) پھر اگر وہ ( آنے کے بعد ) اس صدقہ سے انکار کرے گا ( اور قیمت کا مطالبہ کرے گا تو اس کا ثواب ) مجھے ملے گا اور لونڈی کی قیمت کی ادائیگی مجھ پر واجب ہوگی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح تم لقطہ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو راستے میں پڑی ہوئی کسی کو مل جائے ۔ کے ساتھ کیا کرو ۔ زہری نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو ، کہاکہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے ، پھر اس کی خبر ملنی بند ہوجائے تو اس کا معاملہ بھی مفقود الخبر کی طرح ہوجاتا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
یزید مولی منبعث سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گم شدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑلو کیونکہ یا تو وہ تمہارے لیے ہے تمہارے بھائی تک پہنچ جائے گی یا پھر بھیڑ یے کے سپرد ہوگی۔“ اور آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دوںوں رخسار سرخ ہو گئے آپ نے فرمایا: ”تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ اس کے پاس اس کا جوتا ہے اور پانی کا مشکیزہ ہے پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے چرتا رہے گا یہاں تک اس کا مالک اسی مل جائے گا۔“ گری پڑی رقم کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور سر بندھن پہچان لو اور ایک سال تک اس کا اعلان کرتے ہو، اگر اس کو پہچاننے والا کوئی آ جائے تو ٹھیک ہے، یعنی اسے دو بصورت دیگر اسے مال کے ساتھ ملا لو۔“ سفیان نے کہا: میں ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے ملا مگر ان سے سوائے اس حدیث کے مجھے اور کچھ یاد نہیں رہا۔ میں نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ: یزید مولیٰ منبعث کی حدیث گم شدہ مال کے بارے میں زید بن خالد سے ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یحییٰ نے کہا: ربیعہ نے اس کو یزید سے انہوں نے زید بن خالد سے ذکر کیا ہے۔ سفیان نے کہا: پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا پتا چلتا ہے کہ زوجۂ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ گم شدہ خاوند کا حال بھی گم شدہ چیز کی طرح ہے کہ بذریعۂ عدالت سال بھر اس کا اعلان کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں، بصورت دیگر عدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کر سکتی ہے۔ اب اگر دوران مدت یا دوران عدت میں اس کا خاوند آ جائے تو اسے اس کی بیوی مل جائے گی۔ اگر نکاح ثانی کر لینے کے بعد پہلا خاوند آیا تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔ (2) یہ بھی واضح رہے کہ تفتیش کے اخراجات بھی عورت کے ذمے ہیں بشرطیکہ وہ صاحب حیثیت ہو بصورت دیگر بیت المال تفتیش کے اخراجات برداشت کرے۔ اگر بیت المال موجود نہ ہو تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس ستم زدہ عورت کے لیے تعاون کریں اور تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کا بندوبست کریں۔ اگر عدالت اس معاملے کو بلا وجہ طول دے اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے اور فیصلہ دے تو ان کا فیصلہ بھی عدالت ہی کا فیصلہ ہوگا۔ واللہ اعلم. (3) اس موقف پر ہم مولانا وحید الزمان کا موقف بھی پیش کرتے ہیں، وہ بھی قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اگر مفقود نے بلا عذر اپنے حالات مخفی رکھے اور عدالت کے لیے کسی قسم کے اخراجات کا بندوبست نہ کیا گیا تھا اور نہ کوئی جائیداد ہی چھوڑی تو قیاس کا تقاضا ہے کہ وہ واپس آنے کے بعد دوسرے خاوند سے نہیں لے سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکا اور اپنی بیوی کے لیے اخراجات کا بندوبست کر گیا تھا یا کوئی معقول جائیداد چھوڑ گیا تھا تو اسے اختیار ہونا چاہیے، خواہ اپنی عورت لے لے، خواہ دوسرے خاوند سے حق مہر وصول کرے جو اس نے اپنی بیوی کو دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن مسیب نے فرمایا: جب کوئی شخص جنگ کی صف میں عین لڑائی کے موقع پر گم ہوجائے تو اس کی بیوی سال بھر انتظار کرےحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی خریدی۔ آپ اس کے مالک کو ایک سال تک تلاش کرتے رہے لیکن وہ نہ مل سکا۔ وہ کہیں گم ہوگیا۔ پھر انہوں نے ایک ایک دو دو درہم فقراء کو دینے شروع کردیے نیز وہ دعا کرتے تھے: اے اللہ! فلاں شخص(بائع) کی طرف سے ہیں اگر وہ آگیا تو ثواب میرے لیے اور قیمت کی ادائیگی بھی میرے ذمے ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ تم بھی گری پڑی چیز کے ساتھ اسی طرح سلوک کرو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح فرمایاامام زہری نے اس قیدی کے متعلق فرمایا جس کے رہنے کی جگہ ہو: اس کی بیوی نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم ہی کیا جائے گا پھر جب اس کے متعلق خبر ملنا بند ہوجائے تو اس کا حکم بھی مقصودالخبر جیسا ہے
فائدہ: گمشدہ شوہر کو فقہی اصطلاح میں مفقود الخبر کہتے ہیں اس کی بیوی کے متعلق کتاب الطلاق سے ہے اور مال کا تعلق فرائض کے احکام سے متعلق ہے۔ زوجہ مفقود کے نکاح ثانی کے متعلق علمائے امت میں اختلاف پایا جاتا ہے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ کہ مفقود کی بیوی اس وقت تک اس کی زوجیت سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک شوہر مفقود کی موت کا علم نہ ہوجائے، کتب فقہ میں اس کی بایں الفاظ بھی تعبیر کی گئی ہے کہ مفقود کے ہم عمر لوگ جب تک زندہ ہوں، اس وقت دوسرے مرد سے اس کا نکاح درست نہیں، مسلک احناف میں یہ روایت بھی ہے کہ ہم لوگوں کی موت کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا تعین حاکم کی صوابدید پر ہے جبکہ بعض حضرات نے طبعی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے مدت انتطار لے وقت کا تعین کیا ہے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں: کچھ حضرات نے نو ے سال اور بعض نے پچھتر اور ستر سال بھی کہا ہے۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ نزدیک زوجہ مفقود کی مدت انتطار چار سال ہے۔ ان کے اختیار کردہ موقف کی بنیاد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں ہے تو وہ عورت چاس سال تک انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدت گزار چاہے تو عقد ثانی کرسکتی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا موقف صحیح ہے کیونکہ اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے۔ معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں تاہم مدت انتطار کا تعین حالات وظراف کے تحت کیا جاسکتا ہے موجودہ زمانے میں ذرائع رسل ورسائل اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور بھی ذمانہ قدیم میں محال تھا آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور ٹی وی کے زریعے سے ایک دن میں ملک کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کے زریعے چند منٹوں میں اس کی تصویر دنیا کے چپے چپے میں پہنچائی جاسکتی ہے اس کے تحت حدیث لقط لائے ہیں کہ کسی کا گرا پڑا سامان ملے تو اس کا سال بھی اعلان کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرنے سے بھی یہی مقصود ہے کیونکہ نکاح کوئی دھاگا نہیں جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور ایک حق ہے جومرد لے لیے لازم ہوچکا ہے اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے لیکن دفع ضرر کے لیے عدالت شوہر کے قائم مقام ہوکر نکاح فسخ کر سکتی ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے اس لیے گم شدہ کاوند سے خلاصی کے لیے یہ طریقہ اختیار کی جائے کہ مظلومہ عورت عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل نکاح کرلیتی ہیں ان کا یہ اقدام انتہایہ محل نظر ہے چنانچہ امام مالک سے پوچھا گیا اگر کوئی عورت عدالت کےنوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟ امام مالک نے جواب دیا اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ لہذا مدت کا انتطار کی ابتدا اس وقت سے کی جائے گی جس وقت حاکم وقت کود بھی تفتیش کرکے مفقود کے بارے میں مایوس ہوجائے عدالت میں پہنچنے اور اس کی تفتیش سے قبل خواہ کتنی مدت گزر چکی ہو اس کا اعتبار نہ ہوگا اس بناء پر یہ ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہوجائے وہ عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت بعد از ثبوت اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی شوہر مفقود الخبر ہے تو اسے چایئے کہ وہ عورت کو مزید ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے اگر شوہر اس مدت میں نہ آئے تو عدالت ایک سال کی مدت کے اختتام پر نکاح فسخ کردے گی پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کرکے عدت وفات، یعنی چار ماہ دس دن گزارنے نے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے کہا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے منبعث کے مولیٰ یزید نے کہ نبی کریم ﷺ سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ یا وہ تمہاری ہوگی (اگر ایک سال تک اعلان کے بعد اس کا مالک نہ ملا)۔ تمہارے کسی بھائی کی ہو گی یا پھر بھیڑ یے کی ہوگی (اگر انہی جنگلوں میں پھرتی رہی) اور انحضرت ﷺ سے کھوئے ہوئے اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ ہو گئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا غرض! اس کے پا س (مضبوط) کھر ہیں (جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی) اس کے پاس مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا اور نبی کریم ﷺ سے لقطہ کے متعلق سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا کہ اس کی رسی کا (جس سے وہ بندھا ہو) اور اس کے ظرف کا (جس میں وہ رکھا ہو) اعلان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اگر کوئی ایسا شخص آ جائے جو اسے پہچانتا ہو (اور اس کا مالک ہو تو اسے دے دو) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ پھر میں ربیعہ بن عبدالرحمن سے ملا اور مجھے ان سے اس کے سوا اور کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ گم شدہ چیزوں کے بارے میں منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ زید بن خالد سے منقول ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں (سفیان نے بیان کیا کہ ہاں) یحییٰ نے بیان کیا کہ ربیعہ نے منبعث کے مولیٰ یزید سے بیان کیا، ان سے زید بن خالد نے۔ سفیان نے بیان کیا کہ پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اونٹ کے پکڑنے کی ضرورت ہے نہ اس کو کھانے پینے میں کسی کی مدد اور حفاظت کی ضرورت ہے نہ بھیڑیے کا ڈر ہے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ بعضوں نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا کہ دوسرے کے مال میں تصرف کرنا اس وقت جائز نہیں جب تک اس کے ضائع ہونے کا ڈر نہ ہو پس اسی طرح مفقود کی عورت میں بھی تصرف کرنا جائز نہیں جب تک اس کے خاوند کی موت متحقق نہ ہو۔ میں (وحیدالزماں مرحوم) کہتا ہوں یہ قیاس صحیح نہیں ہے اور حضرت عمر، حضرت عثمان، ابن عمر، حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے باسانید صحیحہ مروی ہے، ان کو سعید بن منصور اور عبدالرزاق نے نکالا کہ مفقود کی عورت چار برس تک انتظار کرے۔ اگر اس عرصہ تک اس کی خبر نہ معلوم ہو تو اس کی عورت دوسرا نکاح کر لے اور ایک جماعت تابعین جیسے ابراہیم نخعی اور عطاء اورزہری اور مکحول اور شعبی اسی کے قائل ہوئے ہیں اورامام احمد اوراسحاق نے کہا اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں۔ مدت اس کے واسطے ہے جو لڑائی میں گم ہو یا دریا میں اور حنفیہ اور شافعیہ نے کہا مفقود کی عورت اس وقت تک نکاح نہ کرے جب تک کہ خاوند کا زندہ یا مردہ ہونا ظاہر نہ ہو اور حنفیہ نے اس کی تقریر نوے برس یا سو برس یا 120 برس کی ہے اور دلیل لی ہے اس مرفوع حدیث سے کہ مفقود کی عورت اسی کی عورت ہے یہاں تک کہ حال کھلے۔ ابو عبیدہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اور عبدالرزاق نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ہے مگر مرفوع حدیث ضعیف اور صحیح اس کا وقف ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت کی مدت منقول ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے تو صحیح وہی چار سال کی مدت ہوئی اور اگر عورت کو حنفیہ یا شافعیہ یا حنابلہ کے مذہب کے موافق ادھر رکھا جائے تو اس میں صریح ضرر پہنچانا ہے پس قاضی مفقود کی عورت کا نکاح فسخ کر سکتا ہے جب دیکھے کہ عورت کو تکلیف ہے یا اس کو نان و نفقہ دینے والا کوئی نہیں اور حنفیہ اور شافعیہ اور حنابلہ کے مذہب کے موافق تو شاید ہی دنیا میں کوئی عورت نکلے جو ساری عمر بن شوہر کے عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے۔ اگر بالفرض بیٹھی بھی رہے تو پھر نوے سال یا سو سال یا 120 سال خاوند کی عمر ہونے پر یا اس کے ہم عمر مر جانے پر عورت کی عمر بھی تو نوے سال سے یااسی سال سے غالباً کم نہ رہے گی اور اس عمر میں نکاح کی اجازت دینا گویا عذر بد تر از گناہ ہے۔ ہماری شریعت میں نان نفقہ نہ دینے یا نا مردی کی وجہ سے جب نکاح کا فسخ جائز ہے تو مفقود بھی بطریق اولیٰ جائز ہونا چاہیئے اور تعجب یہ ہے کہ حنفیہ ایلاء میں یعنی چار مہینے تک عورت کے پاس نہ جانے کی قسم میں تو یہ حکم دیتے ہیں کہ چار مہینے گزرنے پر اس عورت کوا یک طلاق بائن پڑ جاتی ہے اور یہاں اس بیچاری عورت کی ساری جوانی برباد ہونے پر بھی ان کو رحم نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ موت اقران کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ کیا خوب انصاف ہے اب اگر عورت دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلے خاوند کا حال معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے تو پہلے ہی خاوند کی عورت ہو گی اور شعبہ نے کہا دوسرے خاوند سے قاضی اس کو جدا کر دے گا وہ عدت پوری کر کے پھر پہلے خاوند کے پاس رہے۔ اگر پہلا خاوند مر جائے تو اس کی بھی عدت بیٹھے اور اس کی وارث بھی ہو گی۔ بعضوں نے کہا پہلا خاوند اگر آئے تو اس کو اختیار ہو گا چاہے اپنی عورت دوسرے خاوند سے چھین لے چاہے جو مہر عورت کو دیا ہو وہ اس سے وصول کر لیوے۔ میں (وحید الزماں) کہتا ہوں اگر مفقود نے بلا عذر اپنا احوال مخفی رکھا تھا اورعورت کے لیے نان نفقہ کا انتظام نہیں کر کے گیا تھا۔ نہ کچھ جائیداد چھوڑ کر گیا تھا تو قیاس یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو دوسرے خاوند سے نہیں پھیر سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے خبر نہ بھیج سکا اور وہ اپنی زوجہ کے لیے نان نفقہ کی جائیداد چھوڑ گیا تھا یا بندوبست کر گیا تھا تب اس کو اختیار ہونا چاہیئے خواہ عورت پھیر لے، خواہ مہر وہ دوسرے خاوند سے لے لے۔ اور یہ قول گو جدید ہے اور اتفاق علماء کے خلاف ہے مگر مقتضائے انصاف ہے۔ واللہ أعلم (شرح مولانا وحیدالزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yazid (RA) : (the Maula of Munba'ith) The Prophet (ﷺ) was asked regarding the case of a lost sheep. He said, "You should take it, because it is for you, or for your brother, or for the wolf." Then he was asked about a lost camel. He got angry and his face became red and he said (to the questioner), "You have nothing to do with it; it has its feet and its water container with it; it can go on drinking water and eating trees till its owner meets it." And then the Prophet (ﷺ) was asked about a Luqata (money found by somebody). He said, "Remember and recognize its tying material and its container, and make public announcement about it for one year. If somebody comes and identifies it (then give it to him), otherwise add it to your property."