باب: اس بارے میں کہ نماز پڑھنے والا نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ طور پر بات چیت کرتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: A person in Salat (prayer) is speaking in private to his Lord (Allah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
532.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’سجدہ اچھی طرح اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ اگر اسے تھوکنے کی ضرورت ہو تو اپنے آگے اور دائیں جانب نہ تھوکے کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔‘‘
تشریح:
سجدے کی حالت میں انسان اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، اس لیے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا دیا جائے، نیز اپنی کہنیوں کو زمین سے اوپر اٹھائے رکھے اور انھیں اپنے پیٹ سے بھی دور رکھے۔ اس طرح نہ صرف عجزوانکسار کا اظہار ہوگا بلکہ انسان سستی اور کاہلی سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري:26/4) نمازی کو بحالت نماز سب سے اچھی حالت وہیئت میں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ''اِقعاء الكلب'' ’’کتے کی طرح بیٹھنا‘‘ ، ''افتراش السبع'' ’’درندوں کی طرح پاؤں پسار کر بیٹھنا‘‘ ، ''بروك البعير'' اونٹ کی طرح بیٹھنا ''نقرة الغراب'' ’’کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا‘‘ وغیرہ تمام امور سے منع کیا گیا ہے۔ الغرض نماز میں ہر لحاظ سے سکون و اطمینان، شائستگی و سنجیدگی، خشوع خضوع، بہترین لباس اور حسن ہیئت وغیرہ مطلوب ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
528
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
532
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
532
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
532
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’سجدہ اچھی طرح اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ اگر اسے تھوکنے کی ضرورت ہو تو اپنے آگے اور دائیں جانب نہ تھوکے کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
سجدے کی حالت میں انسان اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، اس لیے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا دیا جائے، نیز اپنی کہنیوں کو زمین سے اوپر اٹھائے رکھے اور انھیں اپنے پیٹ سے بھی دور رکھے۔ اس طرح نہ صرف عجزوانکسار کا اظہار ہوگا بلکہ انسان سستی اور کاہلی سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري:26/4) نمازی کو بحالت نماز سب سے اچھی حالت وہیئت میں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ''اِقعاء الكلب'' ’’کتے کی طرح بیٹھنا‘‘ ، ''افتراش السبع'' ’’درندوں کی طرح پاؤں پسار کر بیٹھنا‘‘ ، ''بروك البعير'' اونٹ کی طرح بیٹھنا ''نقرة الغراب'' ’’کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا‘‘ وغیرہ تمام امور سے منع کیا گیا ہے۔ الغرض نماز میں ہر لحاظ سے سکون و اطمینان، شائستگی و سنجیدگی، خشوع خضوع، بہترین لباس اور حسن ہیئت وغیرہ مطلوب ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے انس بن مالک ؓ سے بیان کیا، آپ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے تھے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ سجدہ کرنے میں اعتدال رکھو (سیدھی طرح پر کرو) اور کوئی شخص تم میں سے اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔ جب کسی کو تھوکنا ہی ہو تو سامنے یا داہنی طرف نہ تھوکے، کیونکہ وہ نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ باتیں کرتا رہتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ ہاتھوں کوزمین پر رکھے، کہنیوں کو دونوں پہلو سے اور پیٹ کو زانوں سے جدا رکھے۔ حمید کی روایت کو خودامام بخاری ؒ نے ابواب المساجد میں نکالا ہے۔ حافظ نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے ان تعلیقات کو اس واسطے سے ذکر کیا کہ قتادہ کے اصحاب کا اختلاف اس حدیث کی روایت میں معلوم ہوا اورشعبہ کی روایت سب سے زیادہ پوری ہے مگر اس میں سرگوشی کا ذکر نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Do the prostration properly and do not put your fore-arms flat with elbows touching the ground like a dog. And if you want to spit, do not spit in front, nor to the right for the person in prayer is speaking in private to his Lord." And " Qatada said, "He should not spit in front of him but to his left or under his feet." And Shu'ba said, "He should not spit in front of him, nor to his right but to his left or under his foot." Anas (RA) said: The Prophet (ﷺ) said, "He should neither spit in the direction of his Qibla nor to his right but to his left or under his foot."