باب: اس بارے میں کہ سخت گرمی میں ظہر کو ذرا ٹھنڈے وقت پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: In severe heat, offer Zuhr prayers when it becomes (a bit) cooler)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
535.
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے مؤذن نے (ایک مرتبہ) ظہر کی اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا: ’’وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔‘‘ ’’وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔‘‘ یا فرمایا: ’’ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ (آپ نے اتنی تاخیر کی کہ) ہم نے ٹیلوں کا سایہ زمین پر پڑتے دیکھا، (آپ نے مزید فرمایا:) ’’جب بھی گرمی زیادہ ہوا کرے، تم نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کیا کرو۔‘‘
تشریح:
(1) یہ ایک سفر کا واقعہ ہے جس کی تفصیل حدیث:(539) میں آرہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے گرمی کی شدت میں اذان دینے سے منع فرمایا، کیونکہ جب وقت میں گنجائش ہے تو لوگوں کو سخت گرمی میں نماز کے لیے آنے کی دعوت نہ دی جائے۔ انھیں مشقت میں مبتلا کرنا درست نہیں۔ جب شدت ختم ہوجائے تو اذان دی جائے تاکہ نماز کے لیے جمع ہونا دشوار نہ ہو۔ واضح رہے کہ نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے کا حکم عام ہے، خواہ سفر ہو یا حضر، مسجد میں دور سے آنا پڑے یا قریب سے، سائے کا بندوبست ہو یا نہ ہو، کیونکہ ٹھنڈا کرکے نماز ادا کرنے کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں عین دوپہر کے وقت جہنم سانس لیتا ہے جو غضب الٰہی کی علامت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ عین نصف النہار کے وقت نماز نہ پڑھا کرو کیونکہ یہ ایسی گھڑی ہے جس میں جہنم کو تیز کیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1930(832)) (2) اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نماز پڑھنا رحمت الٰہی کا باعث ہے تو نماز فورا پڑھنی چاہیے تاکہ غضب الٰہی کے دور ہونے کا سبب بنے؟ اس کا جواب بایں طور دیا گیا ہے کہ جب شارع علیہ السلام خود ہی کسی چیز کی علت بیان کردیں تو اسے بلا چون وچرا تسلیم کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا مفہوم سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ (فتح الباري: 24/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
530
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
535
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
535
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
535
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے مؤذن نے (ایک مرتبہ) ظہر کی اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا: ’’وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔‘‘ ’’وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔‘‘ یا فرمایا: ’’ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ (آپ نے اتنی تاخیر کی کہ) ہم نے ٹیلوں کا سایہ زمین پر پڑتے دیکھا، (آپ نے مزید فرمایا:) ’’جب بھی گرمی زیادہ ہوا کرے، تم نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کیا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ ایک سفر کا واقعہ ہے جس کی تفصیل حدیث:(539) میں آرہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے گرمی کی شدت میں اذان دینے سے منع فرمایا، کیونکہ جب وقت میں گنجائش ہے تو لوگوں کو سخت گرمی میں نماز کے لیے آنے کی دعوت نہ دی جائے۔ انھیں مشقت میں مبتلا کرنا درست نہیں۔ جب شدت ختم ہوجائے تو اذان دی جائے تاکہ نماز کے لیے جمع ہونا دشوار نہ ہو۔ واضح رہے کہ نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے کا حکم عام ہے، خواہ سفر ہو یا حضر، مسجد میں دور سے آنا پڑے یا قریب سے، سائے کا بندوبست ہو یا نہ ہو، کیونکہ ٹھنڈا کرکے نماز ادا کرنے کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں عین دوپہر کے وقت جہنم سانس لیتا ہے جو غضب الٰہی کی علامت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ عین نصف النہار کے وقت نماز نہ پڑھا کرو کیونکہ یہ ایسی گھڑی ہے جس میں جہنم کو تیز کیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1930(832)) (2) اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نماز پڑھنا رحمت الٰہی کا باعث ہے تو نماز فورا پڑھنی چاہیے تاکہ غضب الٰہی کے دور ہونے کا سبب بنے؟ اس کا جواب بایں طور دیا گیا ہے کہ جب شارع علیہ السلام خود ہی کسی چیز کی علت بیان کردیں تو اسے بلا چون وچرا تسلیم کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا مفہوم سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ (فتح الباري: 24/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے مہاجر ابوالحسن کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب ہمدانی سے سنا۔ انھوں نے ابوذر ؓ سے کہ نبی ﷺ کے مؤذن (بلال) نے ظہر کی اذان دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔
حدیث حاشیہ:
ٹھنڈا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ زوال کے بعد پڑھے نہ یہ کہ ایک مثل سایہ ہوجانے کے بعد، کیونکہ ایک مثل سایہ ہوجانے پرتوعصر کا اوّل وقت ہوجاتاہے۔ جمہورعلماء کا یہی قول ہے۔ زوال ہونے پر فوراً پڑھ لینا یہ تعجیل ہے، اورذرا دیر کر کے تاکہ موسم گرما میں کچھ خنکی آجائے پڑھنا یہ ابراد ہے۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: ''وقداختار قوم من أهل العلم تأخیرصلوٰة الظهر في شدة الحر وهوقول ابن المبارك وأحمد وإسحاق''’’یعنی اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب مختار یہی ہے کہ گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھی جائے۔ عبداللہ بن مبارک واحمد واسحاق کا یہی فتوی ہے۔‘‘ مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ظہر کو عصر کے اول وقت ایک مثل تک کے لیے مؤخر کردیا جائے، جب کہ بدلائل قویہ ثابت ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ خود حضرت امام بخاری ؒ نے بھی اسی مقام پر متعدد روایات سے عصر کا اوّل وقت بیان فرمایا ہے۔ جو ایک سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے۔ جو کہ مختار مذہب ہے اور دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): The Muadhdhin (call-maker) of the Prophet (ﷺ) pronounced the Adhan (call) for the Zuhr prayer but the Prophet (ﷺ) said, "Let it be cooler, let it be cooler." Or said, ‘Wait; wait, because the severity of heat is from the raging of the Hell-fire. In severe hot weather, pray when it becomes (a bit) cooler and the shadows of hillocks appear."