Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: Providing one's wife with clothes reasonably)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5366.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے نبی ﷺ نے ایک ریشمی دھاری دار حلہ دیا میں نے اسے خود پہن لیا پھر میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
تشریح:
(1) اپنی عورتوں سے مراد بیویاں نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی رفیقۂ حیات صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دیگر رشتے دار خواتین ہیں۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ میں نے اسے "فواطم" کے درمیان تقسیم کر دیا، (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5422 (2071)) یعنی حضرت فاطمہ الزہراء، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنھن۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ ریشم یا سونا وغیرہ کسی طرح بھی مردوں کے لیے جائز نہیں، اگر کہیں سے مل جائے تو خود استعمال کرنے کے بجائے اپنی رشتے دار خواتین میں تقسیم کر دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! عورتوں کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں ان سے اچھا برتاؤ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں تھی، اس لیے اس کے مضمون کو دوسری حدیث سے ثابت کیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کا خرچہ کسی پر واجب ہو تو اس کا لباس اور اس کی رہائش بھی اس کے ذمے ہوتی ہے۔ ابن بطال نے لکھا ہے: اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ شوہر پر بیوی کا نان و نفقہ اور لباس بقدر کفایت واجب ہے اور اس میں آسانی اور تنگی کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ (3) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ثابت ہوئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس ریشمی جوڑے سے ایک ٹکڑا دستیاب ہوا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5157
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5366
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5366
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5366
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے نبی ﷺ نے ایک ریشمی دھاری دار حلہ دیا میں نے اسے خود پہن لیا پھر میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اپنی عورتوں سے مراد بیویاں نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی رفیقۂ حیات صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دیگر رشتے دار خواتین ہیں۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ میں نے اسے "فواطم" کے درمیان تقسیم کر دیا، (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5422 (2071)) یعنی حضرت فاطمہ الزہراء، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنھن۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ ریشم یا سونا وغیرہ کسی طرح بھی مردوں کے لیے جائز نہیں، اگر کہیں سے مل جائے تو خود استعمال کرنے کے بجائے اپنی رشتے دار خواتین میں تقسیم کر دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! عورتوں کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں ان سے اچھا برتاؤ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں تھی، اس لیے اس کے مضمون کو دوسری حدیث سے ثابت کیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کا خرچہ کسی پر واجب ہو تو اس کا لباس اور اس کی رہائش بھی اس کے ذمے ہوتی ہے۔ ابن بطال نے لکھا ہے: اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ شوہر پر بیوی کا نان و نفقہ اور لباس بقدر کفایت واجب ہے اور اس میں آسانی اور تنگی کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ (3) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ثابت ہوئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس ریشمی جوڑے سے ایک ٹکڑا دستیاب ہوا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان، کہا کہ مجھے عبدالملک بن میسرہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا اور ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے میرا کپڑے کا جوڑا ہدیہ میں دیا تو میں نے اسے خود پہن لیا، پھر میں نے حضور اکرم ﷺ کے چہرہ مبارک پر خفگی دیکھی تو میں نے اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اپنی رشتہ دار عورتوں کو کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں حیات نبوی تک سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اور کوئی عورت نہ تھی۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ میں نے اسے فاطموں میں بانٹ دیا یعنی حضرت فاطمہ الزہراء اور فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی والدہ اور فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہن۔ معلوم ہوا کہ ریشم یا سونا جیسی چیزیں کسی طور پر کسی مرد کو مل جائیں تو انہیں وہ خود استعمال کرنے کے بجائے اپنی مستورات کو تقسیم کرسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : The Prophet (ﷺ) gave me a silk suit and I wore it, but when I noticed anger on his face, I cut it and distributed it among my women-folk.