باب: عورت اپنے خاوند کی مدد اس کی اولاد کی پرورش میں کرسکتی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Supporting the Family
(Chapter: A lady should help her husband in looking after his children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5367.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہوئے تو انہوںنے سات یا نو بیٹیاں چھوڑیں۔ میں نے ایک شوہر دیدہ عورت سے نکاح کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے جابر! کیاتم نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے اپنا دل بہلاتی تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی؟ میں نے عرض کی: (میرے والد گرامی) سیدنا عبداللہ ؓ شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے کچھ بیٹیاں چھوڑ گئے۔ میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ ان کے پاس ان جیسی (کوئی با تجربہ کار) لے آؤں اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو انکی نگہداشت اور اصلاح کرتی رہے یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت دے یا تمہیں بھلائی نصیب کرے۔“
تشریح:
(1) چونکہ چھوٹی بہنیں اولاد کی طرح ہوتی ہیں، اس لیے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے۔ (2) اگرچہ شوہر کی بچیوں کو سنبھالنا بیوی کے فرائض میں نہیں ہے لیکن اخلاقاً عورت کو ایسا کرنا چاہیے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ اولاد کے معاملے میں شوہر کی مدد کرنا بیوی پر واجب نہیں ہے، تاہم یہ ایک اخلاقی امر اور نیک عورتوں کی عادت ضرور ہے۔ (فتح البار`: 636/9) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں بہت سوچ بچار کرنی چاہیے، محض ظاہری حسن دیکھ کر کسی عورت پر فریفتہ ہو جانا کوئی عقلمندی نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5158
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5367
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5367
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5367
تمہید کتاب
عربی زبان میں نفقہ کی جمع نفقات ہے۔ اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جو شوہر اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد حضرات کو "قوام" کہا ہے اور اس کی قوامیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کمائی سے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مرد، عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں کیونکہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔" (النساء: 4/34) مہر کی ادائیگی کے بعد مرد کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرے، یعنی وہ روٹی، کپڑے اور رہائش کا بندوبست کرے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے، اس میں سے حسب توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (الطلاق: 56/7) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر معروف طریقے کے مطابق ان عورتوں کو کھانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خبردار! عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرو۔" (مسند احمد: 5/73) مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے مگر اس میں شوہر کی حیثیت کا خیال رکھا جائے گا لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ عورت کی حیثیت، مرضی اور خواہش کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "خوش حال انسان پر اس کی وسعت کے مطابق اور مفلس پر اس کی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔" (البقرۃ: 2/236) اس آیت کے پیش نظر اگر شوہر مال دار ہو اور اس کی آمدنی اچھی خاصی ہو اور عورت بھی مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو شوہر کو اخراجات کے سلسلے میں اپنی حیثیت اور اس کے معیار زندگی کا خیال رکھنا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورت اپنے گھر تو اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اور شوہر بھی مال دار ہو اور اس کے معیار زندگی کے مطابق اخراجات برداشت کر سکتا ہو مگر بخل کی وجہ سے سادہ کھانا دے اور عام سا پہنائے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت اس سے بذریعۂ عدالت اپنے معیار کا کھانا اور لباس طلب کر سکتی ہے۔ آرائش و زیبائش کی وہ چیزیں جو عورت کی صحت و صفائی کے لیے ضروری ہیں وہ اخراجات میں شامل ہیں اور ان کا فراہم کرنا بھی شوہر کے لیے ضروری ہے، مثلاً: تیل، کنگھی، صابن، نہانے دھونے کا سامان اور پانی وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! عورتوں کے ہمارے ذمے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ۔" (سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2142) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچیس (25) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور باقی بائیس (22) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں تین (3) کے علاوہ باقی تمام احادیث مکرر ہیں۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد آثار بھی پیش کیے ہیں اور ان احادیث و آثار پر سولہ (16) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے: ٭ اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ ٭ مرد کو بیوی بچوں کا خرچہ دینا ضروری ہے۔ ٭ عورت کو لباس دستور کے مطابق دینا چاہیے۔ ٭ مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر سکتا ہے۔ ٭ جب خاوند گھر سے باہر جائے تو بیوی بچوں کے اخراجات کا بندوبست کرے۔ بہرحال پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، ہم نے چیدہ چیدہ حواشی لکھے ہیں جو فہم احادیث کے لیے ضروری تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پڑھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہوئے تو انہوںنے سات یا نو بیٹیاں چھوڑیں۔ میں نے ایک شوہر دیدہ عورت سے نکاح کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے جابر! کیاتم نے شادی کرلی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے اپنا دل بہلاتی تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی؟ میں نے عرض کی: (میرے والد گرامی) سیدنا عبداللہ ؓ شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے کچھ بیٹیاں چھوڑ گئے۔ میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ ان کے پاس ان جیسی (کوئی با تجربہ کار) لے آؤں اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو انکی نگہداشت اور اصلاح کرتی رہے یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت دے یا تمہیں بھلائی نصیب کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ چھوٹی بہنیں اولاد کی طرح ہوتی ہیں، اس لیے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے۔ (2) اگرچہ شوہر کی بچیوں کو سنبھالنا بیوی کے فرائض میں نہیں ہے لیکن اخلاقاً عورت کو ایسا کرنا چاہیے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ اولاد کے معاملے میں شوہر کی مدد کرنا بیوی پر واجب نہیں ہے، تاہم یہ ایک اخلاقی امر اور نیک عورتوں کی عادت ضرور ہے۔ (فتح البار`: 636/9) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں بہت سوچ بچار کرنی چاہیے، محض ظاہری حسن دیکھ کر کسی عورت پر فریفتہ ہو جانا کوئی عقلمندی نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ میرے والد شہید ہو گئے اور انہوں نے سات لڑکیاں چھوڑیں یا (راوی نے کہا کہ) نو لڑکیاں۔ چنانچہ میں نے ایک پہلے کی شادی شدہ عورت سے نکاح کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا، جابر! تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا، کنواری سے یا بیاہی سے۔ میں نے عرض کیا کہ بیاہی سے۔ فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی کرتی۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ عبداللہ (میرے والد) شہید ہو گئے اور انہوں نے کئی لڑکیاں چھوڑی ہیں، اس لیے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کے پاس ان ہی جیسی لڑکی بیاہ لاؤں، اس لیے میں نے ایک ایسی عورت سے شادی کی ہے جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی اصلاح کا خیال رکھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا، اللہ تمہیں بر کت دے یا (راوی کو شک تھا) آنحضرت ﷺ نے ''خیراً'' فرمایا یعنی اللہ تم کو خیر عطا کرے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں بہت کچھ سوچ بچار کرنا ضروری ہے۔ محض ظاہری حسن دیکھ کر کسی عورت پر فریفتہ ہو جانا عقلمندی نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے بہت برکت دی۔ ان کا قرض بھی سب ادا کر دیا ہمیشہ خوش رہے اور ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : My father died and left seven or nine girls and I married a matron. Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "O Jabir! Have you married?" I said, "Yes." He said, "A virgin or a matron?" I replied, "A matron." he said, "Why not a virgin, so that you might play with her and she with you, and you might amuse her and she amuse you." I said, " 'Abdullah (my father) died and left girls, and I dislike to marry a girl like them, so I married a lady (matron) so that she may look after them." On that he said, "May Allah bless you," or "That is good."