باب: اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Eat of the lawful things that We have provided you with...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور فرمایا کہ اور خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میںسے جو تم نے کمائی ہیں اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو ، بے شک تم جو کچھ بھی کرتے ہو ان کو میں جانتا ہوں
5375.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ایک دن سخت بھوک لگی تو میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھنا چاہی انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی، پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں تھوڑی دور گیا تو بھوک کی وجہ سے منہ کے بل کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لبیك و سعد یك۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کر دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کے پیالے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس میں سے کچھ دودھ پیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ! دوبارہ پیو۔“ میں نے دوبارہ پیا۔ آپ نے فرمایا: ”اور پیو۔“ میں نے خوب پیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بے پر تیر کی طرح سیدھا ہو گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا: اسے عمر! اللہ تعالٰی نے نجھے اس ہستی کے حوالے کر دیا جو تم سے زیادہ حق دار تھے۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ سے ایک آیت کے متعلق پوچھا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں نے تجھے اپنے گھر میں داخل کر لیا ہوتا تو مجھے سرخ اونٹ ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت اس لیے پوچھی تھی کہ میں بھوکا ہوں اور وہ مجھے کچھ کھانے کو دیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا حال معلوم نہ کر سکے بلکہ وہ آیت پڑھ کر آگے تشریف لے گئے۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ افسوس کرنے لگے کہ میں اس وقت تمہارا مطلب نہ سمجھ سکا اور تم نے بھی اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔ میں نے یہی سمجھا تھا کہ تم وہ آیت بھول گئے ہو اور وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔ (2) مذکورہ تینوں احادیث میں اگرچہ انواع طعام کا ذکر نہیں ہے، تاہم طعام کے احوال اور اس کی صفات کا ذکر ضرور ہے، عنوان کے ساتھ ان احادیث کی یہی مطابقت ہے۔ (فتح الباري: 645/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5166
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5375
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5375
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5375
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حلال اور پاک رزق کھانے کا حکم دیا ہے کیونکہ رزق حلال کا دعا اور عبادت سے گہرا تعلق ہے۔ جس طرح رزق حرام کے باعث دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی اسی طرح قبولیت دعا و عبادت کے لیے رزق حلال کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس شخص کا کھانا، پینا اور پہننا حرام کمائی سے ہو، اس کی دعا کس طرح قبول ہو۔" (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: 2346 (1015))
اور فرمایا کہ اور خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میںسے جو تم نے کمائی ہیں اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو ، بے شک تم جو کچھ بھی کرتے ہو ان کو میں جانتا ہوں
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ایک دن سخت بھوک لگی تو میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھنا چاہی انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی، پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں تھوڑی دور گیا تو بھوک کی وجہ سے منہ کے بل کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! لبیك و سعد یك۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کر دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کے پیالے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس میں سے کچھ دودھ پیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ! دوبارہ پیو۔“ میں نے دوبارہ پیا۔ آپ نے فرمایا: ”اور پیو۔“ میں نے خوب پیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بے پر تیر کی طرح سیدھا ہو گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا: اسے عمر! اللہ تعالٰی نے نجھے اس ہستی کے حوالے کر دیا جو تم سے زیادہ حق دار تھے۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ سے ایک آیت کے متعلق پوچھا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں نے تجھے اپنے گھر میں داخل کر لیا ہوتا تو مجھے سرخ اونٹ ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت اس لیے پوچھی تھی کہ میں بھوکا ہوں اور وہ مجھے کچھ کھانے کو دیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا حال معلوم نہ کر سکے بلکہ وہ آیت پڑھ کر آگے تشریف لے گئے۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ افسوس کرنے لگے کہ میں اس وقت تمہارا مطلب نہ سمجھ سکا اور تم نے بھی اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔ میں نے یہی سمجھا تھا کہ تم وہ آیت بھول گئے ہو اور وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔ (2) مذکورہ تینوں احادیث میں اگرچہ انواع طعام کا ذکر نہیں ہے، تاہم طعام کے احوال اور اس کی صفات کا ذکر ضرور ہے، عنوان کے ساتھ ان احادیث کی یہی مطابقت ہے۔ (فتح الباري: 645/9)
ترجمۃ الباب:
نیز فرمان الہٰی: جو تم نے پاک کمائی کی ہے اس میں سے خرچ کرو۔“ اور فرمان الہیٰ: پاکیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو خوب جاننے والا ہوں کا بیان
حدیث ترجمہ:
ابو حازم سے روایت ہے کہ ان سے ابوہریرہ ؓ نے (بیان کیا کہ فاقہ کی وجہ سے) میں سخت مشقت میں مبتلا تھا، پھر میری ملاقات عمر بن خطاب ؓ سے ہوئی اور ان سے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کر سنائی اور پھر اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد میں بہت دور تک چلتا رہا۔ آخر مشقت اور بھوک کی وجہ سے میں منہ کے بل گر پڑا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے سر کے پاس کھڑے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اے ابو ہریرہ! میں نے کہا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! تیار ہوں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کیا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلا ہوں۔ پھر آپ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا ایک بڑا پیالہ منگوایا۔ میں نے اس میں دودھ پیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، دوبارہ پیو (ابوہریرہ!) میں نے دوبارہ پیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور پیو۔ میں نے اور پیا۔ یہاں تک کہ میرا پیٹ بھی پیالہ کی طرح بھر پور ہو گیا۔ ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر عمر ؓ سے ملا اور ان سے اپنا سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اے عمر! اللہ تعالیٰ نے اسے اس ذات کے ذریعہ پورا کرا دیا، جو آپ سے زیادہ مستحق تھی۔ اللہ کی قسم! میں نے تم سے آیت پوچھی تھی حالانکہ میں اسے تم سے بھی زیادہ بہتر طریقہ پر پڑھ سکتا تھا۔ عمر ؓ نے کہا اللہ کی قسم! اگر میں نے تم کو اپنے گھر میں داخل کر لیا ہوتا اورتم کو کھانا کھلا دیتا تو لال لال (عمدہ) اونٹ ملنے سے بھی زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
مگر افسوس ہے کہ میں اس وقت تمہارا مطلب نہیں سمجھا اور تم نے بھی کچھ نہیں کہا۔ میں یہی سمجھا کہ تم ایک آیت بھول گئے ہو اس کو مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ پیٹ بھر کر کھانا پینا درست ہے کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ حدیث کی گہرائی میں جا کر مطلب نکالنا غایت کمال تھا جو اللہ تعالیٰ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا اللہ تعالیٰ ان چمگادڑوں پررحم کرے جو آفتاب عالم تاب کو نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے اسکے وجود ہی کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ لبئس ما کا نوا یصنعون۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Once while I was in a state of fatigue (because of severe hunger), I met 'Umar bin Al-Khattab (RA), so I asked him to recite a verse from Allah's Book to me. He entered his house and interpreted it to me. (Then I went out and) after walking for a short distance, I fell on my face because of fatigue and severe hunger. Suddenly I saw Allah's Apostle (ﷺ) standing by my head. He said, "O Abu Hurairah (RA) !" I replied, "Labbaik, O Allah's Apostle, and Sadaik!" Then he held me by the hand, and made me get up. Then he came to know what I was suffering from. He took me to his house, and ordered a big bowl of milk for me. I drank thereof and he said, "Drink more, O Abu Hirr!" So I drank again, whereupon he again said, "Drink more." So I drank more till my belly became full and looked like a bowl. Afterwards I met 'Umar and mentioned to him what had happened to me, and said to him, "Somebody, who had more right than you, O 'Umar, took over the case. By Allah, I asked you to recite a Verse to me while I knew it better than you." On that Umar said to me, "By Allah, if I admitted and entertained you, it would have been dearer to me than having nice red camels.