باب: اس بارے میں کہ سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: When going on a journey, pray Zuhr prayer when it becomes cooler)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
539.
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے کہ مؤذن نے نماز ظہر کے لیے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔‘‘ اس نے کچھ دیر بعد پھر اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔‘‘ تاآنکہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: ’’گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے، اس لیے جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے (تتفيأ) کے معنی بایں الفاظ بیان کیے: جب ان کے سائے جھک جاتے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اذان دینے والے سیدنا بلال ؓ تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے کی تلقین فرمائی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تو اذان دی گئی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث :629) اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک نماز ظہر کا انتظار کیا، بلکہ ساوٰی کے الفاظ ظَهَرَ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرنے کے لیے اس کے آخری وقت کا انتظار کیا ہو۔ (فتح الباري:29/2) لیکن حدیث میں جمع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بظاہر راوی کا ارادہ حقیقی مساوات بیان کرنا نہیں بلکہ سایہ ظاہر ہونے کو بیان کرنا ہے۔ جیساکہ حدیث:(535) سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) بعض ائمۂ کرام نے سخت گرمی کے دنوں میں نماز ظہر مؤخر کرنے کے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ تاخیر اس صورت میں ہوسکتی ہے جب لوگوں کو سخت گرمی میں نمازادا کرنا دشوار ہو اور نمازیوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے مسجد میں آنا پڑے، منفرد کے لیے بہر صورت اول وقت نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے نہ آنا پڑتا ہو یا نماز پڑھنے والے ایک مقام پر جمع ہوں یا دور سے آنے کی صورت میں سائے وغیرہ کا اہتمام ہوتو نمازمؤخر کرنے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں:’’امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کی ہدایت صرف اس صورت میں ہے جب نمازیوں کو مسجد میں دور سے آنا پڑتا ہو لیکن تنہا یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے والے کے متعلق میں یہی پسند کرتا ہوں کہ گرمی کی شدت میں بھی نماز ظہر کو مؤخر نہ کیا جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:157) امام بخاری ؒ کا اس عنوان کے ذریعے سے غالباً اسی موقف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز ظہر کو تاخیر سے ادا کرنے کا حکم سفروحضر دونوں میں عام ہے اور اس میں کسی طرح کی تخصیص نہیں ہے۔ (3) ابراد کےلیے کوئی خاص حد بیان نہیں ہوئی کہ اس کی انتہا کیا ہے؟ مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے ٹھنڈا کرتے کرتے اسے اس کے آخر وقت تک نہ پہنچا دیا جائے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں اس وقت نماز کو ٹھنڈا کیا جائے، جب مسافر حضرات پڑاؤ کیے ہوئے ہوں، بصورت دیگر جب سفر جاری ہوتو اس وقت جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں ممکن ہیں۔ (4) امام بخاری ؒ کا یہ اسلوب ہے کہ اگر حدیث میں کوئی ایسا لفظ آجائے کہ وہ یا اس سے ملتا جلتا لفظ قرآن نے استعمال کیا ہو تو قرآن کریم کے لفظ کوذکر کر کے اس کی لغوی تشریح کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آنے والے لفظ (فيئ التلول) کی مناسبت سے(يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ) (النحل: 16: 48) کی لفظی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا کہ اس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی سائے کو (فيئ) اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے ایک جانب جھکا ہوتا ہے، پھر دوسری طرف مائل ہوجاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
533
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
539
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
539
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
539
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کا دارومدار جہنم کی بھاپ یا اس کے جوش مارنے پر ہے،لہٰذا ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے میں سفرو حضر دونوں برابر ہیں۔
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے کہ مؤذن نے نماز ظہر کے لیے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔‘‘ اس نے کچھ دیر بعد پھر اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔‘‘ تاآنکہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: ’’گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے، اس لیے جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے (تتفيأ) کے معنی بایں الفاظ بیان کیے: جب ان کے سائے جھک جاتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اذان دینے والے سیدنا بلال ؓ تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے کی تلقین فرمائی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تو اذان دی گئی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث :629) اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک نماز ظہر کا انتظار کیا، بلکہ ساوٰی کے الفاظ ظَهَرَ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرنے کے لیے اس کے آخری وقت کا انتظار کیا ہو۔ (فتح الباري:29/2) لیکن حدیث میں جمع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بظاہر راوی کا ارادہ حقیقی مساوات بیان کرنا نہیں بلکہ سایہ ظاہر ہونے کو بیان کرنا ہے۔ جیساکہ حدیث:(535) سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) بعض ائمۂ کرام نے سخت گرمی کے دنوں میں نماز ظہر مؤخر کرنے کے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ تاخیر اس صورت میں ہوسکتی ہے جب لوگوں کو سخت گرمی میں نمازادا کرنا دشوار ہو اور نمازیوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے مسجد میں آنا پڑے، منفرد کے لیے بہر صورت اول وقت نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے نہ آنا پڑتا ہو یا نماز پڑھنے والے ایک مقام پر جمع ہوں یا دور سے آنے کی صورت میں سائے وغیرہ کا اہتمام ہوتو نمازمؤخر کرنے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں:’’امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کی ہدایت صرف اس صورت میں ہے جب نمازیوں کو مسجد میں دور سے آنا پڑتا ہو لیکن تنہا یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے والے کے متعلق میں یہی پسند کرتا ہوں کہ گرمی کی شدت میں بھی نماز ظہر کو مؤخر نہ کیا جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:157) امام بخاری ؒ کا اس عنوان کے ذریعے سے غالباً اسی موقف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز ظہر کو تاخیر سے ادا کرنے کا حکم سفروحضر دونوں میں عام ہے اور اس میں کسی طرح کی تخصیص نہیں ہے۔ (3) ابراد کےلیے کوئی خاص حد بیان نہیں ہوئی کہ اس کی انتہا کیا ہے؟ مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے ٹھنڈا کرتے کرتے اسے اس کے آخر وقت تک نہ پہنچا دیا جائے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں اس وقت نماز کو ٹھنڈا کیا جائے، جب مسافر حضرات پڑاؤ کیے ہوئے ہوں، بصورت دیگر جب سفر جاری ہوتو اس وقت جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں ممکن ہیں۔ (4) امام بخاری ؒ کا یہ اسلوب ہے کہ اگر حدیث میں کوئی ایسا لفظ آجائے کہ وہ یا اس سے ملتا جلتا لفظ قرآن نے استعمال کیا ہو تو قرآن کریم کے لفظ کوذکر کر کے اس کی لغوی تشریح کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آنے والے لفظ (فيئ التلول) کی مناسبت سے(يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ) (النحل: 16: 48) کی لفظی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا کہ اس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی سائے کو (فيئ) اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے ایک جانب جھکا ہوتا ہے، پھر دوسری طرف مائل ہوجاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا، وہ ابوذر غفاری ؓ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ (تب اذان کہی گئی) پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا: یتفيأ (کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے) کے معنے یتمیل (جھکنا، مائل ہونا) ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا آجائے جوقرآن میں بھی ہو توساتھ ہی قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں حدیث میں یتفیأ کا لفظ ہے جو قرآن مجید میں یتفیأ مذکور ہواہے، مادہ ہردو کا ایک ہی ہے، اس لیے اس کی تفسیر بھی نقل کردی ہے۔ پوری آیت سورۃ نحل میں ہے جس میں ذکر ہے کہ ہرچیز کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے بھی دائیں اورکبھی بائیں جھکتا رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar Al-Ghifar (RA): We were with the Prophet (ﷺ) on a journey and the Mu'adhdhin (call maker for the prayer) wanted to pronounce the Adhan (call) for the Zuhr prayer. The Prophet (ﷺ) said, 'Let it become cooler." He again (after a while) wanted to pronounce the Adhan but the Prophet (ﷺ) said to him, "Let it become cooler till we see the shadows of hillocks." The Prophet (ﷺ) added, "The severity of heat is from the raging of the Hell-fire, and in very hot weather pray (Zuhr) when it becomes cooler."